نایاب تیندوا ہماری بے حسی کا شکار ہوا


آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے قریب ایک نایاب تیندوا دریا کنارے زخمی حالت میں ملا۔ اہل علاقہ نے وائلڈ لائف کو اطلاع دی اور انہوں نے آ کر تیندوے کو تحویل میں لے لیا۔ اس سے قبل اہل علاقہ نے اس تیندوے کو دم سے پکڑ کر پتھروں پر گھسیٹا جس سے اس تیندوے کی ٹانگیں ناکارہ ہو گئیں اور کھال اتر گئی۔ تیندوے پر فائرنگ بھی ہوئی اور ایک گولی سے اس کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی۔ تیندوے کی جان بچانے کی کوشش کی گئی مگر تیندوا دوران علاج مر گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے عام سی بات ہو مگر اس میں قابل غور وہ انسانی رویہ ہے جو اس جانور سے روا رکھا گیا۔

ایک جنگلی جانور اگر غلطی سی اشرف المخلوق کی بستی کی طرف آ بھی گیا تھا تو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر واپس بھاگ رہا تھا کہ اس پر فائرنگ کی گئی۔ اس کو پتھروں پر گھسیٹا گیا بالکل یہی رویہ ہم نے انسانوں کے ساتھ بھی روا رکھا ہے۔ ماڈل ٹاؤن ہو ساہیوال ہو یا پھر سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل ہو اسی چیتے کی طرح دن دیہاڑے فائر کر کے اور تشدد سے جیتے جاگتے انسانوں کو مار دیا گیا۔ حالانکہ ہماری دینی تعلیمات میں شامل ہے کہ ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مگر ہم نسیان کے مرض میں مبتلا کب یاد رکھتے ہیں۔

ایک ایسی عجیب و غریب قوم جو انسانوں اور جانوروں سے ایک جیسا رویہ رکھتی ہے ایک جیسا سلوک کرتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں انسان اور جانور کو مارنے کے طریقے میں فرق ہی نہیں ہے۔ بس جو انسان ہمیں پسند نہیں ہے یا ہمارے مفادات کی راہ میں حائل ہے اس کو جانور کی طرح مار دینا اپنا اولین مقدس فریضہ سمجھتے ہیں اور جس جانور کو ہم کھا نہیں سکتے اس کو بیچ سڑک انسانوں کی طرح مار دینے کی ہماری روایت بہت پرانی ہے۔ ہم تو اتنے بے حس ہیں کہ معصوم زینب کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر جان سے مار دیتے ہیں۔ اے پی ایس کے بچوں کی خون کی ہولی کھیلتے ہیں

شعوری طور پر کیے گئے اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے ہر سال عمرہ اور حج کی ادائیگی کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے گردوپیش رہنے والوں کی کسمپرسی سے بے خبری کی معافی نہیں ملے گی۔ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ہمسایہ دو وقت کی روٹی نا ملنے پر بھوک سے مر جائے اور ہمیں کھانا ہضم بھی ہو جائے اور سکون کی نیند بھی آ جائے۔ وسیع و عریض دسترخوان کو ہذا من فضل ربی کہنے والوں سے سوال تو بنتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے دوسرے کیوں محروم ہیں۔ کوئی انسان دو وقت کی روٹی کو کیوں ترس رہا ہے۔ کیوں تن ڈھانپنے کو پریشاں ہے۔

ایسے حالات میں سوال تو ہر دل میں پیدا ہو گا کہ کیا یہ میرے کریم رب کی تقسیم ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا انسان کو اس حالت میں کیسے دیکھ سکتا ہے۔ کیا یہ امارت اور غربت مقدر کا لکھا ہے اور اٹل ہے۔ یا پھر یہ انسانوں کی تقسیم ہے۔ وسائل اور دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز کوئی خدائی حکم نہیں بلکہ یہ انسانوں کی اپنی بندر بانٹ ہے۔ ضرورت مند کو کلہاڑی میں دستہ لگا کر روزگار کمانے کی ترغیب دینے والی کائنات کی عظیم ترین ہستی کے پیروکار ہو کر بھی ہم لنگر خانے کھول کر من و سلویٰ کھلانے کے دعویدار ہیں۔

خلیفہ کا رات کو آٹے کی بوری کندھے پر رکھ کر غریب کے گھر خاموشی سے پہنچانے کے واقعہ کو بطور دلیل پیش کرنے والوں نرم دل حکمرانوں کو احساس کفالت کارڈ کے ذریعے بھرے بازاروں میں لائن میں لگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ گویا اگر انسانوں کے قاتل نہیں ہیں تو انسان کی عزت نفس کے قاتل ضرور ہیں۔ غیر محسوس طریقے سے قوم کو بھکاری بنا دیا گیا ہے سیاسی اشرافیہ ملک کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ یہاں پر بسنے والے انسان ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

دین کی بنیادی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے گناہ و ثواب کے اپنے معیار مقرر کر لیے ہیں۔ اخلاقیات کے پیمانے اپنے ہیں اور بات صرف وہی درست ہے جو ہمارے منہ سے نکلے۔ نتیجہ یہ کہ نا تو اچھے انسان بن سکے اور نا ہی اچھے مسلمان کہلائے جانے کے حقدار ہیں۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی ہمارے روزمرہ کے معمولات ہیں۔ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور دھوکہ دینا اب اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس عہد جدید کا ایک آرٹ ہے۔ دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنے تار تار دامن کی نا خبر ہے نا کچھ ہوش ہے۔

اگر ہمیں انسانوں میں شمار ہونا ہے تو رویے بھی انسانوں والے اپنانے ہوں گے۔ اپنے گناہ و ثواب کے تصورات کو درست کرنا ہو گا۔ انسان کو اہمیت دینی ہوگی۔ سماجی شعور کو پروان چڑھانا ہو گا۔ دوسروں کے نہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہو گا اس کی نئے سرے سے تشریح کرنی ہوگی اور وضاحت کے ساتھ سمجھانا ہو گا۔ نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ دوسروں کی اصلاح سے قبل ابتدا خود سے کرنی ہوگی۔

اگر ایسا نا کیا تو حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لہجے سخت اور رویے کھردرے ہوتے جائیں گے۔ بے حسی کا یہی عالم رہا تو تیندوے کا مرنا تو عام سی بات ہے ہماری سردمہری اور بے حسی کی ٹھنڈک سے لوگ مرنا شروع ہوجائیں گے اور یہ اموات مری کی برفباری میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ اور بھیانک ہوں گی۔ قصہ مختصر یہ کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم سب حقیقت میں مری والے ہی ہیں بس ذرا برف پڑنے کی دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments