انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں میڈیا سینسر شپ پر بڑھتی تشویش: ’ملک دشمن جذبات شیئر کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے‘

وسیم مشتاق - جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں میڈیا کی آزادی پر ہمیشہ تشویش رہی ہے
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو متعدد چیلنجز کی وجہ سے خطے میں میڈیا سینسر شپ پر خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

چند حالیہ واقعات، جیسا کہ کشمیر پریس کلب (کے پی سی) کی ’غیر قانونی‘ طور پر بندش اور زیرِ تربیت صحافی سجاد گل کی گرفتاری، نے کشمیر میں میڈیا کی آزادی پر بحث کو پھر سے بھڑکا دیا ہے۔

صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 5 اگست 2019 کو انڈین حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد میڈیا پر پابندیوں کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔

کئی صحافیوں کو عام طور پر ان کے کام کے حوالے سے وقتاً فوقتاً گرفتار کیا گیا، حراست میں لیا گیا یا پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا۔ کئی صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں اور پولیس نے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں۔

حکومت اور پولیس نے اس طرح کے واقعات کی زیادہ تر وجہ سکیورٹی اور امن و امان کا مسئلہ بتائی ہے۔

کے پی سی کی بندش ایک ’خطرناک مثال‘

17 جنوری کو جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے کلب کی زمین اور عمارت پر قبضے کے اعلان کے بعد کے پی سی کو بند کرنے کے واقعے کو خطے میں میڈیا کی آزادی کا ’گلا دبانے‘ کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اگرچہ مقامی انتظامیہ نے کلب کو ختم کرنے کی وجوہات میں صحافیوں کے حریف گروپوں کے درمیان ’ناخوشگوار واقعات‘ اور ’نئی انتظامی باڈی تشکیل دینے میں ناکامی‘ کا حوالہ دیا، کے پی سی کی معزول انتظامیہ نے الزام لگایا ہے کہ حکومت کا مقصد ہی کلب کو بند کرنا تھا۔

کے پی سی کے جنرل سیکرٹری اشفاق تانترے نے بی بی سی مانیٹرنگ کو بتایا کہ ’بہت ہی کم عرصے میں کشمیری صحافیوں کی ایک قابل اعتماد، آزاد اور نڈر آواز کے طور پر ابھرنے والے کشمیر پریس کلب کی غیر قانونی بندش، کشمیر میں صحافت کو پیش آنے والا ایک بدترین واقعہ ہے۔‘

متعدد قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر قانونی اور یکطرفہ‘ قرار دیا ہے۔

کلب کی بندش پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ اس اقدام نے میڈیا کی آزادی کے لیے ایک ’خطرناک مثال‘ قائم کی۔

کشمیر، صحافی

کشمیر ٹائمز اخبار کے ایک اداریے میں کہا گیا ہے کہ ’پریس کلب کی بندش اور جس طرح سے یہ (اقدام) کیا گیا ہے وہ غیر جمہوری ہے، ایک خوفناک مثال قائم کرتی ہے اور گزشتہ چند دنوں کے اقدامات کو واپس لینے کی ضرورت ہے۔‘

اسی طرح کشمیر میں مقیم ممتاز صحافی اور مصنف گوہر گیلانی نے کشمیر میں میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے اس اقدام کو ’تابوت میں آخری کیل‘ قرار دیا۔

صحافیوں کی گرفتاریوں، حراستوں اور طلبی کے بڑھتے واقعات

نوجوان صحافی سجاد گل کی گرفتاری کے بعد کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

گل، جو سرینگر کے ایک جریدے ’دی کشمیر والا‘ میں بطور ٹرینی صحافی کام کرتے ہیں، کو 16 جنوری کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری ایک مقامی عدالت سے دیگر مقدمات میں ضمانت ملنے کے ایک دن بعد ہوئی۔ ان پر مجرمانہ سازش اور احتجاج کی ویڈیو پوسٹ کرنے کے کا مقدمہ تھا جسے حکام ’ملک دشمنی‘ قرار دیتے ہیں۔

پولیس کے مطابق گل ’حکومت کے خلاف بد اعتمادی پیدا کرنے کے لیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے غلط معلومات اور جھوٹا بیانیہ پھیلانے کے عادی تھے۔‘

کئی صحافیوں نے ان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آزاد پریس کو مسخر کرنے کی ایک ’کھلی‘ اور ’اشتعال انگیز‘ کوشش قرار دیا۔

’دی کشمیر والا‘ کے ایڈیٹر فہد شاہ نے کہا کہ ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، جن میں رپورٹرز یا میڈیا کے اداروں پر ملک دشمن جذبات شیئر کرنے یا پوسٹ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس خطے میں جہاں صحافت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، قانونی کارروائی کا ڈر اثر انداز ہو رہا ہے۔

کشمیر میں مقیم بہت سے دیگر صحافیوں کو وقتاً فوقتاً حراست اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور 5 اگست 2019 کے بعد ان واقعات میں اضافہ ہوا۔

سب سے نمایاں کیسز میں، سینیئر صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020 میں ’دی ہندو‘ اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا مقدمہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں صحافیوں کو ’ہراسانی‘ اور ’پوچھ گچھ‘ کا سامنا

کشمیر میں صحافیوں کے لیے کام کرنا ’تقریباً ناممکن‘

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: ’ہمیں انسانیت نہیں کھونی چاہیے‘

ایک اور کیس، ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کا بھی ہے جن پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت ’ملک دشمن‘ مواد پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔

مارچ 2021 میں ’دی کشمیر والا‘ کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ کو ان کی تحریروں کی وجہ سے تیسری بار حراست میں لیا گیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس قسم کے واقعات پہلے سے ہی شورش زدہ خطے میں آزادئ صحافت کو سلب کر رہے ہیں۔

میڈیا کی آزادی کے لیے جگہ سکڑ رہی ہے

صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے کشمیر میں میڈیا کی آزادی کی جگہ کم ہونے پر متعدد مرتبہ تشویش کا اظہار کیا ہے۔

5 اگست 2019 کو مودی حکومت کے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد یہ خدشات بڑھ گئے ہیں۔

خیال ہے کہ اس اقدام نے، جس سے وفاقی حکومت کو خطے میں مزید طاقت ملی ہے، وہاں میڈیا کے کام کرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے۔

اس کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے 2 جون 2020 کو ’میڈیا پالیسی 2020‘ متعارف کرائی۔ اس نے حکومت کو صحافیوں اور پبلشرز کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بے انتہا اختیارات دیے جنھیں وہ سمجھتے تھے کہ وہ ’جعلی خبریں‘ اور ’ملک دشمن‘ مواد شائع کر رہے ہیں۔

جہاں حکام پالیسی متعارف کرانے کے لیے اہم حفاظتی تحفظات کا حوالہ دیتے ہیں، وہیں صحافیوں کو خدشہ ہے کہ یہ نئی پالیسی ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

اکتوبر 2020 میں ’کشمیر ٹائمز‘ اخبار کے سرینگر میں واقع دفتر کو اچانک سیل کر دیا گیا۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اخبار کے آنجہانی بانی وید بھسین کو الاٹ کیے گئے مکان پر صرف واپس ’قبضہ‘ کیا تاہم اخبار کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے کہا کہ حکام نے حکومتی پالیسیوں کے بارے میں تنقیدی مؤقف اختیار کرنے پر انتقامی کارروائی کی تھی۔

اپریل 2021 میں، کشمیر پولیس نے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں صحافیوں کو عسکریت پسندوں کے ساتھ براہ راست گولے باری کی رپورٹنگ کرنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ ان کے بقول اس سے ’تشدد بھڑکنے کا امکان پیدا ہوتا ہے‘ یا یہ ’ملک دشمن جذبات‘ بھڑکا سکتا ہے۔

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس ایڈوائزری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’غیر جمہوری‘ قرار دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments