لاہور میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کے قتل کا معمہ: ’ڈاکٹر ناہید مبارک نے ایسی بچی گود لی تھی جسے اس کے والدین چھوڑ کر چلے گئے تھے‘

شاہد اسلم - صحافی، لاہور


لاہور، قتل
لاہور کے ایل ڈی اے چوک کاہنہ کے پاس اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہنے والا 15 برس کا علی زبیر 19 جنوری بروز بدھ کو روزانہ کی طرح صبح سات بجے کے قریب اٹھا اور پانی بھرنے کے لیے موٹر چلوانے کے لیے گھر کے مالکان کا دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ موٹر کا مرکزی سوئچ ان کے گھر کے اندر موجود ہے۔

عام طور پر چند آوازیں دینے کے بعد اندر سے کوئی نہ کوئی جواب آ جاتا تھا یا کوئی دروازہ کھول دیتا تھا لیکن اس روز دس منٹ تک مسلسل پکارنے اور دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود کسی نے نہ کوئی آواز دی اور نہ ہی دروازہ کھولا۔

تھوڑی دیر بعد علی زبیر نے غور کیا کہ باہر کا مرکزی دروازہ اندر سے کھلا ہے جہاں سے وہ سیڑھیاں چڑھ کر مکان کی پہلی منزل پر آ گیا اور دیکھا کہ مالک مکان کے گھر کا اندر والا دروازہ بھی کھلا ہے لیکن اندر اندھیرا ہے۔

علی زبیر فوراً نیچے چلا گیا اور مالک مکان کی دوست آسیہ بی بی، جو علی زبیر والے گھر میں ہی ایک الگ پورشن میں رہتی ہیں، انھیں آواز دی اور ساری بات بتائی۔

آسیہ بی بی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئیں اور جا کر دیکھا کہ گھر کے اندر کے تمام دروازے کھلے ہیں اور فرش پر ہر طرف خون ہی خون ہے۔

آسیہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ اندر داخل ہوئیں تو اندر اندھیرا تھا اور انھوں نے لائٹ جلانے کے لیے چند ایک بٹن بھی دبائے لیکن کوئی لائٹ نہیں جلی۔

وہ تھوڑا آگے بڑھیں اور دیکھا کہ گھر کی مالک مکان اور لیڈی ہیلتھ ورکر ڈاکٹر ناہید مبارک کے کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی ان کے بڑے صاحبزادے 22 برس کے تیمور سبطین کی لاش پڑی تھی جبکہ بیڈ پر 45 برس کی ڈاکٹر ناہید مبارک، ان کی 17 برس کی بیٹی ماہ نور اور آٹھ برس کی بیٹی جنت فاطمہ بھی خون میں لت پت پڑیں ہیں۔

چاروں کو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔

آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ ’یہ سب دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ میں نے فوراً علی زبیر سے کہا کہ اپنے بڑے بھائی فیض احمد کو اوپر بلائے۔‘

فیض احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سو رہے تھے جب ان کا چھوٹا بھائی علی زبیر بھاگا بھاگا آیا اور کہا کہ آنٹی آسیہ اوپر بلا رہی ہیں۔ فیض احمد کہتے ہیں کہ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے اور دیکھا کہ آسیہ بی بی کی حالت غیر ہو رہی تھی اور اندر ہر طرف خون ہی خون تھا۔ انھوں نے فوری طور پر پولیس کو کال کر کے واقع کے بارے میں بتایا۔

جمعرات کو پوسٹ مارٹم کے بعد پولیس نے لاشیں ورثا کے حوالے کر دی تھیں، جنھیں جڑاںوالا میں اپنے آبائی علاقے میں تدفین کے لیے لے جایا گیا۔

پولیس افسر ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ابھی تک اس کیس میں کوئی بریک تھرو نہیں مل سکا کہ یہ چاروں قتل کس نے اور کن وجوہات کی بنا پر کیے ہیں۔

عاصم افتخار کے مطابق پولیس کچھ مشکوک افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے لیکن اس کے متعلق ابھی مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

ایک بیٹا گھر میں بنے کلینک میں سوئے ہونے کی وجہ سے بچ گیا

آسیہ بی بی اس دن کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ ڈاکٹر ناہید مبارک کا دوسرا بیٹا علی زین انھیں اندر نظر نہیں آیا۔

’سب کو اس کی فکر ہو رہی تھی کہ اتنی دیر میں کسی نے بتایا کہ وہ گراؤنڈ فلور پر مکان کے بالکل اختتام پر بنے عارضی کلینک میں سو رہا ہے اس لیے اسے وہاں سے جگا کر جب یہ ساری بات بتائی گئی تو وہ بے ہوش ہو گیا۔‘

علی زین فورتھ ایئر کا طالبعلم ہے اور اس روز کلینک میں سوئے ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گیا۔ اتنی دیر میں فیض احمد کے کال کرنے پر تھانہ کاہنہ کی پولیس اور دیگر سینیئر پولیس حکام بھی موقع پر پہنچ گئے۔

چار ہلاکتوں کی ہولناک خبر سنتے ہی اہل محلہ کی کثیر تعداد بھی موقع پر پہنچ گئی کیونکہ ڈاکٹر ناہید مبارک کو سارا علاقہ ہی جانتا تھا کیونکہ وہ اس جگہ پر پچھلے 25 سال سے رہ رہی تھیں اور اپنا ایک نجی کلینک چلاتی تھیں اور اس بستی میں تقریباً ہر گھر سے کوئی نہ کوئی بچہ ان کے ہاتھوں ہی پیدا ہوا تھا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر ناہید جنرل ہسپتال لاہور میں بھی کام کر چکی تھیں۔

تھانہ کاہنہ کی پولیس نے علی زین کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور اس ہولناک واردات کی تفتیش کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دے دیں۔

’سب سے پہلے گولی خاتون کو ماری گئی‘

پولیس اور فرانزک ماہرین نے جائے وقوعہ سے شواہد اور مختلف نمونوں بشمول خون، گولیوں کے چھ خول اور دیگر چیزیں اکھٹی کر کے مزید جانچ کے لیے فرانزک لیبارٹری بھجوا دی ہیں۔ اسی طرح جائے وقوعہ سے ملنے والے فونز بھی تحویل میں لے کر فرانزک لیبارٹری مزید جانچ کے لیے بھجوائے گئے ہیں۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ ’سب سے پہلے گولی خاتون کو ماری گئی اس کے بعد دونوں بچیوں کو مارا گیا۔ بیٹا دوسرے کمرے میں سویا ہوا تھا لیکن شور سن کر وہ اس کمرے میں آیا تو دروازے کے پاس ہی اسے گولی مار دی گئی اور وہ وہیں دم توڑ گیا۔‘

پولیس ذرائع کے مطابق بعض کو ایک سے زائد گولیاں بھی لگیں ہیں۔

پولیس ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ دونوں بیٹیاں بھی شاید جاگ گئیں تھیں جب ان کی والدہ کو مارا گیا اس لیے خود کو بچانے کے لیے انھوں نے اپنے ہاتھوں سے منھ کو ڈھانپنے کی کوشش بھی کی کیونکہ گولیوں کے نشان ان کے ہاتھوں پر بھی تھے۔

ڈاکٹر ناہید اقبال

پڑوسیوں کے مطابق ڈاکٹر ناہید مبارک چپ چپ رہتی تھیں اور بچے بھی کسی سے فالتو بات نہیں کرتے تھے

’20 کے قریب مختلف خاندان ڈاکٹر ناہید کے کرائے دار تھے‘

تفتیش سے منسلک ایک سینیئر پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ جس مکان میں قتل کی یہ واردات ہوئی وہ ڈاکٹر ناہید مبارک کی ملکیت ہے اور وہ 15 سے 20 مرلے کے قریب جگہ ہے جس کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے تین منزلہ عمارت کھڑی کی گئی ہے۔

سینیئر پولیس اہلکار کے مطابق تمام الگ الگ حصوں (پورشن) میں کل ملا کر 15 سے 20 کمرے ہیں اور اتنی تعداد میں ہی مختلف خاندانوں کو کرائے پر دیے گئے ہیں۔

پولیس کے تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ مقتولہ ڈاکٹر ناہید مبارک کی اپنے سابقہ خاوند سے سنہ 2004 میں طلاق ہو چکی تھی، جس کے بعد سے وہ بچوں کے ساتھ اس گھر میں رہ رہی تھیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق مقتولہ مکان کے فرنٹ پر بنے دو منزلہ الگ پورشن کے فرسٹ فلور پر تین کمروں میں اپنے بچوں سمیت رہائش پذیر تھیں جبکہ اس پورشن کا گراؤنڈ فلور کرائے پر تھا اور دوسرے فلور پر بنے دو کمروں میں بھی دو مختلف کرائے دار رہائش پذیر تھے۔

پولیس کے تفتیشی ذرائع کے مطابق کل ملا کر 20 کے قریب مختلف خاندان ڈاکٹر ناہید مبارک کے کرائے دار تھے لیکن حیران کن طور پر کوئی ایک بھی ایسا سامنے نہیں آیا، جس نے یہ مانا ہو کہ اس رات کسی نے چلانے یا گولی چلنے کی آواز بھی سنی ہو۔

حتیٰ کے ڈاکٹر ناہید مبارک جس فلور پر رہ رہی تھیں اس سے اوپر والے فلور پر جانے کے لیے محض چند سیڑھیاں ہی چڑھنی پڑتی تھیں اور وہاں دو کرائے دار رہ رہے تھے لیکن انھوں نے بھی اس رات کسی طرح کی کوئی آواز نہیں سنی۔

تاہم ڈاکٹر ناہید مبارک کے ہمسائے بہادر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات تقریباً تین بجے کے قریب انھوں نے گولیاں چلنے اور چیخ و پکار کی آواز سنی تھی۔

’میری بیوی نے کہا کہ لگتا ہے گولیاں چلی ہیں جس پر ہم سمجھے کہ شاید کسی کا بچہ پیدا ہوا ہے اور اس نے خوشی میں فائرنگ کی ہے، اس لیے ہم باہر نہیں نکلے اور سو گئے۔‘

ڈاکٹر صاحبہ نے سب سے چھوٹی بچی کو گود لیا تھا

بہادر علی کے مطابق ڈاکٹر ناہید مبارک اکثر رات کو ڈیلیوری کے کیسز کرتی تھیں۔ بہادر علی نے مزید بتایا کہ انھیں تو اس واردات کا پتا تب چلا جب وہ بدھ کی صبح شور سن کر باہر آئے اور دیکھا کہ ہر طرف لوگ ہی لوگ جمع تھے۔

ڈاکٹر ناہید مبارک سے متعلق بات کرتے ہوئے آسیہ بی بی نے بتایا کہ وہ بہت اچھی خاتون تھیں اور انھوں نے آج تک نہیں بتایا کہ کن وجوہات کی بنیاد پر انھوں نے اپنے خاوند سے طلاق لی تھی۔

آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹر ناہید مبارک کو گذشتہ 17 سال سے جانتی ہیں اور ان کے ساتھ کلینک پر بھی ہاتھ بٹاتی رہی ہیں لیکن مقتولہ اپنے نجی معاملات زیادہ شیئر نہیں کرتی تھیں۔

آسیہ بی بی کے مطابق ڈاکٹر ناہید مبارک تو ایسی خاتون تھیں کہ انھوں نے کبھی بھی پیسوں کے لین دین میں کسی سے بحث نہیں کی بلکہ ہمیشہ غریبوں کا خیال رکھتی تھیں، حتیٰ کہ کرائے داروں کو بھی کبھی تنگ نہیں کیا۔

’سات آٹھ برس قبل ہم نے ایک کیس کیا اور بچی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبہ ڈیلیوری کے بعد کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے واپس لوٹیں تو دیکھا کہ کمرے میں صرف وہ اکیلی بچی پڑی رو رہی ہے جبکہ اس کو پیدا کرنے والی ماں اور اس کے ساتھ آنے والا مرد اسے وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی جب کوئی نہ لوٹا تو ڈاکٹر صاحبہ نے اس بچی کو گود لے لیا اور اسے پالا پوسا اور یہ جنت فاطمہ وہی بچی تھی۔‘

آسیہ بی بی کے مطابق یہ بات آج تک کسی کو پتا نہیں تھی کہ یہ بچی کون ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ اسے اپنے بچوں سے بڑھ کر پیار کرتی تھیں۔

جنت فاطمہ

ڈاکٹر ناہید مبارک اپنے بچوں سے بڑھ کر جنت فاطمہ سے پیار کرتی تھیں

’ڈاکٹر ناہید چپ چپ رہتی تھیں اور بچے بھی کسی سے فالتو بات نہیں کرتے تھے‘

ڈاکٹر ناہید مبارک کی اوپر والی منزل پر رہنے والی کرائے دار صبا نے بی بی سی کو بتایا کہ جس رات یہ واردات ہوئی اس رات تقریباً 11 بجے کے قریب ڈاکٹر صاحبہ اوپر آئیں تھیں اور ان سے پریشر ککر مانگا تھا کہ کچھ مہمان آئے ہیں، جس کے بعد میں اور میرے خاوند سو گئے اور اس کے بعد کیا ہوا ہم نے کچھ نہیں سنا۔

صبا کے مطابق ڈاکٹر ناہید مبارک بڑی چپ چپ سی رہتی تھیں اور بچے بھی زیادہ تر کسی سے فالتو بات نہیں کرتے تھے اور ہر وقت گھر کے اندر ہی رہتے تھے۔

صبا نے بتایا کہ تیمور کرایہ لینے آتا تھا اور بغیر کوئی بات کیے وہیں سے واپس ہو جاتا تھا۔

صبا کے مطابق ڈاکٹر ناہید بڑی نڈر خاتون تھیں۔

’کبھی کبھار جب ہم کوئی بات کرتیں تو ڈاکٹر صاحبہ کہہ دیتی تھیں کہ کسی کی جرات ہے کہ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے۔‘

صبا کے مطابق رات کو بھی وہی مریض آتے تھے جنھیں وہ ذاتی طور پر جانتی تھیں۔

آسیہ بی بی کے مطابق ڈاکٹر صاحبہ کو وراثت میں بھی حصہ ملا لیکن زیادہ تر جائیداد انھوں نے کلینک کی کمائی سے ہی بنائی۔

آسیہ بی بی کے مطابق تیمور ڈاکٹری کا کوئی کورس کر رہا تھا اور زین بھی کچھ روز تک ایم بی بی ایس کے لیے چین جا رہا تھا جبکہ ماہ نور دسویں کلاس میں پڑھ رہی تھیں اور جنت فاطمہ کو ان کی بیٹی گھر پر پڑھا رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

’اکلوتی بیٹی سے پیار کرنے والا باپ آخر اسے کیسے قتل کر سکتا ہے؟‘

’وجیہہ سواتی کی لاش کمرے میں دفن کر کے اس پر پکا فرش ڈال دیا گیا‘

نایاب قتل کیس: سابق ماڈل کو ’گلا دبا کر قتل کیا گیا‘

سی سی ٹی وی کی مدد سے ایک مشکوک گاڑی کا سراغ

دوسری طرف پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ گھر کا مرکزی دروازہ توڑا نہیں گیا، جس سے لگتا ہے کہ یا تو وہ دروازہ رات کو کھلا رہ گیا یا وہ دروازہ کسی کے لیے کھولا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق گھر کے کمروں کے سامنے بنے چھوٹے سے برآمدے کے دروازے پر لگی جالی بھی پہلے سے ہی ٹوٹی ہوئی تھی، جس میں سے ہاتھ ڈال کر اندر سے دروازہ کھول کر بیڈ رومز کے کمروں تک جایا جا سکتا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بیڈ رومز کے دروازے بھی کیا کھلے رہ گئے تھے یا کسی نے کھولے کیونکہ اتنی سردی میں رات کو بیڈروم کے دروازے کوئی کیوں کھول کر سوئے گا۔

پولیس ذرائع کے مطابق وقوعہ کی رات کو بھی ڈاکٹر ناہید مبارک نے ایک ڈیلیوری کا کیس دیکھا تھا اور پولیس نے سی سی ٹی وی کی مدد سے ایک ایسی مشکوک گاڑی کا بھی سراغ لگایا ہے جو واردات کی رات ایک بجے کے قریب گھر کے باہر دیکھی گئی، جس کے متعلق یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ کار اس واردات میں استعمال ہوئی ہو۔

وہ مشکوک گاڑی تقریباً دو گھنٹے گھر کے باہر رکنے کے بعد وہاں سے تیزی سے جاتی دکھائی بھی دیتی ہے۔ پولیس تاحال اس گاڑی کو ڈھونڈ نہیں سکی اور سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کی مدد سے اس کی تلاش جاری ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق مقتولہ کی پہلے خاوند سے طلاق کے بعد بھی عدالتی حکم کے مطابق وہ ہر ماہ بچوں سے ملنے ضرور آتے تھا۔

’یہ قتل کسی ذاتی رنجش یا لین دین کے معاملے پر ہوئے ہیں‘

پولیس کے مطابق مقتولہ خاتون کی بہت سی جائیدادیں ہیں اور چار مکان تو صرف اسی محلے میں ہیں جبکہ ان کی جائیداد یقیناً کروڑوں روپے کی تھی۔

پولیس نے مقتولہ کے بیٹے اور سابق خاوند اور بھائی کو شک کی بنیاد پر کئی گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق جب پولیس موقع پر پہنچی تو تیمور کا لیپ ٹاپ چل رہا تھا، جس سے بظاہر لگتا ہے کہ جس وقت قاتل اس گھر میں گھسے تیمور جاگ رہا تھا اور شاید چیخ و پکار اور گولیوں کی آواز سن کر دوسرے کمرے میں گیا اور وہیں اسے گولی مار دی گئی۔

پولیس ذرائع کے مطابق قتل کی اس واردات میں 30 بور پستول استعمال کی گئی۔

پولیس حکام نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ان کی اب تک کی تفتیش اور جائے وقوعہ سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ قاتل ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ اس پہلو پر بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ کیا مقتولہ ڈاکٹر ناہید مبارک کا کسی مریض سے تو کوئی جھگڑا نہیں چل رہا تھا جس نے کسی رنجش یا بدلے کی وجہ سے یہ واردات انجام دی ہو۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ’یہ قتل کسی ذاتی رنجش یا لین دین کے معاملے پر ہوئے ہیں کیونکہ قاتل گھر میں پوری فیملی کو قتل کرنے کی نیت سے ہی گھسے تھے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments