بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں


فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد آج کل اپنے ایک تازہ شگوفے کی وجہ سے خبروں اور تبصروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ میدان سیاست میں طاقت کے مراکز سے شناسائی کا دعوی کرنے والی چند شخصیات میں شیخ صاحب کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے ایک تازہ بیان میں فرمایا ہے۔ جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے اپوزیشن چاہتی ہے وہ اس کے سر پر آ جائے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ یہ ہاتھ ان کی گردن تک تو پہنچ سکتا ہے مگر سر پر نہیں رکھا جاسکتا۔

موصوف کا یہ بیان ایک طرف طاقتور قوتوں کی طرف سے سیاست میں ملوث نہ ہونے کے دعوے کی نفی کرتا ہے۔ اور دوسری طرف عوام میں حکومت کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کا اعتراف۔ اس بات سے قطع نظر، اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو اقتدار برقرار رکھنے کے لیے بیساکھیاں فراہم کر رکھی ہیں۔ وزیر داخلہ یہ بھی کہہ سکتے تھے۔ عسکری قیادت جمہوری حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ایسا بیان اخلاقی اور جمہوری معیار پر پورا اتر سکتا تھا۔ مگر شاید شیخ صاحب اپنے آپ کو جمہوریت پسند کے بجائے اسٹیبلشمنٹ نواز کہلوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

چند دن قبل جنرل بابر افتخار نے بڑے واضح انداز میں ڈیل کی خبروں کی تردید کر دی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو شخص ڈیل کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہے۔ اسی سے سورس بھی پوچھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ جنرل صاحب کے دو ٹوک موقف کے باوجود حکومتی حلقوں کو کھٹکا لگا ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کی درمیان کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کی طرف سے واویلا مچایا جا رہا ہے۔ فواد چوہدری اور شہباز گل نے اپنے بیانات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور شریف خاندان کے رابطوں کا ذکر کیا ہے۔

دراصل حکومت اپنے ایک مہربان دوست کی پشاور یاترا کی وجہ سے بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے۔ 19 نومبر 2021 سے پہلے حکومت کو بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا یعنی نواز شریف کی جارحانہ سیاست، مریم نواز کی گھن گرج، پی ڈی ایم کے بڑے بڑے جلسے اور اتحادیوں کا آنکھیں دکھانا، مگر وہ بالکل نہیں گھبرائی۔ کیوں کہ اس کے سر پر ایک نہیں بلکہ دو ہاتھ تھے۔ چونکہ اب آبپارہ میں براجمان ایک بڑی شخصیت اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہے۔ اور اس کو فوٹو شوٹ کا شوق بھی نہیں ہے۔

بقول شاعر ”بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں“ ۔

اس طرح کی صورت حال میں سرکار کا گھبرانا تو بنتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ادارے نے غیرجانبداری کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت پر دست شفقت رکھنے کی وجہ سے ادارہ تنقید کی زد میں تھا۔ وہ کب تک تاریخ کی نا اہل ترین حکومت کی خاطر اپنی ساکھ خراب ہونے دیتا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ادارے نے اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ بس وہ نیوٹرل ہو چکا ہے۔

حکومت کی طرف سے بار بار ڈیل کا ڈھول کیوں پیٹا جا رہا ہے۔ کیا عسکری قیادت فارغ بیٹھی ہوئی ہے کہ کوئی بھی شخص جا کر ان سے ڈیل حاصل کر سکتا ہے۔ یا انہوں نے اس حوالے سے کوئی ڈیلنگ آفس بنا رکھا ہے۔ جہاں اقتدار حاصل کرنے کے خواہش مند اپنی درخواستیں جمع کراتے ہیں۔

وزرا کو ایسی لغو باتیں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کے منصب کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ان کو اپنی وزارتی ذمہ داریوں کی طرف دھیان دینا چاہیے۔ حکومت شخصیات اپنے بے سروپا بیانات سے فوج کے باوقار ادارے کو بدنام کر رہی ہیں۔

ماضی کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے، تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد جمہوری طریقے سے اقتدار الیکشن جیتنے والی پارٹیوں کو منتقل کرتی آئی ہیں۔ دونوں جماعتوں نے نہ کبھی نظام حکومت کی تبدیلی کی بات کی تھی۔ اور نہ ہی اپنی حکومت کو توسیع دینے کے لیے غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جب کہ عمران خان اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ کبھی صدارتی نظام کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور کبھی اگلی باری کے لیے بیساکھیاں تلاش کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔ کہ اگر عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی تو وہ بعض اہم نوعیت کے راز فاش کر دیں گے۔

ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے اس طرح کے دھمکیاں ان قوتوں کو دی جا رہی ہیں۔ جنہوں نے قومی اسمبلی کی ایک نشست رکھنے والے شخص کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا۔ اگر جنرل شجاع پاشا وزیراعظم عمران خان کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے وسائل کا بے دریغ استعمال نہ کرتے تو آج خان صاحب گمنامی کے گڑھے میں پڑے ہوتے۔

دراصل عمران خان یہ سمجھتے ہیں۔ اگر ان کو ایک یا دو ٹرم مزید مل جائیں تو وہ ملک میں نہ صرف معاشی انقلاب لا سکتے ہیں۔ بلکہ کرپشن کے ناسور کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مگر تین سال کی مایوس کن حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے۔ تو خان صاحب اگر بیس سال بھی حکمرانی کر لیں۔ تب بھی وہ ملک کو اپنے ٹریک پر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ خوشامدی عناصر کے چنگل سے باہر نکل کر سنجیدگی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ لیں۔ ان کو کسی غیر آئینی اور غیر قانونی ایڈوینچر سے باز رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ خان صاحب کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ملک کے لیے ناگزیر ہرگز نہیں ہیں۔ وطن عزیز میں بڑے قابل اور اہلیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments