انسانی جسم میں سور کا دل: جاوید غامدی اور انجینئر مرزا کا موقف


ایک تصویر جو اکثر ہماری نظروں سے گزرتی رہتی ہے جس میں ایک سائنسدان اپنی لیبارٹری میں بیٹھا تجربات میں مشغول ہوتا ہے اور اس کے پیچھے یا محاورتاً کہہ لیں کہ سر کے عین اوپر مذہبی کلاس کے نمائندے ان سائنسی سرگرمیوں پر نظریں گاڑے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ سائنسدان اپنے تجربات کی روشنی میں جب اپنی دریافت کا اعلان کرے تو وہ فوری طور پر یہ ڈیکلیئر کر دیں گے کہ ”اس دریافت کا تذکرہ تو ہماری مذہبی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا“ اور اس سائنسدان نے کوئی اتنا بڑا تیر نہیں مارا۔

اس طبقے کا شروع دن سے یہ المیہ رہا ہے کہ پہلے یہ اپنی کتابوں سے کشید کر کے ”ہارڈ اینڈ فاسٹ“ اصول متعین کر لیتے ہیں اور پھر انہیں اٹل قرار دے دیتے ہیں مگر جیسے ہی سائنس کسی ”نیکڈ سچائی“ کا انکشاف اور علمی دنیا میں ہلچل مچاتی ہے تو پھر یہی لوگ اپنے اٹل اصولوں پر یوٹرن لے کر ”جواز بیانیاں“ اور موٹی موٹی اصطلاحات کا سہارا لے کر خود کو بدلتی سچائی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور بعض دفعہ یہ جواز اتنے مضحکہ خیز لگتے ہیں کہ پرکھنے والے پہلے دو جملوں میں ہی جان جاتے ہیں کہ ”حضرت علامہ“ یہاں کس قسم کی گگلی کروا رہے ہیں۔

مگر اعتماد بلا کا لہجہ میں ہوتا ہے اور ڈھٹائی کا لیول آسمانوں کو چھو رہا ہوتا ہے اور اطمینان قلب اتنا کہ ”کون ہمیں پکڑ پائے گا“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے ”جوازی پنکچروں“ سے شاید یہ اپنے طبقے کو تو کسی حد تک مطمئن کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا پیمانہ عقیدت ہوتا ہے اور جہاں عقیدت ہوتی ہے وہاں سوال نہیں ہوتا مگر یہ بین الاقوامی سطح پر لاکھوں لوگوں کو مطمئن بالکل نہیں کر سکتے۔

اپنوں کو مطمئن کرنا تو کوئی کمال نہیں ہوتا کمال تو وہ ہوتا ہے جو آج سائنس کر رہی ہے جسے آپ سمیت چاہے نیم دلی سے سہی مگر اقرار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مگر ہمارا رویہ بالکل اس مثل کی مانند بن چکا ہے کہ ”دودھ بھی دینا مگر کچھ مینگنیاں ڈال کر“ مطلب تسلیم بھی کرنا مگر کچھ ”اگر مگر چونکہ چنانچہ“ کے ساتھ کیو نکہ ہم اتنے بھی جاہل نہیں ہیں کہ سب کچھ آنکھ بند کر کے تسلیم کر لیں اور چوں بھی نہ کریں۔ امریکہ میں ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر نے انسانی جسم میں سور کا دل ٹرانسپلانٹ کر کے میڈیکل سائنس کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے، یہ تجربہ کامیاب رہا اور مستقبل میں بہت سی انسانی جانیں اس جدید تحقیق کی وجہ سے بچائی جا سکیں گی۔ اس کامیابی کے متعلق جب جاوید احمد غامدی سے پوچھا گیا تو ان کا فرمانا تھا کہ

”اگر اس وقت میں خود مریض ہوتا تو میں اپنے جسم میں سور کا دل ٹرانسپلانٹ کروانے کی بجائے اللہ کے حضور پیش ہونے کو ترجیح دیتا مگر سور کا دل نہ لگواتا“

ان کا کہنا تھا کہ سور کا گوشت کھانے سے انسان میں درندگی پیدا ہوتی ہے۔ غامدی صاحب بصد احترام کیا حلال جانوروں کا گوشت کھانے سے انسانوں میں درندگی کا عنصر شامل نہیں ہو سکتا؟ اگر سور کا گوشت کھانے سے انسان میں درندگی پیدا ہوتی ہے تو کیا ادویات میں استعمال ہونے والی شراب سے بننے والی ادویات کھانے سے انسان میں درندگی پیدا نہیں ہو گی؟ چو نکہ آپ کے نزدیک حرام کا تھوڑا سا لقمہ بھی انسان کے لئے جائز نہیں ہوتا چونکہ اس سے انسانی دل مردہ ہوجاتا ہے تو ادویات کے ذریعہ سے جو تھوڑا تھوڑا درندگی کا عنصر ہمارے وجود میں منتقل ہوتا ہے تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

اگر انسانی جان بچانے کے لیے ادویات حد تک حتیٰ کہ خنزیر کا گوشت بھی کھایا جاسکتا ہے تو سور کا دل ٹرانسپلانٹ ہونے سے کیا مسئلہ بنتا ہے؟ ویسے یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سور کا گوشت کھانے والے، شراب کباب کے مزے لوٹنے والے ہی انسان زندگیوں کو بچانے کے لئے مذہب، نسل سے اوپر اٹھ کر کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جبکہ ہم تمام مذہبی اصولوں کی پاسداری کے باوجود اپنے ہی لوگوں کو ملاوٹ زدہ چیزیں کھلا کر موت کی طرف دھکیلنے میں لگے رہتے ہیں۔

انسانی جسم میں سور کا دل ٹرانسپلانٹ کرنے کے پروجیکٹ پر کافی لمبا عرصہ سے تحقیق ہو رہی تھی یہ کوئی چٹکیوں میں تشکیل پانے والا عمل نہیں ہے بلکہ پورا ٹیم ورک ہے اور ایک انسانی ذہنی فتح ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ سور کا گوشت کھانے سے درندگی پیدا ہوتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ راز فطرت کے سب سے زیادہ کھوجی حرام کا گوشت کھانے والے ہی ہیں اور یہ دن رات انہی چکروں میں رہتے ہیں کہ انسانی دکھوں کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے اور کافی جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔

اس حقیقت کا اندازہ آپ ان ویکسین سے لگا سکتے ہیں جو نیو بورن بے بی کو لگتی ہیں جس کی بدولت وہ اپنی آنے والی زندگی میں بہت ساری بیماریوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ویسے کمال کی بات نہیں ہے کہ وہ درندگی والے ہارمونز اپنے وجود میں رکھنے کے باوجود ”ننھے مہمانوں“ کا مستقبل محفوظ بنانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ہم حلال گوشت کھانے والے انہی ننھے بچوں کے ابتدائی دودھ کے ڈبوں میں سرف کا پاؤڈر اور درجنوں زہریلے کیمیکل مکس کر کے انہیں ہزاروں بیماریوں کا تحفہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔

ہماری اخلاقیات اور حرام گوشت کھانے والوں کی اخلاقیات میں اتنا زیادہ تضاد کیوں ہے؟ البتہ انجینئر محمد علی مرزا نے اپنا دل بڑا کرتے ہوئے اس انسانی کامیابی پر پوری میڈیکل ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور امید ہے کہ مستقبل میں اس تحقیق سے بہت سی جانیں بچائی جا سکیں گی۔ یہ اچھی بات ہے جس کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور باقی علماء کو بھی دل بڑا کر کے اس انسانی کامیابی کے لمحے کو انجوائے کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments