مردہ روحیں صرف مردوں کا احترام کرتی ہیں


شاید ایسا ہوتا ہو، مگر میری زندگی میں ایسا یہ پہلا واقعہ تھا۔ 2013 کی بات ہے، ہوا کچھ یوں کہ میں نے ٹھٹھہ شہر سے مکلی کے لیے رکشہ لیا، ستر روپے کرایہ طے ہوا اور رکشہ میری منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ حسب معمول میں سفر کے دوران سڑک کے دونوں اطراف، بڑے فخر سے ناچتی ہوئی غربت کی بدصورت رقاصہ کو دیکھ کر اپنی زندگی کے اغراض و مقاصد پر غور کرنے لگا کہ کس طرح اس بدصورت رقاصہ کے ناچتے پیروں میں بندھے بے ہنگم شور کرتے گھنگھرو توڑ کر اس کو خوشحالی کی دیوار کے پیچھے چنوا دیا جائے۔

پانی کے بلبلوں کی طرح کئی انقلابی منصوبے میرے دل و دماغ میں ابھرے مگر ہمیشہ کی طرح اس نوک دار سوال سے ٹکرا کر پھٹ گئے کہ ”آخر میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟“

پھر میرے دل کے تخلیقی خانے میں نام نہاد حکمرانوں کے لیے جمالیاتی حس سے بھرا ایک عمل شروع ہوا اور میں نے مختصر سے وقت میں کئی فن پارے گالیوں کی شکل میں تخلیق کر ڈالے۔

ابھی مشاہدے اور تخلیق کا عمل جاری ہی تھا کہ رکشہ ڈرائیور نے رکشہ روک کر سڑک کے کنارے کھڑا کر دیا اور گٹکے کی پیک تھوکتے ہوئے بولا ”سائیں! یہ جنازہ جا رہا ہے میں کندھا دے کر آتا ہوں“ جنازہ دیکھتے ہی میرے اندر سوئے ہوئے نیک انسان نے بھی نحیف سی انگڑائی لی اور میں نے ڈرائیور سے کہا ”بھائی، ! میری طرف سے بھی حصہ ڈال آنا“

خیر کچھ ہی دیر میں ڈرائیور نیکیاں کما کر واپس آ گیا۔ اس دوران مجھے اپنا لکھا ہوا ایک پنجابی شعر یاد آ گیا کہ ”جیوندے دی تے قدر نئی کردے۔ قبراں تے پھل دھردے لوگ“ ۔

رکشہ پھر میری منزل کی طرف روانہ ہوا، میرے دل میں ڈرائیور کے لیے بہت نیک خیالات ابھر آئے۔ محبت کا، مدد کا کوئی بھی عمل ہو جہاں بھی ہو امید کی نئی کرن دکھاتا ہے اور مایوسیوں کی بلندیوں کو سر کرنے کی نئی قوت بخشتا ہے۔ اس واقعے نے اچانک میری سوچوں کا دھارا بدل دیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ ہم مردوں کا کتنا احترام کرتے ہیں اور زندہ انسانوں سے ہمارا سلوک کتنا بے رحمانہ اور تعصب سے بھرپور ہوتا جا رہا ہے۔ مردوں کے لیے کفن کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ زندوں کے تن سے کپڑا چھینا جاتا ہے، مردوں کو لحد میں اتارا جاتا ہے اور زندوں کے سر سے سایہ تک چھین لیا جاتا ہے، مردوں کے نام کے لنگر چلتے ہیں مگر زندوں کو ایک نوالے کے لیے ذلیل کیا جاتا ہے۔

مردوں کو تو کندھا نصیب ہوتا ہے مگر زندوں کو سہارا دینا تو درکنار ان سے بیساکھیاں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ جب تک ہمارا کوئی قصوروار دشمن زندہ رہتا ہے اسے معاف کرنے کا تصور بھی ہمارے دل کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتا مگر اس کی موت کے بعد اکثر ہم اس کو معاف کر کے خود کو انسانیت کی معراج پر تخت نشین تصور کرتے ہیں۔

پھر ڈرائیور کی نیک نیتی پر شک کرتے ہوئے میں یہ سوچنے لگا کہ شاید کسی لاچار بزرگ یا معذور کو دیکھ کر یہ رکشہ کبھی نہ رکتا، خیر میرا خیال تھا شاید غلط ہو۔ ابھی میں مردوں اور زندوں کے احترام کا موازنہ کرنے میں محو تھا کہ میری منزل آ گئی، رکشے سے اتر کر میں نے سو کا نوٹ نیک دل ڈرائیور کو تھمایا اور بقایا تیس روپے لینے کی امید پہ اسے دیکھنے لگا مگر نیک دل ڈرائیور سو روپے کا سالم نوٹ جیب میں ڈالتے ہی مجھ سے بیگانہ ہو گیا۔ خیر میں نے اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلاتے ہوئے بقایا کا مطالبہ کیا۔ ڈرائیور کی آنکھوں میں چھپے ارادوں نے میرے معصوم مطالبے کو کورے جوابوں کے کئی تھپڑ رسید کر دیے۔ نیک دل ڈرائیور یہ کہتے چلتا بنا کہ ”ادھر کے ستر نہیں سو بنتے ہیں“ ۔

پھر مجھے احساس ہوا کہ ایک تو میں پرائے شہر میں ہوں اور دوسرا میری جسامت بھی اس موقع محل سے مطابقت نہیں رکھتی اور تیسری اور سب سے بڑی حقیقت یہ کہ میں زندہ ہوں مردہ تھوڑی کہ ڈرائیور میرا احترام کرے۔

پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، میں نے اپنے مختصر سفر کے دوران جتنے بھی فن پارے اپنے حکمرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیے تھے سارے کے سارے بنا سوچے سمجھے نیک دل ڈرائیور کی نظر کر دیے۔ خیر تیس روپے کا نقصان مجھے بھاری اس لیے نہیں پڑا کہ مجھے اپنی تمام تر سوچوں کا خلاصہ اور سوالوں کا جواب مل گیا کہ ”مردہ روحیں صرف مردوں کا احترام کرتی ہیں اور زندہ روحیں مردوں اور زندوں دونوں کا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments