بھیانک چہرے


ہمارے ساتھ رہنے والے لوگ ہی ہماری زندگی کے عکاس کار ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر ہی ایک دوسرے کے لیے خیر و شر کے معاملات طے کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ حالا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں تو ایک ریت کا ذرہ بھی نہیں ہے۔ مگر ہماری ناقص سوچ ہمیں حقیقت سے ہزاروں میل دور لے جاتی ہے۔ ہاں یہ بات بھی ماننے والی ہے ان بد تہذیب لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ تو پیدا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے زندگی کے ہر حصہ میں مسائل ہمارے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔

اور ایسے نظام کی وجہ سے نقصان بھی جلد واضح ہونے لگتا ہے۔ بات تو یہ ہے کہ کیسے ان سے جان چھڑوائی جائے۔ جہاں ان جیسے بد کرداروں کو اہل علاقہ کے وڈیروں کی سپورٹ ہوں وہاں مجھ جیسے بے آسرا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ مگر میں پھر بھی اپنے حصے کی شمع جلانے کی خواہش رکھتا ہوں۔ ہمارے گاؤں چک نمبر 123 / 7 میاں چنوں میں ایک ہسپتال صحت مرکز بنایا گیا۔ اس پر گورنمنٹ کی کروڑوں روپے لاگت آنے کے بعد مکمل ہوا۔

اس وقت ہم اتنے بڑے تو نہیں تھے مگر سب سمجھتے تھے۔ خیر وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ یہ عمارت اپنی اصلی حالت کھوتی گی۔ اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ لوگوں نے اس میں لگے تمام اشیاء اتارنا شروع کر دی۔ پانی والی موٹر، ٹوٹیاں، بجلی کے تاریں، وائرنگ پائپ، جالی والے دروازے، گیٹ بلب بلکہ ہر وہ چیز جو کسی بلڈنگ میں ضروری ہوتی ہے اسے ان تمام چیزوں سے محروم کر دیا گیا۔ اس وقت ہم چھوٹے تھے مگر ہم اتنا شعور رکھتے تھے اس ہسپتال کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں رونا آ تا تھا۔

رونے کے علاوہ کرتے ہی کیا کیو کہ ہم بے یاروں مددگار تھے۔ اس صحت مرکز میں صرف ایک کام دیکھنے کو ملتا تھا وہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مگر میرے ہاتھ میں قلم ہے اور میں سچ نہ بول کر اپنے قلم کی سچائی کا جھوٹ کے ساتھ کا سودا ہر گز نہیں کر سکتا ہوں۔ یہاں دن رات شرابی، زانی، منشیات فروش بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ منشیات فروشوں کا اڈہ ہوتا تھا یہاں پر تو کچھ جوان یہیں سے خرید کر یہاں ہی لگاتے پیتے اور یہ یہی پڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

منشیات کا استعمال کرنے والے نوجوانوں نے ٹیکہ لگانے کے دوران نکلنے والے غلیظ خون سے دیواروں کو اپنی من گھڑت شاعری سے سجایا ہوا تھا۔ تمام گاؤں کے بد چلن احمقوں کا ڈیرہ بنایا ہوا تھا۔ گاؤں میں ان کو کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔ 2009,10 میں ہمارے استاد محترم اور ان کے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر ہم نے اس ہسپتال کو علم مکتب میں بدلنے کی کوشش کی۔ ہمارے اس اچھے کام پر گاؤں میں موجود شر پسند عناصر نے درخواست اور قانونی کارروائی کی دھمکی دی۔

مگر ہمارے استاد اور کچھ اچھے دوست متحد تھے۔ اور ہم طلباء نے اس کی صفائی و ستھرائی کا کام شروع کر دیا۔ مسلسل تین صفائی کرتے رہیں اور ساتھ میں اگر بتیاں بھی جلاتے تاکہ ہم اس بدبو کو کم کر سکیں اور کام کر سکیں۔ مگر یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ آخر کار ہم نے پانی کا انتظام کیا سرف ملے پانی سے اس کو دھویا۔ اور ساتھ روزانہ اس کی دیکھ بھال کرنا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ساتھ ہی بچوں میں شجر کاری کو عام کیا بچے اپنے اپنے نام کا پودا لگاتے اور اس کی دیکھ بھال کرتے۔ پانی لگاتے اسی طرح باقی نظام بھی اچھا ہونے لگ گیا۔ بچوں نے گھاس کے پلاٹ بنانا شروع کر دیے۔ ہر طرح کے پھول لگائے ان کی آ بیاری کی۔ یہ انتھک محنت ہمارے دور میں شروع ہوئی اور تقریباً 2018,19 میں اپنے عروج پر تھی۔ یہ ہسپتال ایک نمایاں خصوصیت کا مقام بن گیا۔ اس میں تن آ ور درختوں نے ڈیرہ لگا لیا خوبصورت نمائشی پلاٹ نظر آ نے لگ گے۔ میں جب بھی گاؤں چھٹیوں پر جاتا تو علامہ اقبال ماڈل سکول اپنے استاد محترم جناب راجہ فاروق عادل صاحب کے پاس لازمی جاتا۔

میں اپنے استاد محترم کے ساتھ خوب سیر ہو کر گفتگو کرتا اور ماحول سے لطف اندوز ہوتا۔ یہ بچوں اور اساتذہ کی انتھک محنت تھی جو ایک منشیات اور فحاشی کے اڈے کو علم مکتب میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی علم مکتب میں درجنوں بچوں نے اپنی بنیادی تعلیم یہی سے مکمل کی اور پھر کالج یونیورسٹیوں کا رخ کیا۔ مگر پتا نہیں کیوں پھر ایک لہر اٹھی اور اس پورے نظام کو بگاڑنے میں یک جان ہو گی۔ اور آخر کار اس ادارے کے سربراہ کو سکول کے اس عارضی حصے کو الوداع کہنا پڑ گیا۔

ایک بار پھر اہل علاقہ کے بد معاش نا اہل نکمے لوگوں کی بھیڑ چڑھ گیا بچوں کی ہزاروں دنوں کی محنت چند دنوں میں خاک میں مل گی۔ اور اس ہسپتال کی عمارت سے سکول کے نام کے ساتھ اس کو ساری رونقوں سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے صحن، گراؤنڈ، پلاٹ اور کونوں پر لگے درختوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا۔ سر سبز گھاس سے سجے پلاٹ زوال پذیر ہونے لگے نل نے پانی دینا چھوڑ دیا پرندوں نے اپنا مو موڑ لیا۔ افسوس یہ عمارت آج پھر سے ایک خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے۔

مرکز صحت پھر سے مرکز منشیات اور مرکز فحشیات بننے جا رہا ہے۔ اور پھر 2009 والی حالت نظر آ نے لگی ہے۔ میری آنکھوں سے آ نسوں کے علاوہ اور کچھ نہیں میرے پاس۔ میں تو وقت کی حکومت سے درخواست کرتا ہو کہ خدا کے واسطے کروڑوں روپے لاگت سے بننے والے ہسپتال کو چلایا جائے اور لوگوں کی زندگیوں کو بچایا جائے۔ اور ضرورت مندوں کا علاج معالجہ کیا جائے۔ میری پر زور اپیل ہے کہ حکومت اس کی بحالی کے لیے کام کرے اور سیاسی سانپوں کو ان کے مفاد سے نجات دلائے تاکہ علاقہ میں مزید ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں ایم این اے، ایم پی اے سے تذکرہ کیا جائے اور آ نے والے الیکشن سے پہلے باہمی لاحقہ عمل بنایا جائے۔ اور مثبت سوچ کے ساتھ آ گے بڑھنے کی جستجو پیدا کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments