کیا بیوی کے ساتھ جبری ہم بستری ’جنسی زیادتی‘ نہیں؟


مصنفہ: رابعہ بگٹی

پاکستان میں شادی کے بعد جبری ہم بستری کے مسئلے سے نمٹنا مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے مذہبی نظریات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دیگر اسلامی ریاستوں میں بھی میریٹل ریپ کو واضح طور پر جرم قرار نہیں دیا جاتا۔

ثنا (فرضی نام) ابھی 20 سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں جب ان کی شادی کر دی گئی۔ وہ عمر میں اپنے شوہر سے کافی چھوٹی تھیں۔ ان کو گھر سے یہ تاکید کر کے بھیجا گیا تھا کہ شوہر کو ‘نا‘ کہنا مذہب اور معاشرے میں جائز نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اسی مشورے پر عمل پیرا ہونے میں ہی عافیت سمجھی لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا جب ان کے شوہر جو کہ بالغ فلموں کے شیدائی تھے وہی سب کچھ ان کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ”مجھے پہلی رات ہی بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑا تھا۔ لیکن درد، تکلیف اور تذلیل کا یہ سلسلہ تب تک نہیں رکا جب تک میں نے علیحدگی کا فیصلہ نہیں کر لیا۔‘‘

ثنا سوال کرتی ہیں کہ شوہر کو جسمانی تعلق کے لیے منع کرنا مذہب میں جائز نہیں لیکن جب شوہر غیر فطری حرکات کرنے پر مجبور کرے تو اس کا مذہب میں کیا حکم ہے؟

’میرا جسم میری مرضی‘ مسلم ممالک میں یہ نہیں ہو گا

پاکستان سمیت تقریباً تمام مسلم ممالک اس فہرست میں شامل ہیں، جہاں میریٹل ریپ یا بیوی سے زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جب ڈی ڈبلیو نے یہ سوال شیما کرمانی سے کیا جو کہ پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے کافی عرصے سے سرگرم ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ موضوع متنازعہ ہے اور کوئی اس پر کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا، ”انہیں میرا جسم میری مرضی جیسے جملوں سے مسئلہ ہے کیونکہ یہ عورت کے جسم کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور مذہب کو استعمال کرتے ہیں تاکہ کوئی اس پر آواز نہ اٹھا سکے۔‘‘

بھارت اور پاکستان میں، پدرانہ ذہنیت کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ ممالک میں رائج مذہبی فرائض کی وجہ سے، بیوی سے جبراﹰ سیکس کرنے کو ریپ نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن اب سماجی حلقے اس پر بات کرنے لگے ہیں۔

پاکستان میں شادی کے بعد جبری ہم بستری کے مسئلے سے نمٹنا مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے مذہبی نظریات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ دیگر اسلامی ریاستوں میں بھی میریٹل ریپ کو واضح طور پر جرم قرار نہیں دیا جاتا۔ شیما کہتی ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مگر اس موضوع پر بات ہونے لگی ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں میریٹل ریپ پر بات کرنے کو ‘ٹیبو‘ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے برعکس بھارت میں ان دنوں یہ مسئلہ اٹھایا جارہا ہے کہ شادی شدہ زندگی میں بھی جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے ایک عورت کی رضا مندی اتنی ہی اہم ہے جتنی ایک مرد کی اور اگر جسمانی تعلقات میں صرف مرد کی رضا ہے تو یہ شادی ہونے کے باوجود ریپ کے زمرے میں آئے گا۔

میریٹل ریپ صرف ایشائی ممالک کا مسئلہ کیوں؟

امریکا، نیپال، برطانیہ اور جنوبی افریقہ سمیت 50 سے زائد ممالک میں اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کرنا جرم ہے، لیکن ایشیا کے بیشتر ممالک میں ایسا نہیں ہے، جہاں اس مسئلے کے خلاف مہم چلانے والے ادارے اس پر قانونی اصلاحات پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کی طرح بہت سے ممالک میریٹل ریپ کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھا نہیں کرتے کیونکہ اس پر بہت زیادہ سماجی دباؤ سامنے آتا ہے۔

بھارت میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 375 کے تحت، جبری سیکس کو صرف اس صورت میں جرم سمجھا جاتا ہے جب بیوی کی عمر 18 سال سے کم ہو یعنی 18 سال کی عمر کے بعد کوئی بھی عورت جبری جنسی تعلقات قائم کیے جانے پر شکایت درج نہیں کر سکتی۔ رنجنا کماری جو کہ ایک ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ ہیں اس بابت کہتی ہیں کہ ایسے معاملوں میں مذہب، معاشرہ، روایات اور ثقافت کو بیچ میں لایا جاتا ہے جیسے یہ سب فقط عورت کی ذمے داری ہے۔ یہ عورت کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک پدر شاہانہ سوچ ہے جس کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،”چالیس سال سے میں یہ جنگ لڑ رہی ہوں اور اس موضوع پر بات کرنے پر میں نے گالیاں بھی برداشت کی ہیں پر ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں اور اب کچھ بدلاؤ آ رہا ہے کیونکہ عوامی حلقے اس موضوع پر بات کرنے لگے ہیں۔‘‘

پاکستان میں تاہم میریٹل ریپ کے خلاف کوئی واضح قانون موجود نہیں۔ سن 2006 میں حدود آرڈیننس میں موجود زنا باالجبر کے قانون میں ترمیم کی گئی۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 375 کے مطابق کسی بھی عورت کے ساتھ اس کی رضا کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا ریپ ہے۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو نے مخالف صنف کا مؤقف جاننا بھی ضروری سمجھا اور مرد حضرات سے بھی بات کی۔ ظہیر (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ مرد سے اس بارے میں کبھی سوال نہیں کیا گیا اس لیے ان کی زندگی کی کہانیاں کبھی سامنے نہیں آئیں۔ عورت کو مظلوم بنانے والے معاشروں میں مرد بھی اسی چکی میں برابر پِس رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”میری بیوی اس بات کی امید رکھتی ہے کہ میں مرد ہوں تو میں کسی بھی معاملے میں اسے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے جسمانی تعلق کو اپنی رضا کے بغیر قائم کیا کیونکہ مجھ پر اپنے رشتے، معاشرے اور سب سے بڑھ کر مرد ہونے کا بوجھ ہے۔ ‘‘

پاکستان میں، مذہبی قدامت پسند اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس بات کی وضاحت کے لیے عالمِ دین جاوید احمد غامدی سے رابطہ کیا۔ ان کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اسلام نے مرد کو اپنے خاندان کے ساتھ نیکی، شفقت اور کسر و انکسار کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی ہے اور اگر کسی مجبوری میں کوئی بھی صنف کسی عمل سے انکار کرے اور مخالف صنف پھر بھی وہ عمل زبردستی کرے تو وہ تشدد کے زمرے میں آئے گا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،”کسی بھی قسم کی سرکشی کی اصلاح ہونی چاہیے لیکن اس میں زبردستی کا عنصر نا ہو۔‘‘

جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے ایک عورت کی رضا مندی اتنی ہی اہم ہے جتنی ایک مرد کی اور اگر جسمانی تعلقات میں صرف مرد کی رضا ہے تو یہ شادی ہونے کے باوجود ریپ کے زمرے میں آئے گا

بھارت اور پاکستان میں، پدرانہ ذہنیت کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ ممالک میں رائج مذہبی فرائض کی وجہ سے، بیوی سے جبراﹰ سیکس کرنے کو ریپ نہیں سمجھا جاتا۔

ثنا کہتی ہیں،” اس موضوع کو اب بند دروازوں کے اوٹ میں نہیں بلکہ کھلے عام زیرِ بحث آنا چاہیے۔ مذہب کو استعمال کر کے اس مکروہ عمل کو مقدس بنانا کسی طور جائز نہیں۔ اگر جسم میرا ہے تو مجھے پورا حق حاصل ہے کہ میں اس کے بارے میں خود فیصلہ لوں۔ مجھ پر کسی روایت، ثقافت یا مذہب کا دباؤ نا ڈالا جائے۔ ‘‘

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments