قرول باغ دہلی: جہاں کبھی مسلمان اکثریت میں رہتے تھے


سنہ 1996 میں مجھے دہلی جانے کا موقع ملا۔ اس دورے میں میں دن قرول باغ بھی۔ وہاں کیا دیکھا، پیش خدمت ہے۔

قرول باغ نئی دہلی سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر جب انگریزوں نے دلی کو پایہ تخت بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس علاقے کے اندر ایک بڑی مارکیٹ جس کا نام کناٹ پیلس ہے، کو بھی بنانے کا منصوبہ بنایا۔ کناٹ پیلس کے علاقہ میں موجود آبادیوں کو ختم کر کے لوگوں کو قرول باغ کے علاقے میں بسایا گیا۔ اس طرح یہ علاقہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ اس بات کی تصدیق یہاں کی ترتیب سے بنی ہوئی گلیاں اور بازاروں سے بھی ہوتی ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ ایک نئی آبادی ہے۔ یاد رہے کہ لاہور میں بھی قرول گھاٹی اور قرول بازار شالامار اور شاہدرہ کے علاقہ میں موجود ہے۔ قرول کا معنی کیا ہے، کیوں یہ دہلی اور لاہور میں ایک ساتھ پایا جاتا ہے، باوجود کوشش کے معلوم نہ کر سکا، یقیناً یہ نام کوئی تاریخی حیثیت ہی رکھتا ہو گا۔

اس علاقہ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یہاں پر ایک طبیہ کالج، خالصہ کالج اور دہلی یونیورسٹی موجود ہیں۔ طبیہ کالج کا افتتاح مہاتما گاندھی نے 1921 ء میں کیا تھا۔ اس کالج کا آغاز حکیم عبدالمجید صاحب نے کیا جسے بعد میں حکیم اجمل خاں صاحب نے طب کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس کی تعمیر کا آغاز انگریز وائسرائے نے کیا جبکہ افتتاح مہاتما گاندھی نے کیا تھا۔ پہلے پہل اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی اکثریت پاکستان چلی گئی اور پاکستان سے آنے والے ہندو اور سکھ اس علاقہ میں آباد ہوئے اور اب اس علاقہ میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی تفصیل سدھرتھا رائے نے ہندوستان ٹائمز میں

A tale of two cities

کے نام سے لکھی ہے۔ اس علاقے میں مدراس اور بنگال سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ایک کثیر تعداد میں بستے ہیں۔

قرول باغ میں ایک بہت مشہور مارکیٹ ہے جس کا نام غفار مارکیٹ ہے۔ یہ نام خان عبدالغفار خان صاحب کے نام پر رکھا گیا جو متحدہ ہندوستان کے ایک مشہور سیاسی رہنما تھے۔ ان کی آزادی ہند میں قربانی کی کوئی مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بھارت کے لوگ خان عبدالغفار خان صاحب کی کس قدر عزت کرتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ خان صاحب تقسیم ہند کے خلاف تھے اور ان کی ہندوؤں سے بڑی اچھی دوستی بھی تھی۔ یہ بات بھی آپ کو یاد ہو کہ ان کے جنازے پر راجیو گاندھی بھی پاکستان آیا تھا۔

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ اس وقت سب سے زیادہ نقصان قرول باغ میں بسنے والے سکھوں کا ہی ہوا تھا۔ اس کی تفصیل وینا داس نے

Life and Words: Violence and the Descent into the Ordinary
کے نام سے ایک کتاب میں لکھی ہے۔

میں نے ایک اور بات محسوس کی کہ قرول باغ میں رہنے والے اکثر لوگ مغربی پنجاب سے آئے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ان کی بودوباش مغربی پنجاب جیسی ہی ہے۔ بہت سے لوگ سیالکوٹی اور جہلم کے لہجے میں پنجابی بولتے تھے۔ میں نے کچھ لوگوں سے راہ و رسم بڑھائی اور باتیں شروع کر دیں۔ ان میں سے اکثر نے اپنی نقل مکانی کے واقعات بتائے کہ وہ کس طرح فسادات میں اپنی جان بچا کر بھارت پہنچے تھے۔ اکثر لوگوں نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ ان مظالم کا احوال سنایا جو ان پر مغربی پنجاب کے مسلمانوں نے ڈھائے تھے۔

مجھے اب تک اس آدمی کی باتیں یاد ہے جس نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے آبا و اجداد کو سیالکوٹ میں لوگوں نے گھیر لیا اور ان کو زبردستی مسلمان بننے کے لیے کہا اور گائے کا گوشت کھانے کے لیے مجبور کیا اس دوران پولیس آ گئی اور یوں ان کا دھرم بچ گیا۔

اس موقع پر مجھے یاد آیا کہ ریاست پٹیالہ کے ایک گاؤں میں رہنے والے میری والدہ کے خاندان کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ پورا خاندان چھ ماہ تک سکھ بن کر رہا اور پھر انھوں نے ایک رات چوری چھپے گاؤں سے نکل کر سر ہند شہر میں واقع مہاجر کیمپ میں پناہ لی تھی۔ میری والدہ کے خاندان کا دھرم اور جان تو بچ گئی تھی لیکن وہ ایک نوجوان خاتون جسے سکھوں نے اغوا کر لیا تھا کو بچا کر اپنے ساتھ نہ لا سکے جس کا دکھ نا ختم ہونے والا ہے، اب ستر سال بعد بھی اس خاتون کی یاد میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ ناحق قیمت جو تقسیم ہند کی وجہ سے عام لوگوں کو دینی پڑی۔ تقسیم ہند کا فیصلہ تو لاگو ہونا ہی تھا، لیکن نقل مکانی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔

نقل مکانی کے دوران میں کتنے لوگ قتل ہوئے اور کتنا مالی نقصان ہوا، اس کا اندازہ آج تک کوئی نہیں لگا سکا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقسیم ہند کے نتیجے میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگ قتل ہوئے اور ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی۔ مالی نقصان کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بیس لاکھ لوگوں میں نہ کوئی مسلمان لیڈر، نہ کوئی ہندو لیڈر اور نہ ہی کوئی سکھ لیڈر شامل تھا۔ اس قتل و غارت میں عام لوگوں کا ہی جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس بارے میں مختلف اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ جو

Steven Brocklehurst
نے لکھی ہے کے مطابق پندرہ لاکھ قتل ہوئے اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی۔

مشرقی پنجاب کے سکھوں اور ہندوؤں نے قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کیا تو ردعمل کے طور پر مغربی پنجاب میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کا بدلہ مقامی سکھوں اور ہندوؤں کو قتل کر کے لیا۔ کس نے اس قتل و غارت گری کا آغاز کیا۔ اس بارے میں متضاد دعوے موجود ہیں۔ نقصان دونوں طرف ہوا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ اس کا درد صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے خاندان اس مشکل وقت سے گزرے ہیں۔

قرول باغ میں پختون آبادی

قرول باغ میں، میں ایک دن رکشے میں بیٹھا تھا مجھے محسوس ہوا کہ رکشے کا ڈرائیور اپنی شکل و صورت اور لب و لہجے کی وجہ سے پختون لگ رہا ہے۔ میں نے اپنے شک کو رفع کرنے کے لیے ان سے پوچھا کیا آپ پٹھان ہیں؟ انھوں نے جواب دیا، ہاں میں پٹھان ہوں اور میرا تعلق افغانستان سے ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ایک افغان بھارت میں کیوں اور کب آیا؟ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب سے یہاں رہ رہے ہیں؟

جواب میں اس نے مجھے بتایا کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بہت سے لوگ مہاجر بن کر پاکستان چلے گئے۔ اس دوران بھارت کی حکومت نے ایک ہزار کے قریب افغانی لوگوں کو بھارت میں رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ میں پچھلے پندرہ سال سے بھارت میں رہ رہا ہوں۔ افغانستان سے آنے والے سب لوگوں کو قرول باغ میں رہنے کی جگہ دی گئی ہے۔ ہمارے پاس بھارتی شہریت تو نہیں ہے لیکن یہاں پر رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح سے افغانیوں کی ایک بڑی تعداد قرول باغ میں رہ رہی ہے۔ میرے لیے یہ باعث حیرت تھا لیکن مزید غور کرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ جہاں غفار مارکیٹ ہوگی وہاں پر افغان لوگوں کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments