حنا شاہنواز، مذہبی طبقہ اور ہمارا معاشرہ ۔۔۔


\"\"خوبصورت وادیوں میں گھری استرزئی پایان کی سر زمین کی خوبصورت بیٹی کِسی درندے کی گولیوں کی نذر ہو گئی- سچ تو یہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، پہلے بھی ہوتا تھا اور معاشرتی رویے یہی بتاتے ہیں کہ آئندہ بھی کِسی خیر کی کوئی توقع نہیں-

حنا شاہنواز کون تھی؟ کیا کرتی تھی اور اُس کے ساتھ کیا ہوا؟

اب تک آپ یقیناً اسے جان چُکے ہوں گے، اور اگر آپ اِسی معاشرے سے ہیں تو شاید بھول بھی چُکے ہوں؟

اِس تحریر میں میرے مدنظر دو باتیں ہیں اور وہی آپ کے سامنے مختصراً رکھنے کی کوشش کروں گا-

پہلی بات تو یہ ہے میں نہ تو لبرل ہوں اور نہ سیکولر- یہ بات میں نے کیوں کہی اس لئے کہ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ جب بھی کسی خاتون پر ظلم ہو اور کِسی انسانی قدر کو جھٹلایا جائے تو اس پر صرف یہی طبقہ گویا ہوتا ہے-

سمجھا عموماً تاثرات کی بنیاد پہ جاتا ہے اور شاید یہ تاثرات بنانے میں ہمارا لبرل طبقہ کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے- جبکہ مذہبی گروہ ناکام؟

میرا یونیورسٹی کا ایک اچھا دوست ہے- مذہبی گھرانہ سے ہے اور طرہ یہ کہ پٹھان بھی ہے- جب حنا شاہنواز کے قتل کی رلا دینے والی خبر گرم ہوئی تو میں نے اسے بتایا کہ کوہاٹ میں یہ واقعہ ہو گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی ہلکا سا طنز کر دیا کہ یار تم پٹھان کب باشعور ہو گے (اگرچہ باقی صوبوں میں بھی حالت قابلِ تعریف نہیں)؟

کہنے لگا، \’ احمد بھائی تُم جانتا نہیں، اس قتل کے پیچھے ضرور کوئی اور وجہ ہو گا\’ ؟

میرے انکار کرنے پر وہ مجھ پہ طنزیہ ہنسی ہنسا!

کہنے لگا، میں اُس معاشرے سے ہوں۔ مجھے بہتر پتا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے کیا وجوہ ہوتی ہیں-

جب کسی ان پڑھ کی زبان سے ایسے الفاظ سننے کو ملیں تو چلیں کوئی بات نہیں، لیکن جب یہی الفاظ کسی پڑھے لکھے نوجوان کی زبان سے نکلتے ہیں تو یقین مانیں، مانندِ تیر سیدھے دِل پہ اترتے ہیں-

یعنی ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا نوجوان کسی بھی دوسری وجہ سے قتل کو جائز سمجھتا ہے- ہماری بدقسمتی ہے کہ اِس جدید پڑھے لکھے دور میں بھی ہم اپنے معاشرے کو یہ نہ باور کرا سکے کہ قتل کا اختیار کوئی بھی مذہب اور خاص کر اسلام کسی ایک انسان کو نہیں دیتا- جرائم کی ذمہ داری متعین کرنے کا اختیار بہرکیف قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہی ہے- یہ وہ بات ہے جِسے جتنی دفعہ دوہرایا جائے کم ہے-

سکہ کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے- وہ یہ کہ، جب بھی ہمارے معاشرے کی کوئی عورت کسی بھائی، چچا یا کِسی اورعزیز کی گولی کا نشانہ بنتی ہے تو ہمارے دائیں بازو والا طبقہ بالعموم خاموش رہتا ہے- ابتدائی طور پر اُن کا مؤقف یہ ہوتا تھا کہ ہمارا میڈیا اور اسی طرح کے دوسرے عناصر کا کردارِ بد اس طرح کے واقعات کا موجب بنتے ہیں- اگرچہ کِسی حد تک یہ بات صحیح ہے لیکن کیا ایسی صورت میں ہمیں ایسے جرائم کی حوصلہ افزائی کرنی پڑے گی؟ کیا ایسی صورت میں ہمارے اوپر خاموشی واجب ہو جاتی ہے؟ کیا حنا شاہنواز کے قتل میں میڈیا ملوث تھا؟ کیا حنا ایک خاتون نہیں تھی؟ کیا اسلام خواتین کے خقوق کے لیئے بولنے کا نہیں کہتا یا یہ کام نام نہاد این جی اووز کے لئے رکھ چھوڑا گیا ہے؟

در اصل ہم میں سے ہر ایک اپنے ایک مخصوص خول کے اندر بند ہے- وہ اِس خول سے باہر نکل کر جینا نہیں چاہتا- اُس کے لئے اس کی ساری کائنات اس خول کے اندر والے ہیں- اس کی ساری کی ساری ہمدردیاں، اُس کی تمام تر محتیں اُس خول کے اندر رہنے والوں کے لیئے مخصوص ہیں- اُس خول سے نکلنا یا باہر کی سوچنا وہ اپنے لیئے جُرم سمجھتے ہیں- ایک ناقابلِ معافی جرم؟

سچ پوچھیں تو ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر بے حِس واقع ہوا ہے- احساس کو چند افراد تک محدود کر لیا ہے- یہ احساس کِسی مذہبی شخص کو اس کے مذہب تک محدود رکھتا ہے، اور پھر مذہب کے اندر اس احساس کی \’ سب ڈویژن \’ بھی ہیں، احساسِ بریلوی، احساسِ دیوبندی اور احساسِ اہل حدیث وغیرہ-

ہائے ہائے — فراز کی زبان بولوں تو یہی کہوں گا!

جی چاہتا ہے کہ تُم سے پوچھوں

کیا راز اِس اجتناب میں ہے

تُم اتنے کٹھور تو نہیں تھے

یہ بے حِسی کِس حساب میں ہے

اور آخر میں —–!

تُم چُپ ہو تو کِس طرح سے چُپ ہو

جب خلقِ خدا عذاب میں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments