اراکین پارلیمنٹ کا قومی کردار


جناب نصرت جاوید میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں۔ وہ ماضی میں مشتاق منہاس کے ساتھ ایک نجی چینل پر حالات حاضرہ پر مبنی ایک پروگرام ہوسٹ کیا کرتے تھے۔ کتنا اچھا، سستا اور پرسکون زمانہ تھا۔ کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کہ وہ دور بھی آئے گا جب پاکستان میں عام آدمی کو روزی روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔ یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ 2018 میں ایک ایسی تبدیلی قوم کے گلے کا ہار بنے گی جس کی قیمت اس کی کئی نسلوں کو چکانی پڑے گی۔

جناب نصرت جاوید قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بطور صحافی کور کرتے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی کے فاضل اراکین کی اجلاس سے غیر حاضری اور بزنس سے عدم دلچسپی پر اپنا تازہ کالم تحریر کیا ہے۔ جناب رؤف کلاسرا صاحب بھی ماضی میں اپنے ایک کالم کے ذریعے اس موضوع کو ٹچ کر چکے ہیں۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین نے اس بات کا وتیرہ بنا لیا ہے۔ کہ یا تو وہ اجلاس سے غیر حاضر رہیں۔ یا حاضری لگا کر چلتے بنیں۔ حکومت پاکستان جو اربوں ڈالر کی مقروض ہے۔ اور کروڑوں کی رقم قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں پر خرچ کرتی ہے۔ مگر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سالوں کے درمیان ارکان اسمبلی نے ایوانوں سے غیر حاضری کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ آئے روز کورم پورا نہ ہونے کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ دوسری طرف یہی اراکین ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ اپنی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔

دراصل قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کو اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنائیں۔ بدقسمتی سے مگر ہر دو شخصیات خود بھی شاذ و نادر ہی اجلاس میں شامل ہوتی ہیں۔

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں بنفس نفیس ایوان کو رونق بخشتے تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے ایوان اپوزیشن اور حکومتی اراکین سے کچھا کھچ بھرا رہتا تھا۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان بھی ایوان میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے تھے۔

ایک عام آدمی کا داخلہ کسی بھی ایوان کی وزیٹر گیلری میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اسمبلی کا پاس حاصل کرنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اس لیے صرف پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے ہی اجلاس کی کارروائی اور اراکین کی اسمبلی بزنس سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ جناب کلاسرا نے اپنے کالم میں یہ بات تحریر کی تھی۔ کہ بعض اراکین اپنی پارٹی کے غیر حاضر ساتھیوں کی حاضری لگانے یعنی پراکسی کا فرض بھی انجام دیتے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں اس بات کا رواج تھا کہ طالب علم اپنے دوست کی جگہ حاضری لگا دیا کرتے تھے۔ اس کو پراکسی سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ سکول کے زمانے میں پراکسی کا تصور بھی محال تھا۔ کیوں کہ استاد جی طالب علم کا نام پکارتے وقت قہر آلود نظروں سے اس کی موجودگی کا یقین بھی کرتے تھے۔ جب کہ کالج لائف میں صورت حال یکسر مختلف ہوا کرتی۔ پروفیسر یا لیکچرار صاحبان سر جھکا کر سٹوڈنٹ کا نام یا رول نمبر پکارتے اور کلاس میں سے یس سر کی آواز آتے ہی وہ رجسٹر پر ٹک کا نشان لگا دیتے۔ انہوں نے کبھی کلاس پر نظر ڈالنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ یس سر کہنے والا مطلوبہ طالب علم ہے بھی یا نہیں۔ جس کی پراکسی کی جاتی تھی وہ گھر میں استراحت کر رہا ہوتا۔ یا کینٹین میں سموسے کھا نے میں مصروف ہوتا۔

دراصل طلبا جرمانے سے بچنے یا سالانہ حاضریاں پورا کرنے کے لیے پراکسی کا استعمال کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل وسیع تر قومی مفاد یا عوامی مفاد عامہ کو نقصان پہنچانے کا موجب نہیں بنتا تھا۔ جیسے قومی اسمبلی کے ارکان کی طرف سے پراکسی کے عمل پر۔ اراکین پارلیمنٹ کا معاملہ الگ ہے۔ وہ اگر ایسی حرکت کریں گے تو یہ حلف سے غداری کے مترادف ہو گا۔

حلقے کے لوگ اپنے ووٹوں کے ذریعے ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاکہ وہ ان کے مسائل پر آواز بھی اٹھائیں اور قانون سازی میں بھی بھرپور کردار ادا کریں۔ بدقسمتی سے مگر اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے ضمیر کی آواز سے ہٹ کر عوامی مفاد کے خلاف کی جانے والی قانون سازی میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا رویہ بھی تہذیب اور شائستگی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ پارلیمانی روایات سے بے بہرہ بعض ممبران اسمبلی ہوٹنگ کرنے، غیر اخلاقی جملے کسنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔

آج کل بعض کالم نگار ”فون کھڑکنے“ اور ”کالوں“ کا ذکر تواتر کے ساتھ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانونی سازی کے دوران اراکین کو کسی ایجنسی کی طرف سے فون کالیں وصول ہوتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اراکین سر کے بل جا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بات کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں۔ یا تو مذکورہ رکن کمزور دل کا مالک ہو گا یا اس کے ہاتھ کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہوں گے۔ ورنہ اس کو اپنے ضمیر کی آواز کے منافی ووٹ دینے کی کیا ضرورت ہے۔

اگر فون کالوں پر ہی قانون پاس کرانے مقصود ہیں۔ تو اس صورت میں اللہ کو حاضر جان کر نہ حلف اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسمبلی اجلاس سے پہلی قرآنی آیات کی تلاوت کرانے کی۔ کیوں کہ اس طرح ان مقدس آیات کریمہ کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے۔ اور اراکین اسمبلی گناہ گار بھی ہوتے ہیں۔

پچھلے سال نومبر میں تینتیس بل محض فون کالوں کی مدد سے پاس کرا لیے گئے۔ اور چند دن قبل منی بجٹ کی منظوری بھی انہی ”کالوں“ کی مرہون منت تھی۔ وزیراعظم اور ان کے وزرا اس کامیابی پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ جیسے انہوں نے کوئی پہاڑ سر کر لیا ہو۔

جب کہ ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے دو ارب ڈالر سے زائد ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے ہوئے، نہ حکمرانوں کو ندامت محسوس ہوئی اور نہ قومی اسمبلی کے انگوٹھا چھاپ ارکان اسمبلی کو۔

وزیراعظم عمران خان اپنے آپ کو نجات دھندا سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ قانونی سازی کے موقع پر ”کالوں“ کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔

دراصل خوشامدی عناصر نے ان کو باور کرا دیا ہے کہ ان کی لیڈر شپ ملک کے لیے بڑی ناگزیر ہے۔ عمران خان بطور پارٹی لیڈر اور وزیراعظم تنقید سننے کا حوصلہ بالکل نہیں رکھتے۔ وہ نرگسی شخصیت کے مالک ہیں۔ اور ایسا شخص ہٹلر اور مسولینی کی طرح سخت گیر ڈکٹیٹر کہلانے کا حقدار تو ہو سکتا ہے۔ مگر خلفائے راشدین کی طرح با اخلاق اور حسن سلوک رکھنے والا حاکم مدینہ بالکل نہیں۔

ایک بات روز روشن کی طرح واضح ہے۔ کہ منتقم مزاجی، بدکلامی اور خوشامدی پسندی کی نہ دین اسلام میں کوئی جگہ ہے۔ اور نہ ہی اس طرح کی فطرت رکھنے والی شخصیت اللہ کے قرب کی حقدار ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف کے ہی حکم پر بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے مگر حکومت کی صفوں میں ایک بھی قابل شخص موجود نہیں ہے۔ جو اس مالیاتی ادارے کے کرتا افراد سے مذاکرات کر کے ان کی کڑی شرائط میں کمی کرا سکتا۔ تاکہ عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ سے کچھ نہ کچھ تو ریلیف مل ہی جاتا۔ وفاقی وزرا اور معاونین گز بھر لمبی زبانیں ضرور رکھتے ہیں مگر وہ صرف مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہو سکتی ہیں۔ ان کو بین الاقوامی سطح پر بات چیت اور قومی اور عوامی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments