سانحہٕ مری: آنکھول میں دھول جھونکنے کی روایت برقرار


وزیر اعلٰی پنجاب نے سانحۂ مری پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کی سر براہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے ایک ہفتے میں مری سانحے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے تحقیقی رپورٹ وزیراعلی کو پیش کرنا تھی۔

کمیٹی کے سربراہ نے تحقیقی رپورٹ وزیراعلی کے حضور پیش کی، جس کے نتیجے میں انہوں نے طیش میں آ کر کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سی پی او سمیت پندرہ سولین افسران کو معطل کر کے انضباطی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

23 شہریوں کے مجرمانہ اور سفاکانہ قتل پر 15 سویلین افسروں کی معطلی، جو دو چار ماہ بعد وکٹری کا نشان بناتے ہوئے پھر سے عہدوں پر متمکن ہوجائیں گے۔ معطلی کے دوران انہیں تنخواہیں اور مراعات بھی ملتی رہیں گی۔ چند مہینوں بعد سب اس سانحے کو دیگر حادثوں کی طرح بھول جائیں گے سوائے ان حرماں بختوں کے جن کے پیارے اس سانحے میں بے بسی سے چل بسے۔

ذرا ہمارے نمبر ون وزیراعلی کی انکوائری رپورٹ وصول کرنے کا شاہانہ انداز تو دیکھیے۔ اس کام کے لیے باقاعدہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی۔ وزیراعلی صاحب دلہا کی طرح سج سنور کر تزک و احتشام سے تشریف لائے۔ کمیٹی کے سربراہ اور ممبران بھی بن ٹھن کر آئے۔ سربراہ نے ہزاروں صفحات پر مشتمل سر بمہر رپورٹ تفاخر سے اس طرح وزیراعلی کو پیش کی جیسے تمغۂ شجاعت دیا جا رہا ہو اور وزیراعلی نے اسے ورلڈ کپ ٹرافی کی طرح فاتحانہ انداز سے تھاما۔ ہمارے کپتان صاحب بھی جب کشمیر کا سودا کر کے امریکہ سے لوٹے تھے تو بڑے فخر سے فرمایا تھا کہ آج میں دوبارہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔

وزیراعلی صاحب بھی اسی کپتان کے وسیم اکرم پلس ہیں اور سفاکی، زہرناکی، چالاکی اور بے حسی میں اپنے کپتان سے کم نہیں ہیں۔ کپتان نے ساہیوال اور کوئٹہ کے بے گناہ مقتولین کے موقعے پر کمال سنگدلی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے وزیراعلی نے مری کے شہدا کی لاشوں پر اپنے اقتدار کا شیش محل تعمیر کر کے شہدا کے لواحقین کے زخموں کو ہرا کیا ہے۔ کپتان کو نہیں پتہ کہ اس بار بھی انکوائری کے ڈرامے کے ذریعے حسب سابق گونگلووٴں سے مٹی جھاڑی گئی ہے۔

عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے۔ اصل ذمہ داروں کو بچا کے معاملے پر مٹی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ورنہ سانحۂ مری کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اس سانحے کی اصل ذمہ داری این ڈی ایم اے پر عائد ہوتی ہے۔ این ڈی ایم اے کا کام ہی اس طرح کے سنگین اور بحرانی حالات میں بروقت اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے حالات کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ قوم وزیراعلی کے دلیرانہ اقدام کو اس وقت سراہتی جب وہ این ڈی ایم اے کے سربراہ کو عہدے سے فارغ کر کے اس کے خلاف کارروائی کرتے۔

لیکن جن لوگوں کا ہاتھ اس حکومت کے سر پر ہے اور جن کے دم قدم سے یہ نا اہل حکومت چل رہی ہے، ان پر ہاتھ ڈالنے سے تبدیلی سرکار کا پتہ پانی ہو رہا ہے۔ اس سے قبل ہم کرونا فنڈ میں غیر سیاسی ہاتھ کی کارروائی دیکھ چکے ہیں جس کے مطابق تقریباً چالیس ارب روپے کا غبن کیا جا چکا ہے۔

سانحۂ ساہیوال کی زخمی ننھی پریاں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے انصاف کا راہ تکتی رہتی ہیں مگر 54 کے 54 ملزمان ناکافی شواہد کی بنیاد پر رہا کر دیے جاتے ہیں۔ اے پی ایس پشاور کے نونہالان کا خون بھی رائگاں جاتا ہے اور زخم خوردہ والدین بے بسی کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں جبکہ میرا کپتان کمیٹی کمیٹی کھیلتا رہتا ہے۔ شاہزیب کے خون ناحق سے ہولی کھیلنے والا امیر زادہ شاہ رخ جتوئی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ علاج کے نام پر شاہانہ زندگی گزارتا ہے اور جدید ریاست مدینہ کا نام نہاد انصاف آنکھیں موندے پڑا رہتا ہے۔ ایوان عدل کی ناک کے نیچے درندہ صفت عثمان مرزا نوجوان جوڑے اور عدل عمرانی کے ساتھ کھلواڑ کرتا، قانون کو گھر کی لونڈی بناتا ہے اور میرا کپتان نوٹس نوٹس کھیلتا ہے۔ چند دن قبل سری لنکن شہری کو ہجوم نے بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو جلا دیا اور میرا کپتان صرف باتیں کرتا رہا۔

مری میں بے بسی کی موت مرنے والوں کا خون بھی خون خاک نشیناں تھا جو رزق خاک ہوا۔ کاش مری کے برف زار میں پھنسے شناختی کارڈ نمبروں میں ہمارے مقتدر والوں کا کوئی ایک بھی نمائندہ ہوتا تو 23 لوگوں کی جان بچ جاتی۔ اس دیس میں مری جیسے سانحے ہوتے رہیں گے، عام لوگ مرتے رہیں گے اور ملک کی علماوٴں اور مقتدرہ والوں کو ریسکیو کرنے کے لیے پلک جھپکنے میں سرکاری جہاز اڑتے رہیں گے۔ اب قوم کی قومی پالیسی بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ اس پالیسی میں عام شہریوں کے خون سے رنگ بھرتا رہے گا اور ہم سب زندہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments