کیا برطانیہ کا اگلا وزیرِ اعظم کوئی پاکستانی یا بھارتی نژاد شہری ہو سکتا ہے؟


ویب ڈیسک — برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن اور ان کے اسٹاف کی جانب سے کرونا لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی کرنے کے انکشاف کے بعد عوامی ردِ عمل کے باعث حکمران کنزرویٹو پارٹی کے بعض ارکان انہیں وزارتِ عظمی کے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اگر یہ ارکان بورس جانسن کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پارٹی میں نئے وزیرِ اعظم کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔

اس سلسلے میں جو نام سرِ فہرست ہیں ان میں محکمۂ خزانہ کے چیف رشی سونک ہیں۔ 41 برس کے رشی اس وقت پارٹی میں ابھرتے ہوئے رہنما کے طور پر دیکھے جا رہی ہیں اور جانسن کے جانے کے بعد انہیں وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے موزوں خیال کیا جا رہا ہے۔

وہ پہلی بار عوامی نگاہ میں تب آئے تھے جب 2020 کے اوائل میں انہیں خزانے کا محکمہ سونپا گیا تھا۔

انہوں نے گزشتہ دو برس میں کاروباروں، ورکرز اور عوام کو کرونا بحران کے دوران اربوں پاؤنڈز کی امداد فراہم کی ہے۔

سونک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہیں۔ عوامی رائے کے پولز کے مطابق سونک کنزرویٹو پارٹی کے دوسرے وزرا کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ان کی مہنگی تعلیم اور اعلیٰ نوکری کی وجہ سے وہ عام آدمی کے مسائل سے دور ہیں۔

اگر وہ وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو وہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلے وزیراعظم ہوں گے جو سفید فام نہیں ہوں گے۔ ان کے والدین بھارتی ہیں جو مشرقی افریقہ سے برطانیہ ہجرت کر کے آئے تھے۔

سونک کے علاوہ سیکریٹری خارجہ لز ٹروس کا نام بھی سرفہرست رہنماؤں میں آتا ہے۔ 46 برس کی لز ٹروس نے ستمبر میں خارجہ امور کا قلم دان سنبھالا تھا۔ وہ اس سے پہلے وزیرِ تجارت کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔

وہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد اس وقت نئے تجارتی معاہدے کے لیے برطانیہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

ماضی میں وہ یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی مخالفت کر چکی ہیں البتہ اب وہ اس کی حمایت کرتی ہیں اور دنیا بھر میں بورس جانسن کے ویژن کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

اگرچہ وہ کنزرویٹو پارٹی کے ارکان میں بہت مقبول ہیں البتہ عوامی طور پر انہیں کم ہی جانا جاتا ہے۔

اوپینیم ریسرچ نامی پول میں کام کرنے والے کرس کرٹس نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ جب آپ عوام سے پوچھیں تو نصف لوگوں کو ان کے بارے میں علم نہیں ہے۔

برطانیہ کے سیکریٹری صحت ساجد جاوید بھی وزیرِ اعظم کی دوڑ میں فہرست میں شامل ہیں۔

وہ گزشتہ برس جون سے ملک میں جاری کرونا وبا سے نمٹ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ خزانہ کے امور کے انچارج تھے لیکن بورس جانسن سے اختلاف کے بعد انہوں نے استعفی دے دیا تھا۔

بورس جانسن نے انہیں دوبارہ اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ ساجد جاوید کے والدین پاکستانی ہیں اور وہ اپنے آپ کو عام آدمی کے طور پر متعارف کراتے ہیں جنہوں نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔

وزیراعظم کی دوڑ میں مائیکل گوو، اور کابینہ کے وزیر جیرمی ہنٹ کا بھی نام لیا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments