’ڈیئرسٹ فرینڈز‘: مصر میں نیٹفلکس کی پہلی عربی فلم پر تنازعہ، ہم جنس پرستی کو فروغ اور عرب معاشرے کی اقدار کو نشانہ بنانے کا الزام

بی بی سی مانیٹرنگ - میڈیا انسائیٹ


فلم کا پریمیئر
فلم پر تنقید کی بڑی وجہ شراب نوشی کے مناظر اور جنسی موضوعات پر کھلے عام بات کرنا ہے
نیٹفلکس پر عربی زبان میں پہلی فلم کی نمائش کے بعد مصر میں تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور کئی صارفین کا خیال ہے کہ مذکورہ فلم میں غیر اخلاقی مناظر ہیں اور یہ فلم ملک کی روایتی اقدار کو مجروح کر رہی ہے۔

’ڈیئرسٹ فرینڈز‘ یا ’عزیز ترین دوست‘ نامی اس فلم میں جنسی تعلقات کے بارے میں گفتگو، شادی شدہ افراد کے معاشقوں کے علاوہ مختلف کرداروں کو شراب پیتے دکھایا گیا ہے۔

یہ فلم دراصل سنہ 2016 میں ریلیز ہونے والی اطالوی فلم ’پرفیکٹ سٹرینجرز‘ کا ری میک ہے جس میں لبنان کے شب و روز دکھائے گئے ہیں۔

جہاں تک مصری اداکاروں اور ناقدین کا تعلق ہے تو وہ اس فلم کی نمائش کے حق میں ہیں۔

فلم کی کہانی سات دوستوں کے گرد گھومتی ہے جو اکھٹے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ اسی محفل کے دوران وہ ایک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہیں جس میں ہر کوئی اپنا موبائل فون سامنے میز پر رکھ دیتا ہے تاکہ ہر کوئی اس کے فون پر آنے والی کال اور پیغامات کو دیکھ سکے۔

مختلف کرداروں کے موبائل فون پر آنے والے پیغامات پر بحت شروع ہو جاتی ہے اور پھر کچھ کردار اپنے معاشوں اور دیگر پوشیدہ سرگرمیوں کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ مصر میں کئی لوگ فلم کے اس حصے پر سب سے زیادہ اعتراض کر رہے ہیں۔

مصر کے رکن اسمبلی اور ایک ٹی وی چینل کے صحافی مصطفےٰ برکی کا کہنا ہے کہ انھوں نے پارلیمان کے سپیکر سے یہ فلم بنانے والوں کی شکایت کی ہے۔

انھوں نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ فی الوقت نیٹ فلکس کے ساتھ تعاون نہ کریں کیونکہ ’یہ نیٹفلکس کی پہلی فلم نہیں، جس میں مصری اور دیگر عرب معاشروں کی اقدار اور روایات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

رکن پارلیمان کے علاوہ مصری وکیل ایمن محفوظ کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی فلم بنانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی درخواست دی ہے کیونکہ فلمساز اس فلم میں ’ہم جنس پرستی کو فروغ‘ دے رہے ہیں۔ اس الزام کی وجہ شاید یہ ہے کہ فلم میں ایک ہم جنس کردار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

مسٹر محفوظ کے بقول انھوں نے مصر کی وزارت ثقافت کو بھی خبردار کر دیا ہے کہ وہ مصر میں اس فلم کی نمائش کو روکے۔

حزب اختلاف کی حامی ایک ویب سائٹ کے مطابق فلم کی نمائش کو روکنے کے مطالبات کے جواب میں مصر کے سینسر بورڈ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مصر اس فلم پر پابندی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ فلم مصری نہیں بلکہ لبنانی ہے۔

مونا ذکی

اس فلم پر اعتراضات کا بڑا نشانہ اداکارہ مونا ذکی ہیں اور انٹرنیٹ پر خاص طور پر فلم کے اس منظر کے مہم چلائی جا رہی ہے جس میں وہ اپنے زیر جامہ اتارتی ہیں

’نہ دیکھنے کا حق‘

مصر کے کئی معروف اداکاروں اور فنون لطیفہ کے مبصرین نے فلم کی نمائش کا دفاع کرتے ہوئے فلمسازوں پر لگائے جانے والے الزامات کو رد کیا ہے۔

ایک ٹی وی شو میں فون پر بات کرتے ہوئے معروف ناقد مگدا مورس کا کہنا تھا کہ اس فلم میں ’نہ تو ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا اور نہ ہی (ہماری) خاندانی روایات کی خلاف ورزی‘ کی جا رہی ہے۔

مگدا نورس کہتی ہیں کہ ہم مصر میں اس فلم پر پابندی نہیں لگا سکتے اور جو لوگ اس فلم کے خلاف ہیں انھیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ فلم نہ دیکھیں۔‘

’اہلِ مصر‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق ماضی کی مشہور اداکارہ الہام شاہین نے ملک کی پارلیمان کو فلم کے معاملے میں گھسیٹنے کی کوششوں پر تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پارلیمان کا نیٹفلکس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں اور ارکانِ پارلیمان عوام کے نگران نہیں۔ نیٹ فلکس پر اس سے کہیں زیادہ ’بولڈ‘ فلمیں دکھائی جا رہی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ہم جنس پرستی کی سزا موت، انکا بائیکاٹ کریں‘

پاکستان: ‘غیر اخلاقی، غیر مہذب‘ مواد کے باعث پانچ ڈیٹنگ ایپس پر پابندی

نفرت انگیز مہم

اس فلم پر اعتراضات کا بڑا نشانہ اداکارہ مونا ذکی ہیں اور انٹرنیٹ پر خاص طور پر فلم کے اس منظر کے مہم چلائی جا رہی ہے جس میں وہ اپنے زیر جامہ اتارتی ہیں۔

گزشتہ دنوں مصر می سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈز سب سے نمایاں رہے ان میں وہ ٹرینڈ بھی شامل تھا جس میں اس فلم کی اداکاراؤں کے ناموں کو ٹیگ کیا گیا تھا۔ آخری اطلاعات تک اس ٹرینڈ پر 17 ہزار سے زیادہ صارفین اپنی رائے کا اظہار کر چکے تھے۔

کئی صارفین کا الزام تھا کہ مونا ذکی نے ’ہمارے معاشرے کی اقدار اور اخلاقیات کی خلاف ورزی‘ کی ہے۔ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ مونا ذکی کے کیریئر میں یہ فلم ان کی ’اخلاقی ناکامی‘ کا ثبوت ہے۔

دوسری جانب مصر میں اداکاروں کی تنظیم ’سنڈیکیٹ آف آرٹسٹس‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اگر اداکارہ (مونا ذکی) کےخلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی تو تنظیم ادکارہ کی حمایت میں کھڑی ہو گی۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’اگر کسی بھی مصری فنکار یا فنکارہ کو اس کے کام کی بنیاد پر گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا یا اسے دھمکانے کی کوشش کی گئی تو تنظیم خاموش تماشی نہیں رہے گی۔‘

ماضی کی مشہور ادکارہ الہام شاہین نے بھی مونا ذکی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ مونا ’ایک سچی فنکارہ ہیں اور انھوں نے (ماضی میں بھی) زبردست فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔‘

اسی طرح مشہور فلمی ناقد طارق الشناوی نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم میں مونا پر فلمبند کیے جانے والے ’منظر میں ایسا کچھ نہیں کہ اس پر اتنا بڑا تنازعہ کھڑا کیا جاتا اور ہمیں اس منظر میں ایسا کچھ نہیں دکھایا گیا جس میں شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی گئی ہوں اور اس منظر میں ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ برہنہ نہیں دکھایا گیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments