جرم، گناہ اور اخلاقیات


دوستوں میں بیٹھے بات ہو رہی تھی کہ مغرب میں بے حیائی ہے بے پردگی عام ہے اخلاقیات نام کی چیز نہیں اور ہمارے کلچر میں آج بھی عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے بھئی ایسے ہی ہو لیکن ہمارے روز مرہ کے مشاہدات تو ہمیں کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ قول و فعل میں تضاد اس قدر ہے کہ عورتیں بیچاری کمبل نما کپڑوں میں لپٹی ہوتی ہیں پھر بھی کچھ بے شرم نگاہوں سے ننگی کی جا ر ہی ہوتی ہیں۔ ہم دراصل گناہ اور ثواب کے معاملات میں اس اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ہر کام جنت کے حصول اور جہنم کے خوف سے کرتے ہیں مثلاً رمضان شریف کے مہینہ میں کسی کو کچھ کھاتے پیتا دیکھ کر ہمارے روزے کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور محرم کے مہینہ میں راہ چلتے لوگوں کو زبردستی روک روک کر شربت پلاتے ہیں۔

فٹ پاتھ پر نماز پڑھتے ہیں، ٹرین میں لوگوں کو کونوں میں گھسیڑ کے مصلا بچاتے ہیں۔ نماز کے لیے بس رکواتے ہیں اور جو نماز نہیں پڑھ رہا اسے حقارت سے دیکھتے ہیں بیچارہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے حالانکہ ہر شخص خود اس بات کا جواب دہ ہے کہ اس سنے نماز روزہ کی پابندی کی ہے یا نہیں یہ بالکل ایک ذاتی عمل ہے جس کا جواب دہ انسان خود ہے۔ فیصل آباد میں تو ایک لڑکے نے نماز نہ پڑھنے سے اپنے بزرگ والد کو سوتے ہو سر پر اینٹ مارکر ہلاک کر دیا تھا۔

ہماری یوٹیوب ایسی بیشمار وڈیوز سے بھری پڑی جس میں ہم مغرب کی تباہی اور کفار کی بربادی کی پیشن گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی محفل اپنے خیالات کے اظہار کا اختتام یورپ کو لعن طعن کرنے پر کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغرب اس قدر فحش اور غلیظ ہے اور بے راہ روی کا شکار ہے تو یہ نت نئی ایجادات کیوں ہو رہی ہیں؟ کیوں وہ ممالک زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی وسعتوں کو چھور رہے ہیں۔ چاند تو چاند سورج تک اپنی رسائی حاصل کرتے یہ کافر مسلمانوں پر سبقت لیتے کیوں نظر آتے ہیں؟ اور ہم آج بھی کیلے سیدھے کرنے اور جنابت کے اصولوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہماری تمام تر توانائیاں دوسروں کے قبلے درست کرنے اور جنت کے فیصلے کرنے میں گزر رہی ہیں۔

نا جانے کیوں ہم انسانیت کی بھلائی اور معاشرے کی اچھائی کی طرف توجہ نہیں کر رہے ہیں۔ ریاست ملک میں قانون و عدل کی رٹ دائر کرنے کے بجائے تبلیغی کاموں میں جٹی ہوئی ہے۔ قابل عزت مولانا وزیراعظم عمران خان صاحب (معذرت کے ساتھ) آپ کا کام ریاستی اداروں کو فعال بنانا اور جمہور کے لئے روٹی کپڑا مکان کا انتظام کرنا ہے ناکہ دین کی تبلیغ کرنا۔ یہ کام ہمارے دینی راہنما کر رہے ہیں انہیں ان کی ڈیوٹی کرنے دیں۔ آپ جس کام کے لیے ووٹ لے کر آئے تھے وہ کیجئے۔ پلیز ملک سنبھالیں عاقبت ہم لوگ خود سنوار لیں گے۔ خود بھی کام کریں اور ریاستی اداروں کو بھی کام کرنے دیں۔ لوگ مہنگائی اور بھوک سے مر رہے ہیں آپ ہماری اخلاقیات درست کر رہے ہیں۔ نظام بنائیں اخلاقیات خود بخود درست ہو جائے گی۔ کام کرنے والی سیٹوں پر سے مولوی اٹھائیں اور پروفیشنل بھرتی کریں۔

اسٹیڈیم کھیل کے لیے ہوتے ہیں اور باجماعت نماز پڑھنے کے لیے نہیں۔ بلاشبہ نماز ایک بہترین عمل ہے اور اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کا بہترین ذریعہ بھی اور یقیناً ہمیں اس بات کی قدر بھی ہے۔ کھیل کے میدان کارکردگی دکھانے کے لیے ہوتے ہیں منافقت نہیں۔ یا تو پھر اپنے عہدوں اور ذمہ داری سے استعفیٰ دیں اور کسی مدرسہ کا رخ کریں وہاں اللہ اللہ کریں کس نے منع کیا ہے ایسے دنیاوی کاموں میں اپنی عاقبت خراب مت کریں۔

اداروں میں، سکولوں میں، دفاتر اور ہسپتالوں میں لوگ بچارے مر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ نماز پڑھنے گئے ہوتے ہیں یا پھر سرکاری طور پر ایسے اوقات میں چھٹی دیں تاکہ ڈیوٹی کا وقت صرف ڈیوٹی پر صرف ہو۔ نماز کو نماز سمجھ کر پڑھنے سے ثواب اور کام چوری کے لیے گناہ ہوتا ہے۔ خدارا ایک بہترین عمل کو اپنی ذاتی مفادات اور اپنے اداروں کے نقصان کے لیے استعمال مت کریں۔ ہو سکتا یہ تجویز کچھ لوگوں کو ناگوار گزر رہی ہو لیکن مغرب کی ترقی کا راز تو پھر اسی میں ہے کہ وہ کام کے وقت کام کرتے ہیں اور ویک اینڈ پر خوب انجوائے کرتے ہیں۔

ہم جب تک اپنے گناہ اور دوسروں کی نیکیاں ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے معاشرے میں سدھار پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ اپنا کام ایمانداری سے کریں پھر چاہیے جتنی مرضی یورپ کو گالیاں دیں آپ ترقی کر ہی جائیں گے۔ نیکی اور گناہ کا ذمہ دار ہر شخص خود ہوتا ہے آپ اس ٹھیکیداری سے باہر آئیں۔ آج کے دور کو ہدایت سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں جب کوئی ملاوٹ کرتا ہے تو انسانیت کا قتل کرتا ہے اور رشوت لینے اور دینے والا دوزخی ہے۔

لیکن کوئی رشوت لیے بغیر کام ہی نہیں کرتا ہے۔ تبلیغ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مغرب سے نفرت میں وقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم و تحقیق میں وقت صرف کریں۔ نیکیاں عاقبت سنوارنے اور ایمانداری ملک سنوانے کے لیے ضروری ہے جبکہ تحقیق نسلوں کے مستقبل سنوارنے کے لئے۔ دکھاوے کی عبادت سے پوشیدگی کی محنت کامیابی کی کنجی ہوتی ہے۔ یورپ کا مقابلہ علم و عمل سے کریں نہ کہ دن رات کوسنے سے اور تباہی کی بد دعاؤں سے۔ ننگا ہونے سے اخلاقیات خراب نہیں ہوتی بلکہ ننگا کرنے سے ہوتی ہے۔

اپنی آنکھوں کا علاج کروائیں ملک میں امن بھی ہو جائے کا اور سکون بھی۔ جسم اگر کمزور ہے تو روح کو طاقتور کر لیں یقین کریں معاشرے میں کو تحفظ بھی مل جائے گا اور عزت بھی۔ ریاست کو گناہ، ثواب سے نہیں جرم کرنے سے نقصان ہوتا ہے باقی آپ کے ذاتی معاملات ہوتے ہیں۔ اچھے شہری بنیں محب وطن ہو کر سوچیں، ریاستی اداروں کی ایک ذمہ دار شہری ہوتے ہوئے مدد کریں وطن کی تعمیر و ترقی میں کسی نا کسی صورت میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کریں تو ملک کے وقار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments