شاہد احمد خاں


شاہد احمد خاں ”خاصاحب“ کے نام سے پکارے جاتے۔ عمر یہی کوئی چالیس پینتالیس کے لگ بھگ ہوگی۔ دراز قد۔ خوب گورا رنگ۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ کھچڑی بال۔ پاٹ دار آواز۔ کھڑی زبان اور باتوں میں بولی ٹھولی کا دلچسپ انداز۔ استعاروں کا برجستہ استعمال خوب کرتے جو سننے سے تعلق رکھتا تھا دوران گفتگو نہایت ”شستہ“ گالیوں کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے وہ ان مغلظات کو اپنے روہیلکھنڈی اور پٹھان ہونے کی دلیل سمجھتے۔ لیکن میرے سامنے اپنے لہجے اور زبان کو قابو میں رکھتے۔

خانصاحب کے خیال میں صرف ”پٹھان“ ہی ایک معزز قوم ہے باقی تو محض تیلی اور نائی ہی ہیں۔ وہ اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے زیادہ میل جول کے قائل نہ تھے۔ کھانے کے بے حد شوقین اور اسی طرح کھلا کر خوش ہوتے۔ بقول انہی کے ”میاں اگر برا پکا کھانا سامنے آ جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاوے ہیں“ مہمان نوازی میں یکتا۔ دعوت اور خاص موقعوں پر نت نئے اور نوابی کھانے خود بناتے۔ بادام۔ خشک میوہ جات۔ زعفران کے رسیا اور اپنے پکائے ہوئے کھانوں میں ان اجزا کا استعمال بھی خوب کرتے۔

بادامی قورمہ۔ مچھلی کی بریانی۔ ادرک اور گھیگوار کا حلوہ۔ ماش کی دال کے دہی بڑے املی پودینے کی چٹنی ایسی بناتے کہ کھانے والا انگلیاں ہی چاٹتے رہ جائے۔ مکھانے کی زعفرانی کھیر پہلی مرتبہ انہی سے سنی اور کھائی۔ آج بھی ان کے پکائے کھانوں کا ذائقہ زبان پر محسوس ہوتا ہے۔ وہ آم کے دیوانے تھے اور دل بھر کے آم کھانے اور کھلانے کے قائل تھے حالانکہ ذیابیطس کے مریض تھے لیکن یہی کہتے ”میاں آم کے موسم میں اگر آم جی بھر کے نہ کھایا تو اس بیش بہا نعمت کی بد دعا لگ جاتی ہے“ اسی طرح سردیوں میں بڑے اہتمام سے پائے پکاتے اور احباب کو کھلا کر خوش ہوتے۔ طبیعت کے نہایت سادہ لیکن مجال ہے جو کوئی غلط بات کبھی برداشت کر لیں فوراً طیش میں آ جاتے اور پھر ان کی پٹھانی اپنے عروج پر نظر آتی۔

شاید سنہ اسی کے اوائل میں شاہد خاں کو پہلی مرتبہ میرے بھائی اقبال فیصل مرحوم لے کر آئے تھے ان کے ساتھ ایک اور عمر رسیدہ خانصاحب تھے جو شاہد خان کے سسر تھے اور اپنے نئے نویلے داماد ( شاہد خاں ) کی ملازمت کے لیے پریشان تھے۔ میں نے شاہد خاں سے کچھ سوالات کئیے جس پر وہ گڑبڑا گئے۔ اندازہ یہی ہوا کہ انہیں کوئی ہنر یا کام نہیں آتا بس تھوڑی سی ڈرائیونگ کر لیتے تھے اور وہ بھی ٹریکٹر ڈرائیونگ جو وہ اپنے ہی کھیتوں میں بطور شغل کبھی کبھی کر لیا کرتے تھے۔

خانصاحب مراد آباد کی تحصیل سنبھل کے ایک قصبہ سرائے ترین کے رہائشی تھے اور اپنے والد سے ناراض ہو کر پاکستان چلے آئے تھے۔ ناراضگی کی وجہ ان کے والد کی دوسری شادی تھی۔ شاہد خان کو یہ بات ناگوار گزری انہوں نے اپنے حصے کی زمینیں اپنے چھوٹے بھائیوں کے نام کیں اور خود پاکستان اپنے پھوپھا کے پاس پاکستان آ گئے کہ ایک زندگی شروع کریں۔

بہرحال خانصاحب کو میں نے بطور ڈرائیور اپنی کمپنی میں رکھ لیا۔ ان دنوں کمپنی بلوچستان میں سبی کے قریب ڈھاڈر میں سائسمک سروے کر رہی تھی۔ خانصاحب کی پہلی ڈیوٹی ایک گورے کے ساتھ لگی وہ سبی جا رہے تھے کہ سامنے سے آتے ہوئے ایک ٹرک سے گاڑی ٹکرا دی جس کے نتیجے میں شاہد خان کو حوالات جانا پڑا۔ مجھے خبر ہوئی بھاگم بھاگ تھانے پہنچا اور معاملہ رفع دفع کر کے انہیں واپس کیمپ لے آیا۔ خانصاحب کی ڈرائیونگ کی ”مہارت“ مجھ پر ظاہر ہو چکی تھی۔ کسی طرح ان کی نوکری بچائی اور انہیں سروے ٹیم کے ساتھ لگا دیا کہ سڑک پر نہ جانا پڑے اور ان کی ڈرائیونگ میں بھی کچھ نکھار آ جائے۔ تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور کچھ عرصے بعد خانصاحب کی ڈرائیونگ ”بہتر“ ہو گئی اور ساتھ ہی ان کی نوکری بھی پکی ہوئی۔

سردیوں کا موسم تھا کمپنی بلوچستان میں کام کر رہی تھی۔ خانصاحب ایک ہفتے کی چھٹی پر گھر گئے ہوئے تھے واپسی پر میرے پاس آئے اور بڑے ادب سے ایک پیکٹ تھما دیا میں نے ان کے سامنے ہی پیکٹ کھولا تو زعفران کہ مہک سے دل خوش ہو گیا۔ چاندی کے ورق سے سجی اور نہایت سلیقے سے کاٹی گئی قتلیاں۔ میں چنے کی دال کا حلوہ سمجھا۔ بے اختیار ایک ٹکڑا منھ میں رکھ لیا۔ ذائقہ کچھ عجیب سا تھا۔ خانصاحب میری کیفیت سمجھ چکے تھے کہنے لگے ”میاں ادرک کا حلوہ ہے۔ سردی کا دشمن اس چلے کے جاڑے کے لیے اکسیر ہے خاص طور پر آپ کے لیے بنا کر لایا ہوں“ اور ساتھ ہی وارننگ بھی جاری کردی کہ دو ٹکڑوں سے زیادہ ہرگز نہ کھاؤں۔ حلوہ ذائقے میں تو بہت اچھا نہیں تھا لیکن اس کی افادیت سے انکار ممکن نہ تھا۔

میں نے اس برٹش کمپنی کے بعد ایک ملٹی نیشنل آئل ڈرلنگ کمپنی جوائن کرلی۔ خانصاحب کو بھی اس کمپنی میں بحیثیت ڈرائیور لے آیا اب وہ پہلے سے کہیں بہتر ڈرائیونگ کرنے لگے تھے۔ ان کی ڈیوٹی فیلڈ میں ایک رگ پر تھی۔ وہاں بھی خانصاحب کے اپنے رنگ ڈھنگ تھے۔ کیمپ باس اور کچن اسٹاف سے ان کی گہری چھنتی وہ انہیں گر کی باتیں بھی سکھاتے اور اگر کھانا ٹھیک نہ بنے تو اپنی روہیلکھنڈی زبان میں ایسی ایسی سناتے کے بس سنتے رہیں۔ ڈیوٹی سے واپس آنے کے بعد سیدھے کچن میں جاتے اور کھانا دیکھتے اگر ان کی سمجھ میں نہ آتا تو اپنے حصے کا الگ کرلیتے اور پھر اسے اپنے مطابق بنا کر کھاتے۔

ایک دن مجھے رپورٹ ملی کے کچھ ورکرز نے کیمپ باس اور کک کی پٹائی کردی ان افراد میں خانصاحب اور میرے ایک قریبی عزیز بھی شامل تھے۔ رگ انتظامیہ نے میری ہدایت پر ان ورکرز کو میرے آفس میں پیش ہونے کے لیے کراچی بھیج دیا۔ مخھے اطلاع ملی کہ ان سب نے عہد کیا ہوا تھا کہ سب کا بیان ایک ہو گا اور سارا الزام کیمپ باس پر ڈال دیا جائے۔ میں نے علیحدہ علیحدہ ان سے تفتیش کی۔ سب کا رٹا ہوا بیان ایک سا تھا جس کے مطابق وہ سب معصوم اور کیمپ باس قصوروار تھا۔

آخری باری خانصاحب کی تھی میرے آفس میں داخل ہو کر بڑے ادب سے سلام کیا اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے میرے کچھ کہنے سے پہلے بول پڑے ”میاں سب سے جھوٹ بول لیا لیکن آپ سے غلط بیانی نہیں کر سکتا“ اور ساری تفصیل سچ سچ بتائیں کہ کھانے کی کئی مرتبہ شکایت کے باوجود کیمپ باس نے کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ کک نے بھی کوئی توجہ نہیں دی جس کی بنا پر میرے کزن صاحب کی تجویز پر کیمپ باس اور کک کو سبق سکھائے جائے کا فیصلہ ہوا چنانچہ ان سب نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کیمپ باس اور کک کی خوب پٹائی کی یہ بھی طے تھا کہ دو دو ہاتھ سب ماریں گے تاکہ کوئی ایک قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔ ساری رپورٹ اور ثبوت مل جانے کے بعد میں نے ان سب کو نوکری سے برخواست کر دیا۔ کزن صاحب کے نوکری سے نکالے جانے پر مجھے اپنے بزرگوں کی طرف سے سرزنش بھی ہوئی لیکن میں نے قطعاً پرواہ نہ کی اور اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ کچھ دنوں بعد ان سب کو وارننگ دے کر نوکری پر بحال کر دیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ نوکری خانصاحب کے بس کی بات نہیں۔ کوئی ہنر اور کام انہیں آتا نہیں تھا لیکن کھانے پکانے اور کھلانے میں وہ بے مثال تھے ان کی اس صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے انہیں تبت سینٹر کے نزدیک اسپیئر پارٹس مارکیٹ میں کھانے کا ٹھیلا لگوا دیا وہ دس بجے دن کو گھر سے تقریباً پچاس افراد کے لیے لذیذ کھانے بنا کر لاتے کبھی بریانی۔ کبھی قورمہ اور کبھی دال یا سبزی لاتے۔ اسی ٹھیلے پر ایک روٹی بنانے والے کو بھی ملازم رکھ لیا جو گرم گرم چپاتیاں بناتا اور لوگ وہیں بنچوں پر بیٹھ کر لنچ کر لیتے۔

میں بھی اکثر خانصاحب کی ہمت بندھانے کے لیے وہاں چلا جاتا تو خانصاحب کی خوشی دیکھنے والی ہوتی مجھے گرم گرم چپاتیاں اور لذیذ کھانے کھلاتے۔ میں کھانے کے پیسے دینا چاہتا تو ہنس کے فرماتے ”میاں یہ سب آپ ہی کا تو ہے“ یہ کاروبار خوب چل نکلا اور وہ چار بجے فارغ ہو کر میرے آفس آ جاتے اور میں ان کی چٹخارے دار باتوں سے محظوظ ہوتا۔

ایک بار عید سے چند روز قبل میری بیگم بیمار ہو گئیں۔ خانصاحب عیادت کے لیے آئے جاتے وقت کہ گئے ”میاں بھابھی صاحب ( وہ یہی کہتے تھے ) کی طبیعت ناساز ہے انہیں بالکل تکلیف نہ دیجئے گا میں عید کی مناسبت سے کچھ لیتا آؤں گا“ عید کی نماز پڑھ کر میں گھر لوٹا تو خانصاحب اپنے بیٹے کے ہمراہ موجود تھے وہ لذیذ فش بریانی۔ کباب۔ اور ماش کی دال کے دہی بڑے۔ کئی قسم کی چٹنی اس کے علاوہ سویوں کا مزعفر اور زعفرانی شاہی ٹکڑے گھر سے بنا کر لاتے تھے اور اتنی وافر مقدار میں کہ عید پر آئے سب ہی مہمانوں نے سیر ہو کر کھایا اور ذائقے کی داد دی۔

انہی دنوں والدہ مرحومہ نے ہندوستان جانے کی خواہش کی جو ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ زندگی میں ایک بار اپنے پرکھوں کی قبر پر فاتحہ پڑھ آئیں اور اپنی جنم بھومی کی بھی زیارت کر لیں۔ اتفاقا میرے ماموں جان کا بھی ہندوستان جانے کا پروگرام بن گیا میں نے موقع غنیمت جانا اور اماں کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ چند ہی روز بعد اماں کا پیغام ملا کہ وہ بذریعہ ٹرین آ تو گئیں لیکن اس سفر میں انہیں خاصی تکلیف ہوئی اور فرمایا کہ میں آ کر انہیں جہاز سے واپس لے جاؤں۔

اماں کے حکم کی تعمیل کے لیے میں نے بھارت کا ویزا اپنائی کر دیا جو دوسرے دن مل بھی گیا۔ میں نے سفر کی تیاری شروع کردی۔ خانصاحب کو بتایا تو خوشی سے ان کی باچھیں کھل گئیں کہنے لگے ہم آپ سے پہلے ہندوستان پہنچ جائیں گے اور آپ کو سرائے ترین لے جائیں گے۔ وہ اپنی اس خواہش کا پہلے بھی اظہار کرچکے تھے کہ کسی طرح مجھے ہندوستان کی یاترا پر لے جائیں اور اپنا مہمان بنائیں لیکن میں ہنس کر ٹال دیا کرتا تھا۔

چند روز بعد میں براستہ دلی لکھنؤ پہنچ گیا۔ مرحوم خالہ زاد بھائی ڈاکٹر یونس نگرامی اور ان کے اہل خانہ نے اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اماں اپنے آبائی وطن پرتاب گڑھ جا چکی ہیں۔ کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد مرحوم بھائی صاحب نے بتایا کہ کوئی شاہد احمد خاں آئے تھے اور میری آمد کے متعلق پوچھ رہے تھے وہ فون نمبر بھی دے گئے ہیں کہ جب میں آؤں تو انہیں فون کرلوں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ خانصاحب واقعی میری خاطر یہاں تک پہنچ گئے۔

دوسرے دن میں نے فون کیا تو معلوم ہوا وہ میری تلاش میں لکھنؤ آئے تھے اور وہیں کسی عزیز کے گھر ہیں۔ شام کو خانصاحب آئے اور مجھے ساتھ لے جانے پر بضد تھے۔ میں نے درخواست کی کہ وہ واپس چلے جائیں میں اماں کے سفری کاغذات بنوا کر سنبھل ( سرائے ترین ) پہنچ جاؤں گا۔ انہوں نے میری بات مان تو لی لیکن شاید وہ اسے محض طفل تسلی سمجھے اور مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔

ادھر میں نے اماں کی واپسی بذریعہ ہوائی جہاز کا اجازت نامہ حاصل کر لیا جو یونس بھائی کے تعلقات کی وجہ سے ممکن ہوا۔

خانصاحب جاتے وقت بتا گئے تھے کہ سرائے ترین کیسے پہنچا جائے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس صرف دہلی۔ لکھنؤ اور پرتاب گڑھ کے سفر کی اجازت تھی اور سنبھل جانے کے لیے پہلے مراد آباد جانا پڑتا جس کی میرے پاس اجازت نہ تھی۔ یونس بھائی کو میں اس غیر قانونی سفر کا بتانا نہیں چاہ رہا تھا لیکن خانصاحب سے کیا وعدہ اور ان کا محض میرے لیے یہاں تک آنا بھی اہم تھا چنانچہ یونس بھائی سے بہانہ کیا کہ دو دن کے لیے اپنی کمپنی کے انڈین ایجنٹ مہندرا اینڈ مہندرا سے میٹنگ کے لیے دلی جانا ضروری ہے تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور میں اسی رات دس بجے کی ٹرین سے مراد آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔

صبح پانچ بجے دھڑکتے دل کے ساتھ مراد آباد جنکشن پر اترا۔ تقسیم سے پہلے اس شہر میں والد مرحوم کئی سال رہے اور وہاں کی باتیں کیا کرتے تھے۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور قریبی بس اسٹینڈ پہنچا۔ سردی سخت تھی سنبھل جانے والی بس آدھے گھنٹے بعد تھی قریبی ڈھابے پر گرم گرم چائے اور ابلے ہوئے انڈے کھانے سے کچھ گرمی محسوس کی اتنی دیر میں سنبھل جانے والی بس بھی آ گئی۔ بس تقریباً خالی تھی میں کونے کی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا اور بس روانہ ہوئی تھوڑی دیر بعد ہم سنبھل پہنچ گئے۔

شہر دھند میں لپٹا ہوا تھا ایک ٹیکسی نظر آئی۔ ڈرائیور سردی کی وجہ سے چادر منڈھے اونگھ رہا تھا میں نے سرائے ترین چلنے کو کہا تو کچھ اضافی کرائے پر راضی ہو گیا۔ سرائے ترین پہنچ کر ایک راہگیر سے خانصاحب کے کزن ندیم ترین کی رہائش پوچھی تو اس نے رہنمائی کی اور میں بآسانی ان کے گھر پہنچ گیا۔ دروازے پر لگی گھنٹی بجائی کچھ دیر بعد ایک ملازم نے دروازہ کھولا میں نے شاہد خاں کا نام لیا تو بھاگم بھاگ اندر گیا اور خانصاحب کے ساتھ نمودار ہوا۔

خانصاحب کی حالت قابل دید تھی انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں حسب وعدہ پہنچ گیا ہوں۔ فوراً مجھے اندر لے گئے۔ گھر مالکان کی خوش حالی اور خوش ذوقی کا اعلی نمونہ تھا جس میں ضرورت اور آسائش کی چیز موجود تھی جو میری توقع کے برعکس تھی۔ خانصاحب نے گرما گرم چائے کے ساتھ کچھ لوازمات سے تواضع کی جس کے بعد مجھے آرام کے لیے ایک کشادہ بیڈ روم میں بھیج دیا۔ میں رات بھر کا تھکا ہوا تھا فوراً سو گیا دس بجے قریب جاگا تو خانصاحب مع چند احباب میرے منتظر تھے مجھے ناشتے کی میز پر لے گئے۔

نعمتیں اتنی تھیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کہاں سے شروع کروں۔ کئی قسم کے انڈے۔ پراٹھے۔ روغنی ٹکیاں۔ قلچے۔ نہاری اور بے شمار نعمتیں۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد خانصاحب اپنے مصاحبوں اور کزنز کے ساتھ مجھے اپنی آبائی زمینوں پر لے گئے ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا اور ان کی وہ تمام باتیں یاد آتی رہیں جو وہ سائٹ پر اپنے دوستوں اور اکثر مجھ سے بھی کیا کرتے تھے۔

دوپہر کا کھانے کا انتظام آم کے باغ میں بنے فارم ہاؤس پر کیا گیا۔ ایک بار پھر میں اتنی نعمتیں دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ ہرن کے گوشت کے کباب۔ نیل گائے کا روسٹ۔ تیتر بٹیر کا پلاؤ۔ اور قسم قسم کے میٹھے۔ کھانے کے دوران خانصاحب نے بتایا کہ میرے ہندوستان آنے کے بعد وہ شکار کر کے نیل گائے۔ تیتر اور بٹیر کا گوشت اسٹاک کرتے رہے اور مچھلی بھی خود انہی کی شکار کی ہوئی تھی۔ میں لذیذ کھانے کھاتا رہا اور خانصاحب کے کہے جملے میرے کانوں میں گونجتے رہے جب وہ کیمپ میں اپنے ساتھیوں کو ٹھیٹ روہیلکھنڈی لہجے میں کہتے ”میاں ہم تو پھڑکتی ہوئی مچھلی کھاویں“ یا کبھی بڑے زعم سے کہتے ”ابے ہم تو زمینوں پر ٹریکٹر چلاتے وقت بھی بندوق اپنے کنے رکھتے تھے جہاں کہیں نیلا ( نیل گائے ) یا ہرن نظر آیا وہیں بریک“ داب ”دیتے اور شکار گرا دیتے“ لڑکے ان کی باتوں پر خوب ہنستے اور ریکارڈ بھی لگاتے۔

کسی نے گرہ لگائی خانصاحب شیر کا قورمہ کھاتے ہیں۔ زچ آ کر خانصاحب ایسی فرمائشی گالیاں سناتے کہ رہے نام اللہ کا ۔ کبھی نہایت دکھ بھرے لہجے میں کہتے ”میاں اللہ گھوڑے کے سوار کو گھوڑے ہی پر رکھے“ آج یہ سب میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور ان کی کہی باتیں سچ نظر آ رہی تھیں۔ واقعی اللہ گھوڑے کے سوار کو گھوڑے ہی پر رکھے۔

رات کا کھانا خانصاحب کے ماموں زاد بھی ندیم ترین کے گھر تھا۔ شام ڈھلتے ہی ہمیں وہاں لے جایا گیا۔ ایک کشادہ ڈرائنگ روم میں مجھے صدر کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ اس چھوٹی سی بستی میں ایسی شاندار کوٹھی اور اس قدر سجی سجائی بیٹھک کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔ میزبان ندیم ترین بچھے جا رہے تھے۔ معلوم ہوا وہ علیگڑھ کے سند یافتہ انجینئر ہیں۔ ندیم سرائے ترین کے متمول شخص تھے جن کی ملکیت میں باغات اور زرعی زمینیں تھیں اس کے علاوہ ندیم صاحب سعودی عرب میں ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کے بھی مالک تھے۔

مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا علاقے کے معززین جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے مجھ سے آ کر انتہائی عقیدت سے ملتے۔ مسلمان سلام کر کے ہاتھ ملاتے اور جاکر اپنی جگہ بیٹھ جاتے اور ہندو مہمان جھک کر ”پائے لاگو بھیا“ کہتے۔ کھانے کا انتظام باہر کیا گیا تھا ایک بار پھر بے شمار نعمتیں افراط کے ساتھ ہماری منتظر تھیں۔ ہندو مہمانوں کے لیے الگ میز پر شاکاہاری ( ویجیٹیبل ) کھانے چنے ہوئے تھے۔

کھانے کے بعد کافی کا دور چلا خانصاحب میرے قریب سے گزرے تو میں نے انہیں بلا لیا اور سرگوشی میں کہا ”خانصاحب میرے پاس یہاں کا ویزا نہیں ہے آپ نے اتنے لوگ بلائیے کہیں کوئی مخبری نہ کردے۔ خانصاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور پاٹ دار آواز میں جواب دیا“ میاں کس۔ میں جرات ہے کہ ہمارے مہمان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ رات گئے محفل ختم ہوئی تو تحائف کا سلسلہ شروع ہوا۔ خانصاحب کے والد نے بڑی شفقت سے مجھے تحفے دیے اور بہت سی دعائیں دے کر کہنے لگے ”شاہد میاں کی زبان پر تو اٹھتے بیٹھتے آپ ہی کا نام رہتا ہے۔ آپ نے پردیس میں میرے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا میں آپ کا ممنون ہوں“ اس سے پہلے میں جواب دیتا انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔

رات دیر تک ہم سب باتیں کرتے رہے۔ صبح کی ٹرین سے واپسی تھی میں سونے چلا گیا۔ دوسرے دن ناشتے کے بعد ایک قافلے کی صورت مجھے مراد آباد اسٹیشن لے جایا گیا۔ خانصاحب کا ایک کارندہ پہلے سے اسٹیشن پر موجود تھا اس سے پہلے کہ میں ٹکٹ گھر کا رخ کرتا خانصاحب نے اے سی سی کلاس کا ٹکٹ مجھے پکڑا دیا گیا۔ آرام دہ کوچ میں پہلے سے دو مسافر موجود تھے جو مہذب اور تعلیم یافتہ لگ رہے تھے ان کی منزل بھی لکھنؤ ہی تھی۔ گفتگو کا سلسلہ طل نکلا۔

میں نے اپنی شناخت چھپانے کے کوشش بھی کی لیکن وہ سمجھ گئے کہ میں پاکستانی ہوں یہ جان کر وہ بہت خوش ہوئے۔ دونوں ملکوں کی سیاست کے علاوہ شعر و ادب پر بھی خوب باتیں ہوئیں۔ سفر اچھا گزرا اور ہم سہ پہر کے وقت لکھنؤ کے چار باغ ریلوے اسٹیشن پر اتر گئے۔ گھر میں کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ ہم دلی نہیں بلکہ سنبھل سے ہو آئے۔

دوسرے دن میں پرتاب گڑھ روانہ ہوا۔ وہاں دو دن قیام کے بعد اماں کو لے کر لکھنؤ واپس آیا اور پھر پی آئی اے کی پرواز سے براستہ دلی کراچی پہنچ گیا۔

کراچی پہنچ کر میں اپنی مصروفیات میں کھو گیا۔ ایک دن خانصاحب خلاف توقع دوپہر کے وقت آفس آ گئے اور خبر دی کہ ان کے کزن ندیم ترین نے ویزا اور ٹکٹ بھیجا ہے اور چند روز میں خانصاحب سعودی عرب روانہ ہو گئے۔

کچھ عرصے بعد مجھے سعودی عرب کے شہر الخبر بھیج دیا گیا جہاں کمپنی آرامکو کے لیے سمندر میں ڈرلنگ کر رہی تھی۔ میں کئی سال سعودی عرب میں رہا۔ اس دوران خانصاحب سے فون پر اکثر بات ہوتی رہتی تھی وہ تبوک کے پاس کسی کنسٹرکشن پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ کمپنی کے زیادہ تر ملازمین سرائے ترین ہی سے تھے اور ندیم صاحب کی ہی برادری کے تھے۔ کیمپ میں بھی خانصاحب کے وہی ٹھاٹ باٹ تھے۔ کیمپ ہی میں روزمرہ استعمال کی سبزیاں اگا لیں۔ وہ اپنا کھانا خود پکاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔

میرے سعودی عرب قیام کے دوران خانصاحب کئی بار تبوک سے مجھے ملنے الخبر بھی آئے۔ یہ ایک طویل سفر تھا لیکن خانصاحب کی محبت بے مثال تھی۔ جب بھی آتے ان کی ڈبل کیبن میں کھانے پکانے سے متعلق ہر چیز ان کے ساتھ ہوتی۔ آنے سے پہلے فون کر کے بتا دیتے ”میاں چند دن کے لیے آریا ہوں اپنے دوستوں کی دعوت کرنا تو ان دنوں کر لیں“ میں اس موقع کو غنیمت سمجھتا اور دوستوں کو اکٹھا کر لیتا۔ خانصاحب مزے مزے کے کھانے تیار کرتے۔ مچھلی کی بریانی۔ ماش کی بادامی دال۔ مکھانے کی زعفرانی کھیر اور پودینہ املی کی چٹنی آج بھی سعودی عرب کے دوست یاد کرتے ہیں۔

میں سنہ دو ہزار دس قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر سعودی عرب سے واپس آ گیا۔ ایک روز خانصاحب کے کسی عزیز نے فون پر روح فرسا خبر سنائی کہ شاہد بھائی دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ اپنے چند احباب کے ساتھ تبوک سے روضہ رسول کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ جا رہے تھے ان کی گاڑی شاید تیز رفتاری کی وجہ سے ایک حادثے کا شکار ہو گئی۔ گاڑی میں سوار تمام افراد جاں بحق ہوئے۔ انا للہ و آنا الیہ راجعون۔

ان کی موت کی خبر بجلی بن کر گری اور مجھ سمیت ان کے ہر چاہنے والے کو اداس کر گئی۔ خانصاحب کے ساتھ ہی ایک تہذیب۔ شرافت اور روایتی بولی ٹھولی کا بھی خاتمہ ہوا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ کہیں اس بار خانصاحب نے گاڑی کے بریک دابنے کے بجائے اکسیلیٹر زیادہ نہ ”داب“ دیا ہو جو حادثے کا سبب بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments