گریز: شہباز خواجہ کا نیا مجموعہ کلام


شہباز خواجہ کو ہمارے ہاں “لندن میں مقیم شاعر” کی تعمیم کے سائے میں اپنی پہچان بنانا پڑی ہے۔ وہ گزشتہ 16 برس سے اردو نظم کے گیسو سنوارنے میں اپنا ہنر آزما رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے آباد ہونے سے پہلے شہباز خواجہ راوی کی رواں دواں موجوں اور جہلم کی وارفتہ لہروں سے شناسائی پیدا کر چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ 2005  میں منظر عام پر آیا اور عام قارئین کے علاوہ ادبی نقادوں کے لئے بھی قابل توجہ قرار پایا۔ ان کے شعری لہجے کو غزل مخالف رو اور اس نوع کی دوسری تحریکوں کی مسموم فضا میں تازہ اور معطر ہوا کا جھونکا سمجھا جاتا تھا۔

متعدد نقادوں نے نووارد شاعر کی تخلیقی اپج کو اس کے سینئر ہم عصروں سے زیادہ موثر اور پرکشش قرار دیا۔ یہ پیش گوئی بھی کی گئی کہ شہباز خواجہ کی شعری استعداد میں مزید نکھار آئے گا۔ عین ممکن ہے کہ اپنے ہم عصر شاعروں کے تقابل میں ان کا کلام انفرادی سعی سے کہیں بڑھ کر ایک نئی روایت کی بنیاد رکھے۔ ڈیڑھ دہائی بعد اب یہ پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ شہباز خواجہ کے نئے شعری مجموعے “گریز” میں 23 نظمیں اور اس سے قریب دوگنا تعداد میں غزلیں شامل ہیں۔

شہباز خواجہ بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں اور ان کی نظموں میں بھی تغزل کی جھلک ہے۔ لیکن ان کے لیے غزل محض ایک مخصوص لغت، لحن، علائم اور استعاروں کی ترتیب تک محدود نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاعر ایک چوکس مبصر اور اپنے معاشرے کا ایک باضمیر فرد ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد کی زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں اس کا رد عمل اس کی ذہنی سیربین کے بدلتے ہوئے مناظر میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اس تجریدی فکر کا کہیں فصاحت اور گاہے “نگہ نیم باز” کی صورت اپنے قارئین تک ابلاغ کر سکتا ہے۔ یہ تخلیقی ہنر کا وہ درجہ ہے جو زبان پر مکمل عبور کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔ زبان کے زاد راہ سے تہی دست شاعر اپنے لئے نہ تو موزوں لغت دریافت کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اظہار کے لیے ایک تازہ اور نوبہار زاویہ نظر اختیار کر سکتا ہے۔

 اس مجموعہ کی ایک منفرد خصوصیت شہباز خواجہ کا کڑا انتخاب اور اپنے تخلیقی سرمائے کی بے رحم تدوین ہے۔ غالب کی روایت پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کلام کا ہر ایسا حصہ حذف کر دیا ہے جو انہیں غیر معیاری محسوس ہوا۔ نتیجتاً بعض غزلیں فردیات کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ اس میں شاعر کے خون جگر کا زیاں تو ہوا لیکن تراشیدہ شاعری کا کندن مجموعہ قاری کے حصے میں آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments