امریکا میں سنہ 2021 میں ماحول دشمن گیسوں کا اخراج توقع سے زیادہ رہا


ماحولیات کے حوالے سے بری خبریں آنے کا سلسلہ تھم ہی نہیں رہا ہے۔ اب تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ سال 2021 ء کے دوران امریکا میں ماحول دشمن گیسوں کا اخراج، جو وبا کے پہلے سال یعنی 2020 میں کم پڑ گیا تھا، اب دوبارہ پہلے جیسی سطح پر آ گیا ہے جبکہ امریکی معیشت وبا سے پہلے کی سطح تک نہیں پہنچی ہے۔ یہ دعویٰ ایک غیر سرکاری ادارے ”رودھم گروپ“ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے کیا ہے۔

ویسے تو توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین توقع رکھ رہے تھے کہ سال 2021 میں ہمارے سیارے کو گرم کرنے اور ماحولیات کو خراب کرنے والی خطرناک گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو گا۔ لیکن یہ اضافہ اتنی تیزی سے ہوا ہے کہ جو خود ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ یہ کہنا ہے رودھم گروپ کی شریک کار اور اس تحقیق کی شریک مصنفہ کیٹ لارسن کا۔

”معیشت کے وبا سے پہلے جیسی حالت میں پہنچ جانے سے پہلے ہی مضر صحت گیسوں کا اخراج وبا سے پہلے کی سطح تک پہنچ گیا ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ کوئلے سے حاصل شدہ ذرائع توانائی کا ہے۔“ لارسن نے سی این این کو بتایا کہ ”اس کی بڑی وجہ کاربن ذرائع پر ا انحصار سے گریز کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں فقدان کا ہے۔“

رودھم گروپ کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق معیشت کے حوالے سے مضر صحت گیسوں کا اخراج سال 2020 کی نسبت چھ اشاریہ دو فیصد بڑھ گیا ہے ۔ سال 2020 میں کرونا پابندیوں کی وجہ سے مضر صحت گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی آئی تھی۔ البتہ یہ سال 2019 ء کی نسبت اب بھی پانچ فیصد کم ہے۔

رودھم گروپ کی تحقیق کے مطابق کوئلے سے ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کا سب سے زیادہ ہاتھ رہا۔ سال 2021 میں بجلی کے حصول کے لیے کوئلے کے استعمال میں سترہ فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ سال 2014 ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ امریکہ میں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کے استعمال میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا۔ لارسن نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ دنیا بھر میں قدرتی گیس قیمتوں میں آنے والا بے تحاشا اضافہ ہے۔ چنانچہ یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں اسی دوران قدرتی گیس کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں تین فیصد تک کمی آئی۔ لارسن کا کہنا ہے کہ ”وفاقی حکومت کی طرف سے قانون و ضوابط کی تیاری میں ناکامی کی وجہ سے اس صورتحال کو توانائی کی منڈی کی حرکیات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔“

”اس سال کوئلے کے استعمال میں زیادہ اضافے کی وجہ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور وفاقی حکومت کی سطح پر کوئلے کے استعمال میں اضافے پر کسی قسم کی پابندی کے اطلاق کا عائد نہ ہونا ہے۔“ کیٹ لارسن نے وضاحت کی۔

یہ خبر صدر بائیڈن کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سنہ 2030 ء تک امریکا میں مضر صحت گیسوں کا اخراج سنہ 2005 کی نسبت سے آدھا کر دیں گے۔ ماحولیاتی اور توانائی کے امور کے ماہرین جن میں کیٹ لارسن بھی شامل ہیں، کا خیال ہے کہ اس حوالے سے تبدیلی اسی وقت آئے گی جب ریاستی حکمت عملی میں تبدیلی آئے گی۔

ماہرین اس حوالے سے سال 2020 کو ایک الگ کھاتے میں شمار کرتے ہیں جس میں کرونا کی وبا نے مہینوں تک معیشت کا پہیہ روکے رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے مضر صحت گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی آئی۔ گو کہ لارسن اور دیگر ماہرین مستقبل میں معیشت کا پہیہ جام کرنے کا نہیں کہہ رہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر بائیڈن مضر صحت گیسوں کے اخراج میں کمی کے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مضر صحت گیسوں میں کمی کے حوالے سے سال 2020 جیسے کئی سالوں کی ضرورت ہوگی۔

”ہمیں معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ مضر صحت گیسوں میں کمی کے لیے سال 2020 جیسی کمی لانا ہو گی۔ ہمیں ہر صورت اگلے سالوں میں ماحول کو تباہ کرنے والی گیسوں کے اخراج میں کمی کرنا ہوگی۔“

ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دیواشری سہا جو کہ روتھم گروپ کی تحقیق میں شامل نہیں تھے، نے سی این این کو بتایا کہ اس تحقیق کے نتائج کوئی حیران کن نہیں ہیں۔ ان کا بھی یہی موقف ہے کہ اس معاملے میں بہتری اسی وقت آئے گی جب حکومت اس حوالے سے پہل کرے گی۔ ”اگر وفاقی اور ریاسطی سطح پر کوئی قانون سازی نہ کی گئی اور پرنالانہ یوں ہی بہتا رہا تو سال 2030 تک مضر گیسوں کے اخراج میں سال 2005 کی نسبت اکتیس فیصد تک ہی کمی ممکن ہو پائے گی جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منہ زور دھارے کے آگے بند کا کام نہیں دے سکے گی۔

“ سہا نے خبردار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف حکومتی سطح پر قانون سازی ہی کے ذریعے ماحول کو تباہ کرنے والی گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جا سکے گی۔ مثال کے طور پر اگر صدر بائیڈن کے ”بلڈ بیک بیٹر منصوبے“ اور اس کے ساتھ پانچ سو پچپن ارب ڈالر کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے منصوبے کی منظوری دے دی جائے تو سنہ 2030 تک مضر گیسوں کے اخراج میں تینتالیس فیصد تک کمی لائی جا سکے گی۔

لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ کانگریس میں منظور ہونے سے رکا ہوا ہے۔ اس کی منظوری کے حوالے سے صدر بائیڈن کو اپنی ہی ”بکل وچ چور“ کے مصداق مغربی ورجینیا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جو منچن کے اعتراضات کا سامنا ہے۔ جو منچن کی ریاست کوئلہ پیدا کرنے والی ہے اور سینیٹر منچن اسی حوالے سے کوئلہ پیدا اور استعمال کرنے والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پہلے ہی سینیٹر منچن کے اعتراض کی وجہ سے مضر گیسوں سے مکمل پاک صاف ستھری بجلی بنانے کے ایک منصوبے اور قدرتی گیس نکالنے والے اداروں پر گیس کی لیک کے حوالے سے جرمانہ عائد کرنے کے قانون کو اس مسودے سے ہٹوا چکے ہیں۔

اور صدر بائیڈن کی مجبوری ہے کہ وہ سینیٹر منچن کے بغیر یہ مسودہ منظور نہیں کرا سکتے کیونکہ سینٹ میں دونوں جماعتوں کے اراکین کی تعداد پچاس پچاس ہے اور آخر میں نائب صدر کمالا ہیرس کے ووٹ سے ٹائی بریک ہوتا ہے۔ دوسری طرف ری پبلکن اراکین پوری طرح سابقہ صدر ٹرمپ کی مٹھی میں ہیں اور سوائے معمول کی قانون سازی کے، بقیہ کسی معاملے پر صدر بائیڈن سے تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments