میس کی ٹیبل، چائے اور کچھ انمول یار


گیارہ بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی ہیں۔ ہاسٹل وارڈن دورے پر ہیں کہ کہیں کوئی لڑکا باہر نہ گھوم رہا ہو۔ ہمیں سٹڈی پریڈ کے دوران جو نو سے گیارہ ہوتا تھا، اجازت نہیں ہوتی تھی کہ باہر گھوم سکیں۔ البتہ کچھ نوجوان جو واسکوڈے گاما کے پیروکار تھے، وقفے وقفے سے واش روم جانے کے بہانے ہاسٹل کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ اس سٹڈی پیریڈ کی خاص بات یہ تھی کہ کتاب آپ کے منہ کے آگے ہونی چاہیے بے شک آپ ایک لفظ بھی نہ پڑھے۔

اس دوران موبائل استعمال کرنے کے بھی سخت ممانعت ہوتی تھی۔ مگر جیسے ہی گیارہ بجتے، ہم سب ہاسٹل کی میس کی طرف لپکتے۔ یہ بات آج تک نہیں سمجھ آئی کہ وہ چائے کی طلب ہوتی تھی یا پھر گپ شپ لگانے کی جو ہمیں میس کی طرف کشش ثقل کی طرح کھینچتی تھی۔ ادھر گیارہ ہوتے ادھر ہم سب دوست میس کی ٹیبل پر براجمان ہوتے۔ سوائے ان دو تین بندوں کے جنھوں نے ہاسٹل آتے ساتھ ہی یہ دعوی کیا تھا کہ ان سے اچھی چائے بنانا کسی کے بس کا کام نہیں۔ مگر پھر یہی دعوی انہی کے گلے پڑ گیا۔ اب ہر روز انھیں ہی چائے بنانی پڑتی ہے۔

ادھر چائے کی کیتلی چولہے پر چڑھی، ادھر سارے دن کے موضوعات چھڑ گئے۔ اب کسی کو یہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی سن بھی رہا ہے کہ نہیں۔ ہر کوئی اپنی سنانے کی کوشش میں ہے، مگر کچھ منٹوں بعد پتا چلتا کہ ارسلان صاحب جو کہہ رہے ہیں اس میں زیادہ دم ہے، کیوں کہ یہ جناب بات صنف نازک کی نفسیات کی کر رہے ہیں۔ اب نہ چاہتے ہوئے بھی ان جناب کی بات پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی کہ ازدواجی زندگی میں یہ باتیں ہی کام آئیں گی۔

یہ لیجیے جناب ارسلان صاحب بات کرتے کرتے جذبات پڑ چکے ہیں۔ ادھر چائے کو ابال بھی آ چکا ہے اور وہ باہر بھی گرنے والی ہے مگر مجال ہے کہ مٹھو نے صنف نازک کے موضوع پر ہونی والی بحث میں ذرا برابر بھی حصہ لیا ہو۔ وہ مسلسل چائے کو گھورے جا رہا ہے۔ اس کی ابتداء اور انتہا چائے ہی ہے۔ اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کے ہوتے ہوئے چائے کیتلی سے باہر گر جائے یا پھر چائے خراب بن جائے۔

اب جیسے ہی چائے ابل کر کیتلی کے دھانے پر آتی ہے جناب اس وقت پروفیشنل چائے بنانے والوں کی طرح کیتلی کو تھوڑا سا اوپر اٹھا لیتے ہیں تاکہ چائے کو مزید ابال بھی آتے رہیں اور چائے باہر گرے بھی نہ۔ ادھر ارسلان صاحب نے اپنی آخری سٹیٹمنٹ دے رہے ہیں کہ ”عورتوں کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا“ ، ادھر مٹھو نے ادھم مچا رکھا کہ روز آ جاتے ہو منہ اٹھا کر چائے پینے، کپ تمہارا باپ لائے گا؟ اب ہر ایک کے کمرے سے کپ برآمد کیے جا رہے ہیں۔

کل ملا کر ابھی دو کپ کم ہے۔ دو غائب ہونے والے کپوں میں ایک مہدی صاحب کا وہ کپ بھی شامل ہے، جو انھیں ان کی محبوبہ نے سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا، جس پر مہدی صاحب کی تصویر بھی بنی تھی۔ اس کپ کے غائب ہونے پر سارے خوش ہیں سوائے مہدی صاحب کے۔ مہدی صاحب اب غصے سے لال ٹماٹر ہو رہے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں پا رہے کہ کچھ کہا تو آگے سے جگتوں کی بارش ہو جائے گی۔

اب چائے کا دور باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا ہے۔ اب مٹھو ہمیں کنکھیوں سے دیکھ کر اچھی چائے کی داد وصول کرنے کا منتظر ہے۔ سب داد دے رہے ہیں مگر کوئی جان بوجھ کر یہ کہہ دیتا کہ کیا واہیات چائے بنائی ہے؟ اب مٹھو کو یہ پتا ہوتا تھا کہ یہ جان بوجھ کر کہہ رہا ہے مگر مٹھو سے جواب دیے بنا رہا نہیں جاتا تھا۔ ”تو اپنڑی بے بے دی ہتھ دی جا کر پیتا کر“ مٹھو دل برداشتہ ہو کر کہتا۔

ہاسٹل میں میس ٹیبل دنیا کا ایک ایسا ٹیبل ہوتا ہے جہاں پر کوئی موضوع ایسا نہیں، جس پر بحث نہ کی جاتی ہو اور سب سے دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ موضوع چاہے کوئی بھی اور کہاں سے بھی شروع ہو ختم ہمیشہ عورت پر ہی ہوتا تھا۔ بعض دفعہ تو ہم نے یہ بات طے کر کے بھی گفت گو کرنے کی کوشش کی کہ جو مرضی ہو جائے بات عورت پر ختم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک دن تو ہم کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے کہ گفت گو کے دوران عورت کا ذکر نہیں ہوا مگر اختتام پر عورت کے اس حصے کی بات کر بیٹھے، اس سے تو اگر عورت کا ذکر کر دیتے تو وہ اچھا تھا۔

ارسلان صاحب نے مشورہ دیا کہ عورت کے ذکر سے بچنے کے لئے ہمیں لفظ ”عورت“ کی جگہ ہمیں ”ع و ر ت“ پڑھنا چاہیے۔ اس سے دوران گفت گو عورت کا ذکر جاتا رہے گا، مگر ہم نے دیکھا کہ ”ع و ر ت“ پڑھنے سے ہم ایک اور جھنجھٹ میں پھنس گئے ہیں۔ جب کوئی ”ع و ر ت“ پڑھ رہا ہوتا تھا تو باقی لڑکوں کی سانس اس لمحے تھم سی جاتی تھی۔ اس لئے ہم نے عورت کے لفظ کو دوبارہ استعمال کرنا مناسب سمجھا۔ حکومت پر بلا جھجک تنقید کی جاتی تھی مگر چائے پینے کے بعد وہی لوگ منٹو صاحب کو ڈسکس کرتے تھے کہ منٹو صاحب نے افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ اور ”کھول دو“ جیسے افسانے لکھ کر خود کو امر کر دیا۔ بات اس سے ہوتی ہوئی فحاشی کے اڈوں پر جا پہنچتی۔ اور پھر بات یہاں سے سیدھی سیاستدانوں سے ہوتی ہوئی وزیراعظم تک جا پہنچتی کہ آیا اب آنے والے الیکشن میں وزیراعظم کون بنے گا اور موجودہ وزیراعظم کون کون سی غلطیاں کر رہا ہے۔

سارے باری باری وزیراعظم صاحب کی غلطیاں گنوا رہے ہیں کہ اگر یوں کرتے تو آج ملک یہاں نہ ہوتا۔ اب مٹھو یہ ساری گفتگو بڑے دھیان سے سن رہا ہے۔ وہ چائے کی آخری چسکی لے کر کپ سائیڈ پر رکھ کر زور سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر کہتا ہے۔ ”انی دیو اپنڑا پیپر تواڈے کولوں پاس ہوندا نہی، چلے نوں ملک نوں سوارن۔“ یہ بات سن کر ایک دم خاموشی ہو جاتی، پھر سارے ایک دوسرے کو دیکھتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے اس بات کا اظہار کرتے کہ بات تو سولہ آنے درست ہے۔ اب سارے محفل برخاست کر کے اپنے اپنے کمروں کی طرف جار ہے ہیں اور مہدی صاحب کچھ لڑکوں سے اپنی تصویر والا کپ کھونے پر الجھ رہے ہیں مگر واضح طور پر کچھ کہہ بھی نہیں رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments