فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ: سردیوں میں موسم گرما کے برابر بجلی کا بل


پہلی بار بجلی کے بل نے حیران اور پریشان کیا۔ اگرچہ یہ واردات پچھلے مہینے بھی ڈالی گئی تھی۔ ہلکا سا ماتھا بھی ٹھنکا تھا ، نصرت جاوید صاحب کی تنبیہ بھی یاد آئی جو وہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں مگر جاتے ہوئے موسمِ گرما کے اثرات سمجھ کر زیادہ تردّد محسوس نہ کیا۔ لیکن اس مرتبہ معاملہ پہلے سے بھی دوچند ہو گیا حالانکہ یہ خالص موسمِ سرما کا بل تھا۔ بہت جھنجلاہٹ ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا بچوں نے کہا بابا ! شاید پچھلے مہینے آپ نے بل جمع نہیں کروایا۔چیک کیا مگر بل جمع تھا۔ یونٹ بھی کچھ زیادہ نہیں تھے۔ماجرا کیا ہے ؟
اب ماجرا سننے سے پہلے کہانی ذرا پیچھے سے سن لیجئیے۔زندگی کا بیشتر حصہ سرکاری رہائش گاہوں یا رہائش بذمہ کمپنی کے تحت گذارنے کی وجہ سے انور مسعود کا وہ مشہورِ زمانہ قطعہ ” بل اس قدر ملے کہ میں بلبلا گیا ” صرف زبان و بیان کی خوبصورتی کی حد تک ذوقِ سماعت کو خوشگوار تھا عملی تجربات سے گذر کر عرفانِ حقیقی کا موقع میسر نہ آیا تھا۔ البتہ بل کی بلبلاہٹ کا شکار لوگوں کی حالتِ زار پر رحم اور اپنی عافیت پر طمانیت کا احساس ضرور ہوتا تھا۔
دو ڈھائی برس قبل ذاتی مکان میں گذر بسر کا آغاز کیا تو عملی تجربے شروع ہوئے۔ گیس اور بجلی کے دو چار جھٹکے لگے تو پہلے سے سمجھی ہوئی بات باقاعدہ سمجھ میں آ گئی کہ کیسے یونٹ بڑھنے سے ریٹ بڑھتا ہے۔حیرانی مگر ہرگز نہ ہوئی الٹا خود کو ہی کوسا اور آئندہ کے لیے احتیاط کو وتیرہ بنا لیا۔ میٹر پر نظر رکھی اور اسے ایک خاص حد تک پہنچنے سے پہلے کنٹرول کیا۔ خاص طور پر شام چھ سے رات دس کے دوران استری ، فریزر ، مائیکرو ویو وغیرہ پر سختی سے پابندی لگائی۔ مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ سردیوں میں تھوڑی بہت گیس کی سختی مگر بجلی کا ریلیف ، اسی طرح گرمیوں میں بجلی کا بل زیادہ مگر گیس کا اتنا ہی کم ، نو پرابلم۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ پاکستان ہی کیا جس میں آپ زیادہ عرصہ خوش رہ سکیں۔اس مہینے سردیوں میں بھی یونٹ کم ہونے کے باوجود گرمیوں جتنا بل آیا تو حیران ہونا تو بنتا تھا۔ اب ذرا بل کے مندرجات پر غور کرنے کا کشٹ گوارا کیا تو ایک  مہر دکھائی دی۔ نصرت صاحب کی بات یاد آئی ” فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ “۔  اس مد میں جو رقم کاٹی گئی تھی وہ بل کی اصل رقم کے اسّی فیصد کے برابر تھی۔ خیر بل تو چاروناچار جمع کروا دیا مگر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی حقیقت جاننے کا فیصلہ کیا۔ تھوڑا بہت گوگل کیا مگر اصل بات کا پتہ نہ چل سکا۔ اس دوران اتفاقاً میٹر ریڈر سے ملاقات ہو گئی جو 16 تاریخ کو کی جانے والی ریڈنگ 20 تاریخ کو کر رہا تھا۔ اس کی توجیہہ اس نے یہ پیش کی کہ ایک دن میں ممکن ہی نہیں ہے کہ پانچ سو میٹروں کی ریڈنگ کی جا سکے۔ اس کے علاوہ مزید کچھ ایسے فلسفیانہ رموز و نکات بیان کیے جو کم از کم ہم جیسے کوڑھ مغز کے سر کے اوپر سے گذر گئے۔ البتہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں اس نے ہماری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ ایک تو یہ بات پتہ چلی کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ہمیں بھی یاد آ گیا کہ بل پر آڑھی ترچھی ، کبھی اونچی نیچی اور کبھی اُلٹی سیدھی لگی ہوئی یہ مہر ہم ایک عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ پہلے اس مد میں کاٹی جانے والی رقم چونکہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لیے کبھی محسوس نہیں ہوا مگر اس مرتبہ یہ رقم اصل بل کے تقریباً برابر جا پہنچی تو اس الجھن کا آغاز ہوا۔ دوسری بات موصوف نے یہ بتائی کہ آپ لوگ تو ہائیڈل بجلی استعمال کرتے ہو اس پر تو ایف پی اے بنتا ہی نہیں اور تیسرا قیمتی مشورہ یہ دیا کہ سب مل کر اپنے اس ایم این اے کے پاس کیوں نہیں جاتے جس نے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ پھر کہنے لگا ایک بولا ہے تو اسے شو کاز مل گیا اب اس نے کیا بولنا ہے۔
گھر آ کر پرانی رسیدوں کا ” لیٹر بکس”  کھولا اور پچھلے دو سالوں کے جمع شدہ بل ترتیب وار سامنے رکھے۔ شروع کے ایک آدھ بل پر ایف پی اے نہیں بھی تھا مگر بعد کے بلوں پر یہ مہر موجود تھی۔مگر ہر مرتبہ تناسب مختلف تھا۔ جب کافی کوشش  کے بعد بھی اس میں کوئی ربط دریافت نہ ہو سکا تو الجھن ختم ہو گئی بات سمجھ میں آ گئی  یعنی جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ حکومت کا ہاتھ اور عوام کی جیب۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ آٹے چینی کے  ستم گزیدہ اور پٹرول بموں کے زخم خوردہ عوام پر ایک اور وار۔ دوسرے لفظوں میں جگا ٹیکس۔
سوال یہ ہے کہ اس صریح زیادتی کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟ ایک تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ ” مملکت ِخداداد” میں ایک واضح لکیر کھنچی ہوئی ہے۔ جس کے ایک طرف مراعات یافتہ طبقات ہیں جن میں سیاستدان ، فوج کے افسر ، مذہب کے ٹھیکیدار ، بیوروکریسی کے کار پرداز اور ان کی ملی بھگت سے  دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی کرنے والے تاجر اور صنعتکار شامل ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہم جیسے وہ بے وقوف ہیں جو دن رات خون پسینہ ایک کر کے ان کے لیے یہ مراعات مہیا کرنے پر جُتے ہوئے ہیں۔۔۔ دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ہمارے سامنے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین تین آپشن موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمت کریں ، حوصلہ پکڑیں اور جیسے تیسے لکیر کی دوسری طرف جا کودیں۔ یہ نہیں ہو سکتا تو پھر جیسا کہ ہارون الرشید صاحب نے کہا ہے قومی سطح پر ایک پریشر گروپ کی تشکیل میں حصہ ڈالیں اور اسے ممکن بنائیں۔ تیسرے آپشن پہ جانا چاہیں تو وہ سب سے آسان ہے۔ آپ کو صرف یہ گنگنانا ہے ” اک ستم اور مری جاں ابھی جاں باقی ہے “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments