سندھ کو چشم نو سے دیکھنے کی ضرورت


تحریر:  نصیر میمن
ترجمہ: یاسر قاضی

ون یونٹ کے سیاہ دور سے لے کر اب تک، سندھ مسلسل سیاسی اور ثقافتی تحریکوں کا مرکز رہی ہے۔ یہاں سندھی زبان کے فروغ و نفاذ، سندھی میں ووٹر لسٹوں کے اجراء، سندھی زبان میں تدریس وغیرہ جیسے معاملات کے حوالے سے مسلسل تحرک رہا۔ ون یونٹ مخالف تحریک نے سیاسی ہلچل کو، ثقافتی ایجنڈا کے ساتھ جوڑے رکھا۔ جس کی بدولت سندھی قوم پرستی، عارضی مسائل و معاملات تک محدود رہنے کے بجائے، اپنی تاریخی شناخت، ثقافتی ورثے اور زبان کے حوالے سے مضبوط بنیادوں کے ساتھ منسلک ہو گئی۔

بعد ازاں سندھ کے قومی حقوق کی تحریک نے، ملازمتوں میں آئین کے مطابق کوٹا، سیاسی قیدیوں کی آزادی، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو روکنے، غیر متعلقہ افراد و اقوام کی سندھ میں آبادی کو روکنے جیسے معاملات پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس پورے عمل میں ثقافتی محاذ نے اس ہلچل کو غیر معمولی تقویت بخشی۔ اس ثقافتی تعلق کا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ کے حقوق کی جدوجہد میں تشدد کا عنصر شامل نہ ہو سکا۔ اس جدوجہد میں کئی ایک کمزوریاں بھی تھیں، مگر مجموعی طور پر اس تمام جدوجہد نے سندھ میں آگہی کی وہ مضبوط اور گہری جڑیں گاڑھیں، جنہوں نے سندھ میں سوچ کی دھارائیں بدل دیں۔ اس جدوجہد کے سفر میں عوامی ہڑتالوں، جلسے، جلوسوں، بھوک ہڑتالوں، جشن لطیف اور دیگر قومی شخصیات کے حوالے سے منائے جانے والے خاص دنوں اور محافل موسیقی کے ذریعے، عوامی آگہی اور جدوجہد کو جاری رکھا گیا۔

ثقافتی ربط کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہوا، کہ سندھ کی قومی جدوجہد، سیکولر بنیادوں پر پنپنے لگی اور اس نے مذہبی یا فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے لئے کوئی بھی گنجائش نہ چھوڑی۔ جی ایم سید، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، محمد ابراہیم جویو، کامریڈ سوبھو گیان چندانی، رسول بخش پلیجو، جام ساقی، شیخ ایاز اور دیگر لاتعداد شخصیات، اس سیکولر سندھ کے بانیان میں سے تھیں۔

ون یونٹ کے دور سے لے کر کم و بیش آدھی صدی تک جدوجہد کے یہ رنگ، سندھ کے شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں، دیہات، قریہ قریہ، بستی بستی لوگوں میں جذبات جگاتے رہے۔ سنہ 90 ء کی دہائی کے بعد مندرجہ ذیل اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، جنہوں نے قومی حقوق کی جدوجہد سے متعلق فکر کو ابھارا:

1۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالخصوص موبائل فون اور اس کے ذریعے استعمال ہونے والے سوشل میڈیا کی وجہ سے جدوجہد کے روایتی ڈھنگ بدلنے لگے اور نسل نؤ اپنی بات عوام تک پہچانے کے لئے نئے پلیٹ فارم استعمال کرنے لگی۔

2۔ سندھ میں ’اربنائزیشن‘ (دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف منتقلی کا عمل) تیز ہوا۔ دیہاتوں سے لوگوں کی شہروں کی جانب آمد اور ہجرت کے عمل میں واضح طور پر اضافہ ہوا۔ پہلے مختلف علاقوں سے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد اور پھر کراچی کی جانب سندھی بولنے والی آبادی کے آنے کے تناسب میں واضح اضافہ ہوا۔ دیہی علاقوں کے آس پاس واقع چھوٹے شہروں کی جانب بھی دیہاتوں سے افراد کی ہجرت میں تیزی واقع ہوئی۔ اس کی ایک وجہ سندھ کے اندر مواصلاتی انقلاب (نئی سڑکوں اور راستوں کی تعمیر اور دریائے سندھ پر مختلف مقامات پر پلوں کی تعمیر) کے ساتھ ساتھ لوگوں میں گاڑیوں کی قوت خرید میں اضافہ اور روابط کے نئے ذرائع کا متعارف ہونا تھا۔ ساتھ ساتھ دیہات میں بنیادی عوامی سہولیات کی کمی نے عوام میں شہروں کی جانب ہجرت کے رجحان کو فروغ دیا۔ شہروں میں ملنے جلنے اور زندگی کے نت نئے طور طریقوں کی وجہ سے بھی پرانے رنگ ڈھنگ تبدیل ہوئے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے آپریشنز، مختلف مذہبی گروہوں کی جانب سے ہونے والی پرتشدد کارروائیوں اور قومپرست جدوجہد میں ہتھیاروں اور بارود کے استعمال کی بنیاد بنائی گئی، اور قومی حقوق کی جدوجہد اور اس ضمن میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لئے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ جس کے نتیجے میں عوامی حقوق کے لئے کوشش کرنے والوں کے لئے سیاسی میدان کو محدود تر کیا گیا۔ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی، ان کی تشدد زدہ نعشیں پھینکنے، سیاسی رہنماؤں کے پراسرار طور پر مارے جانے، میڈیا کے اداروں اور سول سوسائٹی پر جینا تنگ کرنے جیسی سختیاں لاگو کرنے کی وجہ سے عوامی سطح پر خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس سب کے نتیجے میں جدوجہد کے پرانے طریقے جاری رکھنا کٹھن ہو گیا۔

ان اور ان جیسی کئی اور وجوہات کی بنا پر جدوجہد کے پرانے طریقے گاہے گاہے منظرنامے سے گم ہوتے چلے گئے۔ سندھ کی اہم اور قدآور سیاسی شخصیات بھی اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کر کے دنیا سے کوچ کرتی گئیں۔ سیاسی قیادت کی صفوں میں موجود باقی ماندہ کردار بھی حسب سابق، عوامی سطح پر متحرک نہ رہے۔ یوں سیاسی قیادت کے حوالے سے بھی ایک خلا پیدا ہو گیا۔

سندھ کا یہ تبدیل شدہ منظرنامہ اس نسل کے لئے مایوسیوں کا سبب بننے لگا، جس نے عشروں تک جدوجہد کے روایتی عوامی طریقے دیکھے تھے۔ اس نسل کو محسوس ہونے لگا کہ سندھ سے عوامی جدوجہد رخصت ہونے لگی ہے اور سندھ سیاسی طور پر بانجھ بننے لگی ہے۔ دراصل اس تبدیل شدہ منظرنامے میں سندھ میں کئی ایک مثبت تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ جدوجہد کے روایتی طریقوں سے مختلف ہیں، اس لئے ہم، ان سے متاثر ہونے کے بجائے مایوسی اختیار کرنے لگے ہیں۔ درحقیقت یہ مثبت تبدیلیاں اسی دہائیوں پر محیط جدوجہد ہی کا ثمر ہیں، جس سے ہمیں عزم و قوت ارادی حاصل کرنی چاہیے۔ جس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :

سندھی زبان کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر آنے اور کئی سندھی ٹی وی اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے شروع ہونے، خواہ سینکڑوں ویب سائٹس کے اجرا سے سندھی زبان، اپنے وجود سے متعلق خطرے والے دور سے نکل کر، اب معیار اور جدت کے مقابلے والے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔

سندھ کے دیہی علاقوں سے شہری آبادیوں کی جانب آمد کی وجہ سے سندھ کے درمیانے اور بڑے شہر، جو پہلے اہالیان سندھ کے لئے اجنبی تھے، وہاں اب کاروباروں، ملازمتوں اور سول سوسائٹی فورمز پر اہل سندھ کے پاؤں رکھنے سے یہ شہر اب ان کے لئے پرائے بالکل نہیں رہے، بلکہ انہیں اپنے لگنے لگے ہیں۔ کراچی کے اہم سماجی اداروں، ادبی تقریبات اور پروفیشنل باڈیز میں سندھی بولنے والے متحرک ہو رہے ہیں۔ اب سندھی نؤجوان اور پروفیشنلز ان اداروں کے اہم عہدوں پر بھی فائز ہونے لگے ہیں، جہاں آج سے دو عشرے قبل تک انہیں ممبرشپ تک نہیں ملتی تھی۔

سندھی نوجوان جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے تعلیم اور روزگار کی غرض سے کثیر تعداد میں بیرون ملک جانے لگے ہیں۔ صرف ایک نسل قبل تک، جن کو دیہات سے حیدرآباد اور کراچی تک آنا تک مشکل لگتا تھا، اب سندھ کے ایسے ہزاروں نؤجوان امریکا، یورپ، چین ملائیشیا اور دیگر ممالک میں تعلیم اور روزگار حاصل کر رہے ہیں۔

سندھ کے اندر ایک ایسی مڈل کلاس ابھر ر ہی ہے، جو دھیرے دھیرے بعد از تقسیم ہند کا خلا پر کرنے کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ یہ نؤجوان طبقہ کاروبار کرنے اور سماجی ضروریات کے ادارے قائم کرنے جیسے اقدامات سے نجی شعبے میں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اس طبقے کا طاقتور ہونا، سندھ کی معاشرتی تشکیل کو بجا طور پر تبدیل کرے گا۔ سندھی خاندانوں میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کرنے والا رجحان دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔ خواتین کا سماج میں متحرک ہونا، سندھ کی سماجی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس رجحان کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مندرجہ بالیٰ تبدیلیاں، بجا طور پر گزشتہ پچاس برس کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آگہی ہی کی حاصلات ہیں۔ اب سندھ کے سیاسی اور سماجی اداروں کو تبدیلی کی اس لہر کو تیز کرنے اور مزید موثر بنانے کے لئے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ کی تاریخی شناخت، ثقافت اور سیاسی حقوق کے بارے میں شعور کا فروغ ایک کار مسلسل کے طور پر جاری رکھا جانا چاہیے۔ تعلیم، ہنر کی تربیت، نجی شعبے میں ملازمتوں، چھوٹے اور درمیانے کاروباروں، ٹیکنالوجی اور تعلیم خواہ ملازمت کی غرض سے بیرون ملک جانے والا رجحان، معاشرے کی تعمیر نؤ کے اہم عناصر ہیں۔ جن کے لئے مختلف اطوار کی حکمت عملی اور پیش رفت کی غرض سے سیاسی اور سماجی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

جہان دیگر کی طرح سندھ بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم سندھ کو اب دید مختلف اور چشم نو سے دیکھنے کی زحمت گوارا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments