پاکستان کا روشن چہرہ


ایک معصوم بچہ جس نے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا تو غربت چہار اطراف پہرہ دے رہی تھی، باپ بالکل ان پڑھ تھا مگر اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتا تھا، اس کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے جن کو اپنے بچوں کے پیکر میں حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا، علاقہ بھر میں کوئی سکول نہیں تھا لیکن پھر بھی اس نے آس کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، اس نے اپنے بچے کو گاؤں سے 12 میل دور ایک دوسرے گاؤں کے سکول میں داخل کروا دیا، دونوں گاؤں کے درمیان کا راستہ انتہائی سنگلاخ اور تکلیف دہ تھا اور اس پر ستم یہ کہ قیامت خیز سردی سے بچنے کے لیے مناسب کپڑے تھے نہ جوتے، کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ اس معصوم کو ننگے پاؤں چل کر سکول جانا پڑا، مگر یہ بچہ بھی بلا کی ہمت رکھتا تھا، بہت بچپن سے ہی زندگی کی تلخیوں کو بہت قریب سے دیکھ چکا تھا، جب کہ فطرت کا غیبی ہاتھ اس کی شخصیت کی تعمیر میں مصروف کار تھا، اس کا دل خوابوں خیالوں میں مگن مستقبل کی تصویر بناتا اور اس میں رنگ بھرتا رہتا تھا، اس کا گھر دنیا کے سنگلاخ پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک گاؤں میں تھا، اس کی دنیا بظاہر بہت محدود تھی مگر اس کے خواب آسمان سے باتیں کر رہے تھے، اس معصومیت کے پیکر نے بچپن میں چند شہروں کے نام سن رکھے تھے، جیسے راولپنڈی، کراچی اور نیو یارک وغیرہ اور اس کا گمان تھا کہ اس سامنے والے پہاڑ کے پیچھے یہ بڑے بڑے شہر واقع ہیں، وہ ایک دن اس پہاڑ پر چڑھ کر دوسری سمت ان شہروں کو دیکھ لے گا۔

اسے خود اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ ان بلند و بالا پہاڑوں سے اس کا تعلق کب دوستی میں بدلا اور اس دوستی نے کب عشق کا روپ دھارا، بس اک نہ ٹوٹنے والے تعلق اور لا زوال عشق کا سلسلہ شروع ہو گیا، ابتدائی تعلیم کے بعد ایبٹ آباد اور راولپنڈی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہنے کے بعد یہ نوجوان دوبارہ اپنے گاؤں لوٹا تو پہاڑوں پر چڑھنے کا اس کا شوق دوچند ہو چکا تھا، اس جنون کے تحت اس نوجوان نے 1991 میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی 2۔ Gudwin Austin K کو سر کر لیا، یہ بھی الگ سے ایک بڑی دلچسپ اور ہوشربا داستان ہے کہ کن حالات میں اور کن سخت مراحل سے گزر کر یہ بلند اور خطرناک چوٹی سر ہوئی، اس چوٹی کو سر کرنے سے پہلے ہی اس نوجوان کا بڑا بھائی پہاڑوں پر چڑھنے کے شوق میں جان کی بازی ہار بیٹھا تھا، مگر اس مرد آہن کا عشق تمام جذباتی رشتوں پر حاوی ہو چکا تھا، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور K 2 کو سر کرنے چل پڑا، پہاڑوں کو سر کرنے کی مہم دنیا کی خطرناک ترین مہم ہوتی ہے، اس کو دنیا کا سب سے زیادہ ہلاکت انگیز کھیل قرار دیا جا چکا ہے، اس کھیل میں ہار کی قیمت اپنی جان کی قیمت دے کر چکانا پڑتی ہے.

اس نو جوان نے اپنے ساتھی ہائیکرز کی اموات کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی یخ بستہ اور کھوپڑیوں کے بغیر لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایا، برفانی تودوں کو محض چند فٹ کے فاصلے سے سینکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرتے دیکھا، رسوں کو ٹوٹتے اور راشن کو ختم ہوتے دیکھا، کئی دفعہ تو یوں ہوا کہ موت اس کے بالکل سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھی، مگر قسمت کو شاید اس سے ابھی اور منزلیں طے کروانا مقصود تھیں، اس کی نظر میں آسمان سے باتیں کرتے یہ بلند و بالا پہاڑ محض بے جان مخلوق نہیں بلکہ عزم و ہمت کی ہزار داستان تھے، وہ یقین رکھتا تھا کہ ان پہاڑوں کا کڑا اور گہرا سکوت شعور انسانی کی تربیت کے لئے بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

2000 میں یہ نوجوان دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے چل پڑا اور ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے لئے ماؤنٹ ایورسٹ جتنا بلند حوصلہ چاہیے تھا، جو اس کے پاس موجود تھا، قدم قدم پر عزم و ہمت کی داستانیں رقم کرتا ہوا یہ نوجوان دنیا کے بلند ترین معلوم مقام ماؤنٹ ایورسٹ پر سبز ہلالی پرچم لہرا آیا اور ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والا پہلا پاکستانی بن گیا۔

ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے اس پہلے پاکستانی کوہ پیما ”نذیر صابر“ کو حکومت پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا۔ نذیر صابر کی ساری زندگی مصیبتوں اور مشکلوں سے لڑتے ہوئی گزری، زندگی کی تند و تیز ہواؤں نے ہر قدم پر اس کا راستہ روکا مگر اس کی بلند حوصلگی ہمیشہ اس کے لئے مینارہ نور ثابت ہوئی، جن لوگوں کے راستے عام لوگوں سے مختلف اور مشکل ہوتے ہیں ان کی منزلیں بھی خاص اور اچھوتی ہوا کرتی ہیں، نذیر صابر نے اپنی زندگی میں وہ مناظر دیکھے جن کو عام آدمی دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، K 2 جسے دنیا کی خطرناک ترین چوٹی کہا جاتا ہے اسے سر کرنے میں ابھی کچھ فاصلہ باقی تھا کہ رات پڑ گئی اور مہیب اندھیرے نے اپنے پر پھیلا دیے، ایک تنگ اور تاریک جگہ پر اسے رات گزارنا پڑی، اچانک اس نے دیکھا کہ چودھویں رات کا پورا چاند اس کے قدموں سے طلوع ہو رہا تھا اور اس پورے چاند کے ہیبت ناک حسن سے وہ کچھ ثانیوں کے لئے لرزہ براندام ہو گیا، پھر اس کا دل سرشاری کے عجیب جذبات سے معمور ہو گیا، وہ اس لمحے کو اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ شاید خدا نے اسے یہ لازوال لمحہ دیکھنے کے لئے پیدا کیا۔

وہ پاکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک قرار دیتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ پاکستانی ہے بلکہ اس کے لئے وہ سیاحت کے لحاظ سے تمام اہم اور مشہور ممالک دیکھ چکا ہے، لیکن اسے پاکستان جیسا فطری حسن کہیں نہیں ملا، وہ کہتا ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سال کے 365 دنوں میں سیاحت ہو سکتی ہو، کیونکہ پاکستان میں ایک ہی وقت میں 40 ڈگری درجہ حرارت بھی ملتا ہے اور منفی 40 ڈگری بھی۔

وہ اپنے وطن سے بہت پیار کرتا ہے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، نذیر صابر پاکستانی قوم کا وہ روشن چہرہ ہے جسے دنیا دیکھتی ہے تو حیران رہ جاتی ہے، وہ چہرہ جسے دیکھنے کے لئے برطانیہ کی قدیم آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیمینار ہال میں موجود ہزاروں اساتذہ اور طلبہ اپنی ایڑیاں اٹھا لیتے ہیں اور اس کی عظمت اور دلاوری کی داد دیتے ہیں، نذیر صابر رواداری اور مساوات کا قائل ہے، وہ پاکستان میں امن چاہتا ہے اور پوری دنیا کے سیاحوں کو پاکستان کا فطری حسن دکھانا چاہتا ہے، نگری نگری پھرنے والا یہ مسافر اعلی درجے کا فوٹو گرافر بھی ہے جو قابل دید مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ہنر جانتا ہے، اس کے پاس اپنی کھینچی ہوئی بے مثال تصاویر کا ایک خزانہ موجود ہے، نذیر صابر یقیناً پاکستان کی پوری قوم کا فخر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments