دماغ کی جادوگری


یہ جو کلو بھر، نرم نرم، خوبصورت نقش و نگار والا پیڑا سا، ہمارے جسم کے اوپر ایک ہڈیوں سے بنے مضبوط سیف میں پڑا ہوا ہے نا، بڑا جادوگر ہے۔ یہ جو ہمیں کسی حقیقت پر قائل کرے، ہم اسے ہی حقیقت مانتے ہیں۔ خواہ وہ شے صرف واہمہ ہو۔ غرض اگر یہ مصرعہ کسی جادوگر کے بارے کہا جائے ”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“ تو وہ یہی دماغ ہے۔ یہ اتنا کائیں ہے کہ ہماری آنکھ کا کیمرہ ہر چیز کی تصویر آنکھ کے پچھلے پردے پر الٹی بناتا ہے لیکن دماغ اسے خود ہی سیدھا سمجھ کر ہمارے احساس کو دھوکہ دے دیتا ہے۔ یعنی ہمارے گرد جو کائنات ہے، یہ بالکل ایسا ہر گز نہیں جسے ہمارا ذہن قبول کرتا ہے۔ دراصل ہمارا دماغ ہمیں ہر وقت جھوٹ بتا کر یقین کرواتا ہے۔ بس ہماری پوری زندگی اسی نظر کے دھوکے میں گزر رہی ہے۔

فروری 2014 میں انٹرنیٹ نے ایک پینڈورا بکس کھولا۔ کسی نے ایک سنہرے اور سفید ڈریس کی تصویر لگادی۔ لیکن یہی تصویر اختلاف کا ایک مرکز بن گئی۔ یہی ایک تصویر کسی کو سنہرے اور سفید رنگ میں نظر آئی تو کسی کو نیلے اور سیاہ رنگ میں۔ جہاں یہ تصویر بصری دھوکے کی ایک علامت بن گیا۔ بلکہ یہ سبق بھی سکھا گیا کہ معروضی حقیقت جو بھی ہو، ہم یقین اس پر کریں گے جو تصور ہمارا دماغ ہمیں بتائے گا۔ اسی طرح بہت سی مثالیں نظر کے دھوکے کی وجہ سے ہمیں کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے نظر آتے ہیں۔ اگر آپ ایک ساکت ٹرین میں بیٹھے ہوں اور ساتھ والی پٹڑی پر کوئی دوسری ریل گاڑی آگے کی طرف روانہ ہو جائے تو ہمیں چند لمحوں کے لئے یوں لگے گا جیسے ہماری ٹرین پیچھے کی طرف جا رہی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ نہ صرف ہماری بصری حس ہمیں دھوکہ دے سکتی ہے بلکہ دوسرے احساسات بھی ہمارے دماغ کی چھلنی سے چھن کر کوئی اور طرح ہی سے محسوس ہو سکتی ہے۔ اور ارتقا کے پیش نظر ہماری بقا کے لئے ضروری ہو سکتی ہیں۔ خواہ وہ اصل میں کچھ اور ہوں۔

ہم پر ہر طرف سے مختلف احساسات کی بارش ہو رہی ہوتی ہے چاہے وہ روشنی کے ذرات (فوٹان) ہوں، مختلف فریکوینسی کی آوازیں یا کیمیکلز سے اٹھنے والی لہریں۔ لیکن یہ تمام احساسات ہمارے لئے تب تک کوئی معنی نہیں رکھتے جب تک یہ دماغ کی چھلنی سے نہ گزریں۔ دماغ ان میں سے غیر ضروری معلومات الگ کر دیتا ہے اور اہم احساسات کو ایک معنی دے دیتا ہے جو روشنی کے ذرات کی بجائے ہمیں ایک باغ کی شکل میں نظر آئیں یا فریکوینسی کی بجائے موسیقی کی جھنکار کی شکل اختیار کر لے اور یا کیمیکل کی لہریں کسی خوشبو کا احساس دلا دیں۔

مطلب یہ کہ ہم تک پہنچنے والی ساری حسیات اس وقت تک فضول ہیں جب تک وہ ہمارے دماغ کے چرخے سے کوئی مطلب اخذ نہ کریں۔ دماغ ایک سپر کمپیوٹر کی طرح نہ صرف نظر، آواز، ذائقہ، لمس کے سگنل وصول کرتا ہے بلکہ اس سے معنی نکالنے کے لئے ماضی کا تجربہ، دوسرے تجربوں کے ساتھ تقابل اور مشکل حساب کتاب کر کے ہمیں ایک مفید مجسم حقیقت بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ اور کئی بار کسی ایک حس کی غیر موجودگی کی کمی غائب سے پوری کر دیتا ہے۔

کسی حس کی کمی کو کیسے پورا کیا جاتا ہے، بین اینڈرسن کی زندگی کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ بین کی بصارت ایک غیرمعمولی کینسر کی وجہ سے تین سال کی عمر میں مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ بین نے اس کا متبادل اپنی زبان کو استعمال کیا۔ زبان کو تالو کے ساتھ ملا کر اچانک چھوڑنے سے ”ٹک“ کی جو آواز آتی ہے۔ اسے بین نے اپنی بصارت بنا لیا۔ یہ آواز نکالنے کے بعد مختلف چیزوں سے ٹکرا کر واپس گونج کی شکل میں بین کی کان میں واپس آتی تھی۔ چمگادڑوں کی طرح اس منعکس آواز کی تبدیلی اور وقفے سے بین اپنے گرد کی دنیا کو محسوس کرنے لگا۔ یعنی اس کے دماغ نے صرف بصارت چلے جانے کو اپنی معذوری نہیں بنایا۔

دماغ ایک ساکت عضو نہیں۔ بلکہ یہ ہر تجربے کو اپنی ترقی میں استعمال کرتا ہے۔ جس تواتر سے یہ اپنے ماحول سے تعلق بڑھاتا رہتا ہے، اس کی طاقت اور بڑھتی جاتی ہے۔ مسلز یا عضلات کی بڑھوتری جس طرح ورزش سے ہوتی ہے۔ اسی طرح دماغ کو طاقتور بنایا جاسکتا ہے۔ ایک تجربے میں چوہوں کے ایک گروپ کو ایک متحرک ماحول میں رکھا گیا جہاں پہیے، ڈنڈے، پانی وغیرہ کافی تھے۔ دوسرے گروہ کو ایک سادہ ڈبے میں رکھا گیا۔ ایک ماہ بعد جب ان کے دماغ کو ماپا گیا تو پہلے گروہ کے دماغ کا وزن بڑھ چکا تھا۔ ایک اور تجربے میں انسانوں کے ایک گروہ کو ایک مقناطیسی بلٹ پہنائی گئی جو شمال کی طرف رخ کرنے پر وائبریشن کرتی تھی۔ چند ہی ہفتوں میں دوسرے گروہوں کی نسبت اس گروہ میں مقام اور سمت معلوم کرنے کی حس بڑھ گئی۔ یاد رہے کہ اکثر جانوروں کو مقناطیسی فیلڈ محسوس ہوتی ہے جس سے وہ سمت کا تعین کر سکتے ہیں۔

دماغ تمام وصول شدہ سگنلز کو اپنے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ آپ کسی انگریزی میں لکھے کسی پیرے کے الفاظ کو اس طرح بدلیں کہ ان میں سے کئی حروف نکال دیں یا ترتیب بدل دیں۔ دماغ ماضی کے تجربے کی وجہ سے اس تمام پیرے کو بالکل صحیح پڑھے گا۔

ہمارا دماغ سامنے رکھی ہوئی چیز کو کچھ سے کچھ بنا سکتا ہے۔ 1949 میں ایک روسی آرٹسٹ کی بنائی تصویر توجہ کا مرکز بن گئی۔ ایک سیاہ مکعب کو کچھ لوگ تو اسی طرح سمجھتے رہے جبکہ بعض کو وہ آرٹس کی متحرک پہچان کے طور پر سمجھتے رہے۔ اسی طرح نقدی کے سکے غریب بچوں کو دوسروں کی نسبت بڑے دکھتے ہیں۔ یا پہاڑوں کی تصویریں اس وقت بڑی لگتی ہیں جب آپ تھکے ہوئے ہوں۔ گویا دماغ ایک ادھوری تصویر کو اپنے تجربے سے مکمل کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔

ایک تجربے میں ایک بائی سائیکل کے ہینڈل کو یوں تبدیل کیا گیا کہ ہینڈل کو دائیں موڑنے سے پہیہ بائیں طرف مڑ جاتا تھا۔ بہت اچھے اچھے سائیکلسٹ اسے چلانے میں ناکام رہے کہ دماغ میں پہلے سے یہ جم چکا تھا کہ سائیکل کے ہینڈل کو ایک طرف گھمانے سے پہیہ اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر آپ اپنے دماغ کو کسی نئی تکنیک سے آشنا کرنا چاہتے ہیں تو پرانے تجربے جو وہاں کند شدہ ہیں، ان کو بیخ سے کھرچنا ہو گا۔ اگر سائنس دان اس پرانی روایت کہ یہ دنیا کائنات کا مرکز ہے، کو نظر انداز نہ کرتے تو آج ہم کائنات کے رازوں اسی طرح محروم رہتے۔ اگر لکھائی چھپائی کے پرانے تصورات اسی طرح ہمارے دماغ سے چمٹے ہوتے تو آج میں یہ سارا کالم اپنے موبائل فون سے لکھنے کے کبھی قابل نہ ہوتا۔

انسانی دماغ نامعلوم ماحول سے خوف زدہ ہوتا ہے کیوں کہ اس کے تمام تجربات مختلف سگنلوں کو ایک مخصوص پس منظر میں اخذ شدہ ہوتے ہیں۔ جب یہ پس منظر بدل جاتا ہے تو اس کے سامنے تمام حسیات کے اربوں سگنلوں میں سے ضروری سگنل الگ کرنا اور پھر اپنا پھر ان سے ایک نئی ہیئت تخلیق کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ یہی منطق ایک بچے تو کیا بالغ افراد کو بھی اندھیرے سے ڈراتی ہے۔

یہ دماغ کے بارے ایک عمومی تعارف ہے اور اسے Beao Loto کی کتاب Deviate سے کسی حد تک اخذ کیا گیا ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ دماغ اور ذہن کے بارے چند اور قسطوں میں آسان زبان میں لکھوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments