دولے شاہ کے چوہے اور گجرات کا مزار


1879 ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) (برطانوی) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباً دس سے بارہ بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو مکینیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کے سروں پر پہنا دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے سر چھوٹے اور دماغ منجمد ہو جاتا ہے۔ یہ عمل ان بچوں کو ذہنی طور پے چوہوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔

ان تمام پہلوؤں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، انہوں نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ پاکستانی دانشور اس جانب بہت کم متوجہ ہوئے اور ان کا بطور محقق اس معاملے میں تجزیہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں سید کبیر الدین دولے شاہ نام کے ایک بزرگ گجرات کے نزدیک قیام پذیر ہوئے، وہاں وہ لوگوں کو دینی تعلیم دیتے رہے، لوگ ان کے پاس دعا کے لیے بھی آتے، جب ان کا انتقال ہوا تو وہاں لوگوں نے مزار بنا دیا، دولے شاہ سہروردی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مخصوص لوگ کہاں سے آتے ہیں اور ایسے کیوں ہوتے ہیں، پتہ چلا کہ گجرات میں ایک دربار ہے جہاں جن لوگوں کی اولاد نہیں ہوتی وہ منت مانگتے ہیں اور مراد بر آنے پر اپنی پہلی اولاد ہونے کی صورت وہاں چھوڑ آتے ہیں۔

ذہنی طور پر مفلوج اس مخلوق سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ یہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے۔ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ان مظلوموں کو دو لے شاہ کے چوہے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دو لے شاہ کے چوہے نہ سوال کر سکتے ہیں نہ کوئی جواب دے سکتے ہیں۔ خاموشی کے ساتھ سائل بن کر اشاروں کنایوں سے اپنا کشکول سامنے کر دیتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے سدھائے ہوئے جانور۔

اب دولے شاہ کے چوہے ہر سو نظر آ رہے ہیں مگر وہ جن کے دماغوں کے ساتھ ساتھ ان کے دل بھی چھوٹے کر دیے گئے ہیں۔ اور وہ اس کردار کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں ہمارے معاشرے میں ہماری درس گاہوں میں ایسے چوہے پیدا کیے گئے ہیں اور کیے جا رہے ہیں جن کے پاس تعلیم تو ہو مگر وہ لوگ تعلیم کا صحیح استعمال نہ کر سکیں ہمارے معاشرے میں بند دماغ والے دولے شاہ کے چوہے زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ علم یافتہ لوگ اعلی درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہیں مگر ان کے ذہن ایک مخصوص سوچ کے حامل ہیں۔

سوچ سکتے ہیں سوچتے نہیں، بول سکتے ہیں، بولتے نہیں لکھ سکتے ہیں مگر لکھنے سے معذور ہیں۔ صحت مند ہیں مگر شعور سے عاری ہیں۔ ان کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں کو ایک خاص خول چڑھا کر انہیں ذہنی طور پر معذور بنا دیا گیا ہے یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ہی کیا جا رہا ہے۔ بے آواز اور بے دماغ کے لوگوں پر مشتمل معاشرہ بنایا جا رہا ہے، غوں غاں کی آوازوں کو بولی اور ادھ کھلی آنکھوں سے دکھنے والے ہیولوں کو تصور کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں دولے شاہ کے نہیں بلکہ مفادات کے چوہے ہر جگہ نظر آ ہے ہیں۔ یہ مفادات کے چوہے قابل رحم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل یقین حد تک قابل مذمت بھی ہیں جو چوہوں کی طرح ہر چیز کو کتر رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی فکری صلاحیتوں کا ان دولے شاہ کے چوہوں کے ساتھ تقابلی موازنہ کیا جائے تاکہ ہم دولے شاہ کے اصل چوہوں کو پہچان سکیں۔ اگر ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھیں تو بہت سے دولے شاہ کے چوہے نظر ایں گے، جو فکری، ذہنی لحاظ اور نظریاتی اعتبار سے ایک خاص جمود کا شکار نظر آتے ہیں۔

دراصل ہمارا معاشرہ ان دولے شاہ کے چوہوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم خود اپنی زندگی کے بہت سے معاملات میں دولے شاہ کے چوہے بنے ہوئے ہین اور بغیر سوچے سمجھے اپنی اندھی عقیدت اور اندھے رجحانات کا شکار ہو کر اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ جہاں عقیدت اور ایمان کا سوال ہو وہاں کسی کو جرات سوال نہیں ہوا کرتی اس کے سوال کرنے کی صلاحیت کو مفقود کر دیا جاتا ہے اور وہاں سر کو خم کرنے کا نام ہی عقیدت ہے۔ ہمارے اندر مذہبی روا داری، ایک دوسرے کے فرقے پر لعن طعن کرنا، خود کو بہت بڑا مذہبی قرار دے کر دوسرے کو نیچا اور جھوٹا دکھانا، ذات پات کے جھگڑے ایسے مسائل ہیں جن سے ہم آنے والی صدی میں بھی چھٹکارا نہیں پا سکیں گے اور ایسے ہی ہمارا معاشرہ، ہم بند دما غوں کے ساتھ شاہ دولا کے چوہے بنے رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments