سینٹ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں ناخواندہ بے روز گار افراد کی تعداد چودہ فیصد اور پڑھے لکھے افراد کی تعداد چوبیس فیصد ہے جن میں خواتین چالیس فیصد سے زیادہ ہیں۔ بے روز گار ڈاکٹرز کا ملکی اور صوبائی سطح پر کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا گیا۔ پچھلے دنوں خانیوال کے چھوٹے سے ضلعے میں کوئی تیس سیٹوں کے لئے بارہ ہزار ڈاکٹروں نے جن میں مردو خواتین ڈاکٹر شامل تھے، انٹرویو کے لئے لائنوں میں لگے رہے۔ ان میں سے بیشتر ڈاکٹر ایسے تھے جو لاکھوں روپے ماہانہ فیس ادا کر کے ڈاکٹر بنے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔

ہسپتالوں کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اشرافیہ اور حکومتی طبقہ نہ تو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی جرات کرتے ہیں نہ سرکاری سکولوں میں اپنے بچے تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں۔ ملک میں دو کلاسیں بن چکی ہیں۔ باقاعدہ طور پر ہر چھوٹے بڑے شہر میں بیکن، سٹی سکول اور گرامر سکول کھل چکے۔ جب سے ہیلتھ کارڈ چلے ہیں نیم خواندہ سرمایہ دار لوگوں نے ہسپتال بنانے شروع کر دیے ہیں جہاں چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ پر انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر میسر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح سکولوں کی فرنچائز اسی طرح کے سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ آئی ہوئی ہے جہاں دس ہزار ماہانہ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچر مل جاتے ہیں۔

ایسے حالات میں ایک ٹرانسجینڈر لڑکی، پاکستان میں جن کو ”مخنث“ ”ہیجڑے یا خسرے“ کہا جاتا ہے نظام کو کراس کر کے کمال بہادری سے ایم بی بی ایس کر چکی ہے۔ جو کہ انتہائی قابل فخر بات ہے۔

ڈاکٹر سارہ گل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئی۔ پاکستان میں خواجہ سرا بچوں کے ساتھ گھر والے، رشتہ دار، محلے دار حتیٰ کہ والدین بھی ایسا سلوک کرتے ہیں کہ وہ بے راہ روی کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ایسا ہی ڈاکٹر سارہ گل کے ساتھ ہوا۔ اس کے باپ نے محلے والوں کے طعنوں سے تنگ آ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ سارہ اگر لڑکی ہوتی تو کیا اس کا باپ اسے گھر سے نکالتا یا نالائق شرارتی بیٹے کی شکایات آنے پر اسے گھر سے نکالنے کی جرات کرتا، قطعاً نہیں۔

سوال یہ ہے کہ میں مرد ہوں وہ عورت یا سارہ گل خواجہ سرا۔ میرے مرد ہونے میں میرا کیا کمال ہے اور سارہ کے خواجہ سرا ہونے میں سارہ کا کیا قصور ہے۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو افلاطون سے کم نہیں سمجھتے حالانکہ سوائے لوٹ مار کی اس دولت کے یا انگریز سرکار کی اپنے بھائیوں سے غداری کے عوض حاصل کی گئی جاگیر کے ان کے پلے کچھ نہیں۔ کوئی بچہ موچی کے گھر پیدا ہو گیا اس میں اس کا کیا قصور اور اگر جاگیردار کے ہاں پیدا ہوا تو اس کا اپنا کیا کمال۔

کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں یہ خواہش تک نہیں کر سکتا کہ وہ مرد پیدا ہو۔ کچھ بچے اندھے پیدا ہوتے ہیں کچھ ڈاؤن سنڈروم کے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ہر ہزار میں دو مائیں بچوں کے زچگی کے دوران دنیا سے کوچ کر جاتی ہیں۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات اس کے جسمانی اعضا کی بنیاد پر نہیں بنایا بلکہ اس کی سوچ اور فکر اسے تمام مخلوقات سے افضل بناتی ہے۔ انسان میں صرف مرد ہی شامل نہیں بلکہ خواتین اور ٹرانسجینڈر یا خواجہ سرا بھی اتنے ہی اشرف المخلوقات ہیں کہ اللہ نے ان کو بھی سوچنے سمجھنے، اچھائی برائی نیکی بدی کو سمجھنے کی پوری صلاحیت عطا فرمائی ہے۔

ٹرانسجینڈر ہوتا کیا ہے۔ وہ مرد ہوتا یا عورت ہوتی ہے، یہ سوال اکثر لوگوں کے دماغ میں گردش کرتا رہتا ہے۔ میڈیکلی ٹرانسجینڈر نہ تو پوری طرح مرد ہوتا ہے نہ پوری طرح عورت۔ اس میں کچھ مردانہ صفات ہوتی ہیں اور کچھ زنانہ۔ اب ہر ٹرانسجینڈر کا الگ حساب ہوتا ہے۔ اگر تو اس میں مردانہ صفات زیادہ ہوں تو میل ٹرانس کہلاتا ہے اور اگر زنانہ صفات زیادہ ہوں تو فیمیل ٹرانس بن جاتا ہے۔ کچھ فیمیل ٹرانس ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو ماہواری بھی آتی ہے اور ان کے ساتھ کوئی مرد سیکس بھی کر سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر میل ہارمون بھی بن رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی آواز میں نسوانیت نہیں رہتی اور موٹی آواز جیسے مردوں کی ہوتی ہے ویسی ہو جاتی ہے۔ ان کے بریسٹ اتنے بڑے نہیں ہو پاتے جتنے عام خواتین کے ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ ٹرانس میں مردانہ صفات زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کی داڑھی کے بال بھی کچھ نہ کچھ نکل آتے ہیں۔ جوانی میں وہ عورت کے ساتھ سیکس بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی جلد عورتوں کی طرح ملائم اور عضلات مردوں سے کہیں کمزور ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ بریسٹ بھی ہوتی ہے جو کم ازکم مردوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے مگر عورتوں سے کم۔

پاکستان میں ٹرانس لوگوں کی تعداد کا کچھ علم نہیں۔ پاکستان کی تو ویسے بھی آبادی متنازعہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بدنیتی سے کراچی کی آبادی کم کی گئی ہے۔ یورپ اور امریکہ جیے ترقی یافتہ ملکوں میں باقاعدہ سروے کیے جاتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں ٹرانس لوگوں کی تعداد 1.5 ملین کے قریب ہے یعنی کل آبادی کا 0.3 %۔ برطانیہ میں 1.4 % جبکہ یو ایس میں 0.4 %بتایا گیا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر ٹرانس یا ہیجڑے ناچ گانا کر کے یا سڑکوں چوراہوں پر بھیک مانگ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کمزور اور بزدل لوگوں کو ”ہیجڑا“ طعنے کے طور پر بھی کہا جاتا ہے۔ ان پر روز گار کے عام دروازے بند ہیں۔ کسی گھر میں ٹرانس پیدا ہو جائے تو گھر والے مصیبت میں آ جاتے ہیں۔ ان کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہ لوگ نسلی تعصبات کا شکار رہتے ہیں۔ نوکری کے دروازے اگرچہ بند تو نہیں مگر اس بنیاد پر ان کی ترقی نہیں ہوتی کچھ نوکری سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔

ہر سال دنیا میں 31 مارچ کو ہیجڑوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ان کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اسی طرح کے تعصبات کی بھینٹ ”ریٹا ہیسلر“ نامی ہیجڑا جسے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ ہیجڑوں کی عالمی تنظیم اس کا ہر سال 28 نومبر کو یوم شہادت مناتی ہے۔

دنیا میں بہت سے ٹرانس ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی جینڈر کی پرواہ کیے بغیر محنت کر کے اپنا نام بنایا۔ 1998 میں بھارت کے مدھیہ پردیش میں شبنم نامی ٹرانس اسمبلی کا ممبر بنا۔ ہالی وڈ کے کچھ ایکٹر اور ٹی وی سٹار بھی ٹرانس کے زمرے میں آتے ہیں جن میں ”نیٹی فلیکس“ کی سٹار ”لاورنے کوکس“ سر فہرست ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دہائی ہیجڑوں کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب ان کو شناختی کارڈ ایشو کیا گیا اور اب ان کو پاسپورٹ بھی ملنے لگا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے کئی شہروں سے ہیجڑے الیکشن میں امیدوار تھے۔ اگرچہ کسی سیاسی پارٹی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا مگر یہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں جمے رہے۔

پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے۔ اسلام ہیجڑوں کو انسان ہی سمجھنے کی تاکید کرتا ہے۔ اگرچہ مذہب میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے مگر ”غامدی“ صاحب کہتے ہیں کچھ چیزیں اور کچھ عمل اجتہاد مانگتے ہیں ہیجڑوں پر اجتہاد کی ضرورت ہے۔ مفتی نعیم بھی ہیجڑوں کو انسان سمجھتے ہوئے حکومت کو ان کے لئے اصلاحات کا کہ چکے ہیں۔ عیسائیت بطور مذہب ہیجڑوں کے ساتھ امتیازی صنفی قوانین بناتی نظر آتی ہے۔ کیتھولک چرچ ہیجڑوں کے گاڈ فادر یا گاڈ مدر بننے میں رکاوٹ ہے یعنی وہ کسی بچے کے گارڈین نہیں بن سکتے۔

ٹرانس جینڈر اب قابل علاج بھی ہے۔ فیمیل ٹرانس کو ایسٹروجن ہارمون دیے جاتے ہیں اس طرح اس کی عورت کی جسمانی ساخت نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس کے سیکس اعضا کی سرجری اب کامیابی سے ہو رہی ہے جس کے بعد ٹرانس فیمیل تقریباً مکمل عورت بن جاتی ہے۔