یہ حوثی کون ہیں؟


صنعا میں مسلح حوثی باغی اپنی تحریک کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے (فائل فوٹو)

جب بات یمن اور وہاں ہونے والی جنگ کی ہوتی ہے تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ حوثی کون ہیں?۔ یہ جنگ کیوں ہو رہی ہے اسکے مقاصد کیا ہیں? اور حوثی کیا ایسے کر رہے ہیں کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے مطابق اس گروپ کو ایک مرتبہ پھر دہشتگرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرنے پر غور ہو رہا ہے؟

تاریخی حوالوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ حوثی۔ زیدی شیعہ ہیں جو یمن میں آباد سب سے بڑی اقلیت ہیں اورجو امامت کے اس سلسلے میں سے جس پر مین سٹریم ( main stream ) یا مرکزی دھارے کا شیعہ فرقہ عقیدہ رکھتا ہے اور جس میں بارہ اماموں کو ماننا عقیدے کی اساس ہے۔ حوثی صرف چار آئمہ کو مانتے ہیں اور چوتھے امام کے بعد وہ مرکزی شیعہ مکتبہ فکر کے پانچویں امام کو نہیں مانتے بلکہ چوتھے امام کے دوسرے بیٹے کی امامت مانتے ہیں ،اور ان ہی کی نسل سے ان کے اماموں کا سلسلہ چلتا ہے۔

یہ قبیلہ یمن میں آباد ہے جو ایک بہت قدیم ملک ہے۔ اور کئی قدیمی تہذیبوں کے سنگم پر رہا ہے۔ حضرت سلیمان پیغمبر کے حوالے سے ملک یمن، ملک صبا اور ملکہ صبا کے قصے تاریخ کا حصہ ہیں۔ اور یہ ملک موجودہ دور کے سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات جیسے بہت سے ملکوں سے بہت پہلے وجود رکھتا تھا۔ جس نے تاریخ کے بہت سےادوار اور سرد و گرم دیکھے ہیں۔

کئی صدیوں تک شمالی یمن میں زیدی اماموں کی حکومت رہی جن کا دعوی تھا کہ وہ ہاشمی نسل سے ہیں۔ پھر 1962 میں شمالی یمن میں ایک انقلاب کے ذریعے زیدی اماموں کی کوئی ایک ہزار سالہ حکومت ختم ہو گئی۔ شمالی یمن ان کی طاقت کا گڑھ تھا اور ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اس خطے کو بعد میں آنے والی حکومتوں نے زیادہ تر نظر انداز کیا۔

یمن برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان تقسیم بھی رہا اور پھر متحد بھی ہوا۔ لیکن وہاں آباد حوثیوں کو شکایت رہی کہ حکومت ان کے ساتھ نا انصافی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

حوثیوں کی تحریک کو انصاراللہ کہا جاتا ہے۔ اور یمنی حکومت کے ساتھ حوثیوں کے تصادم کا آغاز 2004 میں اس وقت ہوا جب اس وقت کی حکومت نے ایک زیدی شیعہ لیڈر اور سابق پایمینٹیرین حسین بدرالدین الحوثی کو گرفتار کرنا چاہا جن کے سر پر حکومت نے پچپن ہزار ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ شروع میں یہ لڑائی ایک دو صوبوں یا گورنروں تک محدود رہی۔ اور 2014 میں دار الحکومت صنعا پر حوثیوں کے قبضے کے بعد اور 2015 میں سعودی قیادت والے اتحاد کی مداخلت کے بعد بھرپور خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔

یمن میں افریقی پناہ گزینوں کی حالت زار
یمن میں افریقی پناہ گزینوں کی حالت زار

حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان چیزوں کے لئے لڑ رہے ہیں جو ان کے بقول سب یمنی چاہتے ہیں جس میں حکومت کی جواب دہی، بد عنوانیوں کا خاتمہ، ضروریات زندگی کی باقاعدہ فراہمی، ایندھن کی معقول قیمت اور عام یمنی باشندوں کے لئے روز گار کے مساوی مواقع وغیرہ شامل ہیں۔

حوثیوں اور ان کی تحریک انصاراللہ کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن پھر صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔

اب جب کہ ابوظہبی پر ڈرون اور میزائل حملے کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی ہے، صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ یمن کی حوثی تحریک کو ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔صدر بائیڈن نے یہ بات بدھ کے روز سال 2022 کی اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں اس کے کچھ ہی دیر بعد کہی جب متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے نے ٹوئٹر پر کہا کہ امارات کے سفیر نے بائیڈن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیر کے روز ابو ظہبی پر حملوں کے جواب میں وہ حوثیوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دے۔

سعودی عرب اور یمن کی جنگ

سعودی حمایت یافتہ عبد ر بو منصور ہادی نے 2012 کے یمن کے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ 2014 میں حوثیوں یا انصارالللہ جن کے بہت پہلے سے یمنی حکومتوں کے ساتھ اختلافات چلے آ رہے تھے، حکومتی فیصلوں اور نئے آئین کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کئے جو 2015 میں ان کی جانب سے حکومت پر قبضے پر ختم ہوئے۔ جس کے بعد ہادی اور حوثیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا۔ جس پر دونوں ہی فریقوں نے عمل نہیں کیا اور ہادی اور ان کے ساتھی فرار ہو کر یمن پہنچ گئے۔ اور اسے اپنا عارضی دارالحکومت قرار دیکر اپنی حکومت قائم کرلی۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ سے مداخلت کی اپیل کی۔ حوثیوں کی جنوبی علاقوں میں کارروائیوں کے دوران سعودی عرب نے یمن کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجی گڑھ بندی شروع کردی۔ ہادی نے ریاض کا دورہ بھی کیا۔ اور چونکہ سعودی عرب منصور ہادی کی حمایت کرتا تھا اور حوثیوں کو اس کے حریف ایران کی حمایت حاصل تھی اور وہ اپنی سرحدوں کے قریب حوثیوں کے اثر و رسوخ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا تھا اس لئے اتحادی ملکوں کے ساتھ ملکر یمن کی اس جنگ میں حوثیوں کے خلاف کود پڑا۔

جنگ اور یمن کے اندر صورت

اب اس جنگ یا خانہ جنگی کو جس میں تجزیہ کاروں کے نزدیک بیرونی مداخلت بھی پورے زور و شور سے جاری ہے، سات سال سے زیادہ کا وقت گزر گیا۔ اور جنگ بظاہر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کچھ عرصے قبل آنے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ 2021 کے آخر تک اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد تین لاکھ 77ہزار تک پہنچ جائے گی۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر یا یواین ایچ سی آر کی یمن میں ایک سابقہ ترجمان دنیا اسلم خان نے جو چند روز قبل ہی وہاں سے واپس آئی ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یمن کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ بلکہ یہ بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ بیس اعشاریہ سات ملین لوگوں کو، جو یمن کی کل آبادی کا 65 فیصد ہیں اس وقت انسانی بنیادوں پر مدد کی شدید ضرورت ہے جس میں خوراک، سر چھپانے کی جگہ اور صحت کی سہولتوں جیسی بنیادی ضرورتیں شامل ہیں۔ شمالی یمن میں ریال کی قیمت گرنے کے سبب افراط زر بڑھ رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اور کووڈ کی وجہ سے جن لوگوں کے روز گار کے ذرائع پہلے ہی بری طرح متاثر ہو چکے تھے اب ان کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی ذریعہ ہے نہیں اور ان کا مکمل انحصار انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی یمن میں پچاس سے زیادہ سر گرم محاذ جنگ کھلے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب صنعاا اور دوسرے مقامات پر شدید بمباری نہ ہوتی ہو۔ دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد چار ملین ہے۔ جن کے لئے مناسب پناہ گاہیں بھی میسر نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ یمن میں انسانی بحران ایسے وقت جنم لے رہا ہے جب افغانستان بھی ایک انسانی المئیے کے دہانے پر کھڑا ہے اور پوری دنیا خاص طور سے عالمی میڈیا کی اس پر پوری توجہ ہے۔ تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے یمن کی جنگ اور انسانی المیہ پس منظر میں چلا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے یمن میں انسانی بنیادوں پر مدد کے لئے کوئی چار ارب ڈالر کی اپیل کر رکھی ہے۔

دنیا اسلم خان نے کہا کہ یمن کے لئے اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے جتنے فنڈز کی اپیل کی گئی اس کا کل 55 فیصد ان اداروں کو مل سکا۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسے ملک کی مدد کے لئے دنیا کا رد عمل تھا جس کے سر پر قحط سالی کا خطرہ منڈلا رہا ہے، لاکھوں بچے ناقص غذا کے سبب یا تو بیمار ہیں یا اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

شمالی یمن جہاں ہوتیوں کا کنٹرول ہے وہاں جنوبی یمن کے مقابلے میں زیادہ مشکلات ہیں جہاں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت موجود ہے۔ صنعا ایرپورٹ پر 2016 سے پابندیاں ہیں۔ یہی حال بندر گاہوں کا بھی ہے۔ کوئی یمنی وہاں سے ہوائی سفر نہیں کر سکتا۔ صرف اقوام متحدہ کی چارٹرڈ فلائٹس امدادی سامان وغیرہ لا نے لےجانے کے لیے چلتی ہیں۔ دوسری جانب حوثی بھی اتحادی ملکوں خاص طور سے سعودی عرب کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ وہاں میزائل حملے کرتے ہیں۔ اور حال ہی میں انہوں متحدہ عرب امارات کا ایک بحری جہاز بھی پکڑ لیا جو اتحادیوں کے بقول ادویات لیکر جا رہا تھا۔ جب کہ ہوتیوں کا موقف تھا کہ وہ ہتھیار لیکر جا رہا تھا۔

اس جنگ کے حوالے سے امریکہ نے بھی اسے ختم کرانے یا کم از کم اس کی شدت کم کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنوری 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد 4 فروری کو صدر بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے پہلے بیان میں یمن کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی کے تین فیصلوں کا اعلان کیا تھا۔ یمن میں جارحانہ کارروائیوں کے لئے ہتھیاروں کی فروخت سمیت ہر قسم کی حمایت کا خاتمہ، یعنی سعودی عرب کے لئے ایسے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی جنہیں یمن میں استعمال کیا جاسکے۔ یمن میں قیام امن کے لئےاقوام متحدہ کے اقدامات کے لئے امریکہ کی حمایت اور یمن کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کا تقرر۔ لیکن مبصرین کےبقول اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔

تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے حالیہ رابطے، ایران کی ثالثی کی پیشکش اور اقوام متحدہ کی کوششیں اس مسئلے کے کسی حل میں امید کی ایک کرن پیدا کر رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments