ملک نور ربانی کھر


ملک نور ربانی کھر صاحب اپنے حصے کا کردار ادا کر کے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور لاہور کے اک نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔

مرحوم کی اولاد میں سے سابق وزیر خارجہ موجودہ ایم این اے حنا ربانی کھر اور ایم این اے رضا ربانی کھر نے مرحوم کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا جسد خاکی آبائی علاقے لائے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

مرحوم کھر خاندان کی سیاست میں اک منفرد کردار تھے۔ ان کی سادہ لوحی کے قصے مشہور ہوئے۔ کبھی ان کی بھول جانے کی عادت پہ لطیفے بنائے گئے۔ ان کے ان پڑھ ہونے پہ بھی لاکھوں باتیں ہوئیں۔ جاگیردار تھے لیکن روایتی جاگیرداروں کی طرح نہ تو ظالم تھے اور نہ ہی قابض۔ کھر خاندان میں شاید سب سے بڑی جاگیر انہی کے پاس تھی۔ ہمارے علاقے میں زراعت کی جدید شکل کو سب سے پہلے یہی اپناتے تھے۔ پنجاب کے چوہدریوں کی طرح ان کے ڈیرے پہ بھی روزانہ کی بنیاد پہ لنگر کا انتظام ہوتا ہے۔

پلرز کی سیاست کرتے تھے جوڑ توڑ کے ماہر۔ چاہے ان کو جتنا بھی بھولا بادشاہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا مگر یہ اک حقیقت ہے کہ دہائیاں گزر گئیں مگر انہوں نے اپنی جیت کی روش برقرار رکھی پھر چاہے حکومت ہو یا اپوزیشن۔ مقامی سیاست پہ ان کی پکڑ دیکھ کر باقاعدہ حیرانی ہوتی تھی ہر الیکشن میں بڑے نام والے دھڑے ان سے الگ ہو جاتے اور لگتا کہ اس بار یہ سیٹ ہار جائیں گے مگر ان کا مقامی سیاست پہ تجزیہ اور تیاری اس قسم کی ہوتی کہ آخر میں جیت انہی کو ملتی۔

ہمارے علاقے میں سیاست چلتی ہے تھانہ کچہری پہ۔ ناجائز قبضوں اور ناجائز مقدمات پہ۔ اتنے برسوں میں سوائے اک دو معاملات میں کہ ان ناجائز پرچوں کے پیچھے ربانی کھر ہیں کے الزامات کے اور کچھ نہیں ملتا۔ ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے مانتے ہیں کہ وہ ناجائز مقدمات پہ یقین نہیں رکھتے تھے۔

اک اور بات یہ کارکن نواز آدمی تھے۔ ہمارا گورمانی قبیلہ قومی عصبیت میں گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا ہے چاہے ہمارے گورمانی چیف کام کریں نہ کریں مگر گورمانی قوم کسی اور قوم کے فرد کو ووٹ نہیں دیتی۔ جو چند گورمانی ربانی کھر کے ساتھ رہے پاور میں آ کر انہوں نے انہیں خوب نوازا۔ میرے اپنے حلقہ احباب میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی زندگیاں بنانے میں ربانی کھر کی وفا شناسی کا عمل دخل ہے۔ پاور میں آ کر انہوں نے انہیں ان کی تعلیم کے مطابق نوکریاں فراہم کیں۔

مشرف دور میں جب میں طالب علم تھا تب ان سے اک ملاقات رہی تھی میں اکیلا لڑکا بغیر کسی بڑے فرد کے ان سے ملنے جا پہنچا تھا۔ مجھے مظفرگڑھ کے اک محکمے میں کام تھا انہوں نے میری بات سنی اور پوچھا کس کے ساتھ آئے ہو کہا اکیلا ہوں قوم پوچھی اس کے بعد نہ بزرگوں کا پوچھا نہ بستی کا۔ سیکرٹری کو کہا کہ اس کا کام کر دو اور اسے کھانا کھلا کر بھیجنا۔

بعد میں ان سے براہ راست کوئی ملاقات نہ ہو سکی۔

مرحوم کی اک خوبی یہ تھی کہ انتقامی ذہن رکھتے تھے اور نہ ہی کینہ پرور تھے۔ ان پہ ہنسنے والے ان پہ لطیفے بنانے والوں پہ بھی کوئی مصیبت آئی کوئی دکھ کی گھڑی آئی تو ربانی کھر سب سے پہلے کندھا فراہم کرنے والوں میں سے ہوتے تھے ‍۔

مزاج میں ترشی تھی لیکن وہ امیر غریب سب کے لیے تھی۔ وہ کچھ لوگ ہوتے ہیں نہ غصے کے تیز لیکن دل کے اچھے۔ یہ ویسے ہی تھے غصہ آتا تو برملا اظہار کر دیتے اور اگلے پانچ منٹ میں بھول چکے ہوتے۔

پچھلے نو سالوں سے متواتر اپوزیشن میں تھے۔ 2018 میں جب ہر کوئی تحریک انصاف میں شامل ہو رہا تھا تو ان کے متعلق اطلاعات سامنے آئیں کہ سابق گورنر ملک غلام مصطفیٰ کھر ان کو تحریک انصاف میں شامل کرانے کی کوششوں میں ہیں۔ لیکن انہوں نے پیپلز پارٹی نہیں چھوڑی۔ جب ان سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں جب آصف علی زرداری سے ملنے جاتا ہوں تو واپسی پہ وہ مجھے گاڑی تک بٹھانے آتے ہیں۔ شریف برادران ہوں یا پھر عمران خان ان سے ملاقات کا وقت لینا پڑتا ہے اور ہر ملاقات میں تعارف کرانا پڑتا ہے تو اس آخری عمر میں مجھے اپنے تعلقات اور عزت نفس داؤ پہ لگانے پہ مجبور مت کریں۔

اس بار انہوں نے خود الیکشن میں حصہ لینے کی بجائے اپنے بیٹے رضا ربانی کھر کو امیدوار کے طور پہ میدان میں اتارا۔ رضا ربانی کھر کامیاب ہوئے۔ اب ان کے بعد حنا ربانی کھر اور رضا ربانی کھر ان کی میراث کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ رضا ربانی کھر نوجوان ہیں جذباتی ہیں پہلی بار پاور ملنے کے بعد والا سرور ہے گو تعلیم یافتہ ہیں پر اعتماد ہیں اچھے سپیکر ہیں لیکن یہ سب کو اک ہی لاٹھی سے ہانکنے پہ یقین رکھتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ سب خوشامدی ہیں یا پھر سب بلیک میلر۔ ان کے علاقے کے مقامی صحافیوں کے ساتھ ان کے رویے کی بدولت کم از کم راقم کو یہی محسوس ہوا۔

ملک نور ربانی کھر ہماری سیاست کا ایسا کردار تھے جس سے محبت کرنے والے بے شمار ہیں مخالفین بھی بہت سے ہیں لیکن ان سے نفرت کرنے والا شاید ہی کوئی ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments