صدارتی نظام کی بازگشت


آج کل اسلامی صدارتی نظام کے خبریں گردش کر رہی ہیں جن کو کوئی خواب، کوئی ضرورت، تو کوئی افواہوں کا درجہ دے رہا ہے۔ جس کے بارے درباری دانشوروں نے اپنے عقلی مربے بھی بیچنا شروع کر دیے ہیں۔ تاریخ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو ان افواہوں میں عموماً پچاس فیصد سچ ہوتا ہے اور اس بارے حالات کا اندازہ لگانے اور راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ کہیں نہ کہیں خواہش تو موجود ہے، اور نہیں بھی تو یک طرفہ منگنی کے طور پر تو لیا جاسکتا ہے۔

اب اس کوشش کا باقی پچاس فیصد اس بات پر مبنی ہے کہ اس پراجیکٹ کو لانچ کرنے کے لئے عوامی پذیرائی کا درجہ کیا ہے یا اس پر سرمایہ کاری اور بیرونی ہمدردیاں کہاں تک حاصل ہو پاتی ہیں وگرنہ یک طرفہ تیاری مکمل بھی ہو سکتی ہے۔ اور تاریخ میں حالات سے متقاضی نظریہ ضرورت کی مثالیں اور خدشات بھی موجود ہیں۔

بعض حلقوں کی طرف سے تو ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ذمہ داری نظام پر ڈالنے کی کوشش ہے اور بعض کے قریب طاقت کو یکجا کرنے اور مزید با اثر بنانے کی روایتی کوشش کہا جا رہا ہے جو تاریخ کے آئینے میں بعید از قیاس بھی نہیں۔ اور اگر اسے ایک مخلص کوشش بھی سمجھا جائے تو بغیر عوامی رائے اور سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ٹھونسنے کی کوشش اچھی مثال نہیں ہوگی

ویسے تو اس کوشش کی صدا کئی سالوں سے سنی جا رہی ہے جو اس کی مشکوکیت کی ایک دلیل بھی ہے کیونکہ جب ملک کا سیاسی نظام ترقی کی طرف گامزن ہو ایسے میں اس طرح کی خواہشات یا حالات کا تاثر دینا اخلاص کی نفی کرتا ہے۔ اس سے مراد میرا ماضی کی خواہشوں کی طرف اشارہ ہے۔

باقی رہی بات کہ یہ اسلامی صدارتی نظام کتنا کامیاب ہو گا یہ سب خیالی اور علمی باتیں ہیں اور یہاں نظام کامیابی کے لئے لائے ہی کب جاتے ہیں۔ یہ سرزمیں محض نظاموں کی تجربہ گاہ ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی دونوں نظاموں کی دنیا میں کامیاب مثالیں موجود ہیں اور دونوں ہی جمہوریت کے ماڈلز ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو صحیح جمہوری بنیادوں پر چلنے دیا جائے۔ جمہوریت کا کوئی بھی نمونہ ہو اس میں سول بالادستی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے۔

مگر چونکہ یہاں جمہوریت آسیب زدہ ہے لہذا یہاں پر نظام کی روح رواں کی خوشنودی ضروری ہے نہ کہ عوامی بالادستی۔ عوامی بالادستی کے حصول کے لئے عوام کے اندر شعور، اخلاق اور ملکیت و اہمیت کے احساس کا ہونا ضروری ہے جس کا فی الوقت فقدان ہے جس کی وجہ سے یہ جمہوریت کامیاب نہیں ہو پا رہی اور درباری دانشوروں کے مربے بک رہے ہیں

پاکستان میں سیاسی بات کرنے اور سمجھنے کے لئے معرفت اور منطق کی زبان کو جاننا ضروری ہے۔ لہذا جو اس فن کو جانتے ہیں وہ تو بات کو بخوبی سمجھ رہے ہوں گے ۔ بوقت ضرورت بعض اسلام کے پرستاروں اور دوسرے سیاسی مہروں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جس کا سیاسی ٹرائیل پچھلے دنوں ایک راولپنڈی میں ہو بھی چکا ہے۔

اور اسے اسلامی رنگ دینے کی وجہ دینی ٹھیکیداروں اور ایمان کے کھوجیوں کی خدائی فوج کی ہمدردیاں حاصل کرنا بھی ہے جو عوام کی جذباتی نبض کو خوب سمجھتے ہیں ایسی ہی ایک فوج تیار ہے جس کے آزمائشی تجربے پچھلے سالوں میں وقفوں وقفوں سے دکھائی بھی دے رہے ہیں اور جن کے موثر ہونے کا اندازہ ان کی اداؤں سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے جوش و جذبہ کے ساتھ نہتے نکلتے ہیں اور ان سے سرکاری ادارے بھی خائف خائف نظر آتے ہیں بلکہ سرکار بھی بے بس لگنے لگتی ہے۔ کئی دفعہ تو انہوں نے پولیس کی بھی دوڑیں لگوا دیں اور پولیس کو جان کی قربانیاں بھی دینی پڑیں۔

سرمایہ داری اور ہمدردیوں کے لئے نظریاتی وجوہ تو مدہم ہو چکی ہیں مگر جغرافیائی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور اس کے لئے ماحول بھی سازگار ہے لیکن اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ ہمارے موجودہ با اختیار کردار ان لوگوں کے آلہ کار ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے جس کی دلیل پاکستان کی موجودہ معاشی تباہی اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے انکشافات ہیں۔ تبدیلی کے نام پر اس صدی کا سب سے بڑا پرینک کیا گیا۔

بلا بحث و مباحثہ جنہوں نے بھی سرمایہ داری کی ہوئی ہے ان کے بہت سارے مقاصد ابھی باقی ہیں اور ان کی طرف سے مزاحمت اور حمایت میں چھوٹے چھوٹے پیکیجز اب بھی آرہے ہیں اور اگر انہوں نے کوئی سرگرمی یا جھکاؤ دوسری طرف دیکھا تو وہ وقتی طور پر مزید مالی فوائد بھی دے سکتے ہیں تاکہ ان کو مقاصد کی تکمیل تک مزید درکار وقت میسر رہے اور عوام میں بد دلی اور مایوسی کا ماحول پیدا نہ ہو پائے۔

نواز شریف کی حکومت اچھی خاصی چل رہی تھی اور پاکستان کافی حد تک درپیش مشکلات اور خطرات سے باہر آ چکا تھا۔ اس وقت کے اور موجودہ کے معاشی حالات کا موازنہ کرنے سے سیاسی ماہرین کے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا ڈھونگ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے رچایا گیا تھا۔

ممکن ہے کہ جمہوریت کی روح رواں طاقت نے یہ اندازہ لگایا ہو کہ اب پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے اس لئے سنبھالنا کوئی مشکل نہیں رہا اور باہر سے آنے والی نوازشات کو پاکستان کے ساتھ بھلائی سمجھ یا دیکھ کر خوش فہمی میں ہی مبتلاء ہو گئے ہوں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کو پاکستان کی ترقی اور جمہوری سوچ رکھنے کی پاداش میں معزولی کی سزا دی گئی ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے فائدے حاصل کرنے کے لئے ہمیں چائنہ کے ساتھ معاہدات کو بحال اور مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمیں اپنی خارجی پالیسیوں کو واضح اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اور مکمل اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے چائنہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنا اعتماد قائم کرنے کے لئے کیا شرائط رکھتا ہے اور کون کون سے کرداروں کو شامل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ تو اندرونی تبدیلی کا مکمل انحصار اس کی منشاء پر ہے اور اسی کے مطابق پاکستان میں سیاسی تبدیلی ہوگی۔ جو چائنہ طرز کا حکومتی سیٹ اپ لانے کی کوشش بھی ہو سکتا ہے جسے اسلامی صدارتی نظام کا نام دینے کی کوشش کی جا رہی ہو۔

ایسی بھی کسی صورت میں نظام میں بہتری یا تبدیلی موجودہ آئینی طریقہ کار کے مطابق اور اندر رہ کر ہی ہونی چاہیے اس سے ہٹ کر کسی کوشش کو بھی ملک و قوم کے لئے حب یا وفاداری نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں مفادات اور خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حقائق کو سمجھنا چاہیے کہ آئین کے دیے ہوئے اختیارات اس ریاست دھرتی کے مستفیض شدہ وسائل سے ہی ممکن ہیں اور ان کا مقصد ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے آئینی حدود میں رہ کر پورا کرنے کے فرائض کے ساتھ نتھی ہے۔ جسے اپنے مفادات یا خواہشات کے لئے استعمال کرنا کسی طرح سے بھی قابل جواز نہیں۔

چائنہ کو پچھلے آٹھ نو سالوں میں پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات اور با اثر کرداروں کا بھی اندازہ ہو گیا ہو گا لہذا وہ اب موثر، قابل عمل اور یقینی معاہدوں کے قیام کی پوزیشن میں ہو گا۔

اس وقت عالمی حالات حاضرہ کے اندر ہمارا قدرتی الائنس بھی چائنہ کے ساتھ ہی بنتا ہے جس کی وجہ نہ صرف جغرافیائی حالات ہیں بلکہ چائنہ ہمارا پرانا دوست ملک ہے۔ ویسے بھی اس وقت دنیا میں اس کا تعارف پرامن اور قابل اعتماد طاقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ جس کے ساتھ ہمارا دل کئی دہائیوں سے دھڑکتا ہے، مگر ہم نے ہاتھ امریکہ سے ملائے رکھا۔ اور چائنہ کے ساتھ تعلقات سے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ اور چائنہ کا آپس میں اقتصادی مقابلہ ہی نہیں شراکت داری بھی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں لہذا ہم اگر حکمت عملی سے چلیں تو دونوں کے ساتھ ہمارے بیک وقت اچھے تعلقات بحال رہ سکتے ہیں۔

ہمارے اندرونی موجودہ اور ماضی کے سیاسی حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ عوامی رائے سے لے کر ترقیاتی کاموں، چائنہ اور عالمی ہمدردیوں تک نواز شریف کا پلڑا بھاری ہے لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی جمہوریت کی روح رواں کو اس کی طرف نرم گوشہ اختیار کرنا پڑے گا۔ لیکن اس میں ان کو کچھ تحفظات اور خدشات آڑے آرہے ہوں گے جن کی بہتری کے لئے وقت تو درکار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments