متحدہ عرب امارات پر یمنی باغیوں کا حملہ خطے کے لیے ایک چیلنج

جوناتھن مارکس - خارجہ امور کے تجزیہ کار


Drone used in an attack on display in Abu Dhabi (file photo)
رواں ہفتے یمن میں جاری تنازعے میں تیزی سے اضافے نے جنگ کی سمت اور خطے کے لیے اس کا کیا مطلب ہے، جیسے سوالات کو جنم دیا ہے۔

حوثی باغیوں کے خلاف سعودی فضائی حملے تباہ کن رہے ہیں۔ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ حوثیوں کے مضبوط گڑھ صعدہ میں ایک حراستی مرکز کو نشانہ بنایا گیا اور صرف اس ایک حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

ان حملوں کو پیر کو حوثیوں کے متحدہ عرب امارت میں کیے گئے میزائل اور ڈرون حملوں کے جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارت، حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کے زیر قیادت فوجی اتحاد کا حصہ ہے۔

اگر اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات تھے کہ آیا یہ حملہ براہ راست ردعمل کا باعث بنے گا، تو سعودیوں کے اقدامات سے اس کا واضح جواب مل چکا ہے۔

سعودی عرب کی تازہ ترین کارروائی سے پہلے ہی، متحدہ عرب امارات پر طویل فاصلے سے کیے جانے والے حملوں نے خطے میں ہونے والی وسیع تر پیشرفت پر روشنی ڈالی ہے، خاص طور پر متحدہ عرب امارت کی جانب سے ایران کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ ایک نیا سفارتی راستہ اختیار کرنے کی کوششیں اور ان حملوں کا ردعمل خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے میل جول کو ظاہر کرتا ہے۔

17 جنوری کو ہونے والے حملوں نے ابوظہبی کے باہر ایک صنعتی مقام کو نشانہ بنایا، جس سے ایندھن کے ٹرکوں کو آگ لگ گئی اور تین غیر ملکی کارکن ہلاک ہوئے۔ بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ماضی میں بھی متحدہ عرب امارات پر حملے کیے ہیں، تاہم یہ پہلا موقع ہے جب متحدہ عرب امارات کے حکام نے اس طرح کے حملوں کا اعتراف کیا ہے اور پہلی مرتبہ ان حملوں میں لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

حوثی چاہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی وفادار ملیشیا کی پشت پناہی ترک کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ یہ ملیشیا، خاص طور پر عمالقہ بریگیڈز اور اس سے منسلک گروہوں نے حالیہ دنوں میں یمن میں جاری جنگ میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور حوثیوں کو ملک کے جنوب کے اہم علاقوں سے باہر دھکیل دیا ہے اور شمال میں تیل سے مالا مال ماریب میں، جو یمنی حکومت کا اہم گڑھ ہے، لڑائی میں تیزی آ گئی ہے۔

اب بہت کچھ متحدہ عرب امارات کے ردِعمل پر منحصر ہے۔

File photo of a Houthi fighter sitting behind sandbags near a checkpoint in Sanaa

متحدہ عرب امارات یمنی حکومت کا زبردست حامی رہا ہے، اس نے سعودی عرب کی افواج کے ساتھ ملک میں اپنی فوجیں تعینات کیں۔ سعودیوں نے عرب ریاستوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا اور سنہ 2015 میں حوثیوں کی جانب سے بے دخل کی جانے والی حکومت کو بحال کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کی۔

متحدہ عرب امارات نے سنہ 2019 میں اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیا تھا لیکن اس نے حوثیوں کے خلاف مقامی ملیشیا کو اسلحے کی فراہمی اور تربیت دینے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اس سب کو صرف یمن پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ اسے سعودیوں اور ان کے اتحادیوں اور دوسری طرف ایران اور اس کے حمایت یافتہ مختلف گروہوں کے درمیان خطے میں وسیع پراکسی وار کے طور پر دیکھا گیا۔

یمن صرف ایک میدان جنگ تھا۔ درحقیقت، اگست سنہ 2020 میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد (بعد ازاں بحرین، مراکش اور سوڈان نے اس میں شمولیت اختیار کی) اسرائیل اس غیر رسمی ایران مخالف اتحاد کا حصہ بن گیا۔ جس سے ایک ایسے رجحان کی تصدیق ہوئی جو کئی سالوں سے پوشیدہ طور پر جاری ہے۔

متحدہ عرب امارت کی مشکل

تو متحدہ عرب امارات اب کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ استحکام، ریاست کی امیج کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسے کسیایسی جگہ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے جہاں کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنی افواج کو واپس بلا لینے کے باوجود، یو اے ای نے یمن کی لڑائی میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ایک واضح ردعمل یہ ہو سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارت اپنے ان اتحادیوں کے لیے جو لڑائی کا حصہ ہیں، حمایت بڑھا دے۔

لیکن پچھلے کچھ سالوں سے متحدہ عرب امارات اپنی خارجہ پالیسی کو از سرِنو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے: اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات، قطر کے ساتھ اپنے سرد پڑتے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش؛ ترکی کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی (ترکی خطے کا دوسرا ملک ہے جہاں سفارتی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں) اور سب سے بڑھ کر تہران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوششیں اس میں شامل ہیں۔

Map

تو کیا حوثیوں کے حملے متحدہ عرب امارات اور ایران کے تعلقات پر اثرانداز ہوں گے؟ اگرچہ ایران حوثیوں کا واضح اتحادی ہے (اور ان حالیہ حملوں میں استعمال ہونے والے زیادہ تر ہتھیار ایران کے بنے ہوئے ہو سکتے ہیں) لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی کلائنٹ اور پراکسی والا رشتہ نہیں ہے۔ حوثی اپنے سٹریٹجک فیصلے خود کرتے ہیں اور اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ تہران میں اس حملے کو کس حد تک مثبت طور پر دیکھا جائے گا۔

متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں کے لیے یہ حملے چیلینجز کے ساتھ ساتھ مواقع بھی پیش کرتے ہیں۔ امریکہ نے متحدہ عرب امارات کی سلامتی کے لیے اپنی ’غیر متزلزل‘ حمایت پر زور دیا ہے، حالانکہ بائیڈن انتظامیہ یمن میں لڑائی کو روکنے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی کردار سے خوش نہیں ہے۔

کیا متحدہ عرب امارات امریکی میزائل شکن دفاع کوحاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو، بائیڈن انتظامیہ کیا جواب دے گی؟

اسرائیل کے خدشات

اسرائیل عملی طور پر مدد کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے، جنھوں نے دسمبر کے وسط میں ابوظہبی کا دورہ کیا تھا، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید کو بتایا ہے کہ اسرائیل سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون کی پیشکش کے لیے تیار ہے۔

اسرائیل کے آئرن ڈوم جیسے اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم میں متحدہ عرب امارات کی دلچسپی کے متعلق اکثر اطلاعات آتی رہی ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل اس مرحلے پر ایسی حساس ٹیکنالوجی فروخت کرنے پر آمادہ ہو گا یا نہیں لیکن انھیں دوسری قسم مدد مل سکتی ہے۔

حوثیوں کی طویل فاصلے تک حملہ کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں متحدہ عرب امارت جو معلومات حاصل کر پایا ہے، اس میں شاید اسرائیل کی دلچسپی ہو گی۔

یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس وقت امریکہ، چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی جدوجہد کر رہا ہے، مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی مشترکہ خطرات کے پیش نظر خود اپنے اپنے حفاظتی تعلقات استوار کرنا شروع کر رہے ہیں۔

جوناتھن مارکس بی بی سی کے سابق دفاعی نامہ نگار ہیں اور ایکسیٹر یونیورسٹی کے سٹریٹجک اینڈ سکیورٹی انسٹی ٹیوٹ میں اعزازی پروفیسر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments