انسانی جسم میں حیوانی اعضا کی پیوند کاری: مشکلات اور ممکنات


سات جنوری 2022 کو امریکی شہر بالٹی مور کے ہسپتال میں سات گھنٹے کے آپریشن کے بعد ستاون سالہ شخص کے جسم سے اس کا اپنا بیمار دل نکال کر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سور کا دل لگا دیا گیا اور ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق وہ دل کام کر رہا ہے۔ آپریشن کرنے والی ٹیم کو ایک پاکستانی ڈاکٹر محی الدین لیڈ کر رہے تھے۔ اس خبر نے جہاں میڈیکل کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا وہیں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی حلقوں میں بھی خوشی اور بے چینی کی لہر دوڑا دی۔

خوشی اس بات پر ( بالخصوص میڈیکل طبقہ میں ) ایک پاکستانی ڈاکٹر نے یہ معرکہ انجام دیا لیکن بے چینی پوری مسلم کمیونٹی بالخصوص پاکستان میں کہ جہاں اس بارے میں حلال اور حرام کی بحث چھڑ گئی اور چند دن خوب دھول اڑی۔ اب جب کہ دوسری بریکنگ نیوز نے اس کو پیچھے دھکیل دیا ہے تو سوچا کہ اس کے بارے میں چند باتیں لکھیں جائیں۔

اس آپریشن کے لیے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن (FDA) نے صرف اس لیے اجازت دی تھی کہ مذکورہ مریض کے علاج کے لیے کوئی اور ذریعہ نہیں رہا تھا اور اس آپریشن کی عدم موجودگی میں اس کی جلد موت یقینی تھی۔ اگلے چند ہفتے اس مریض کی زندگی کے لیے کافی اہم ہوں گے کہ دیکھا جا سکے کہ لگایا جانے والا دل مریض میں کیسے کام کر رہا ہے، لیکن ایک بات تو حوصلہ افزاء ہے کہ مریض کے جس نے اس دل کو فوری رد نہیں کیا، جس کا کہ ایسے آپریشنز میں دھڑکا لگا رہتا ہے۔

انسانوں میں ایک دوسرے کے اعضاء کی پیوندکاری تو اب نئی خبر نہیں اور اگر دل کی پیوند کاری کے اعداد شمار لیں تو انسانی اعضاء کی پیوندکاری کی نگرانی کے امریکی ادارے (united network for organ sharing) کے مطابق گزشتہ سال 3800 افراد میں دل کی پیوند کاری کی گئی۔ لیکن آج کے دور میں جدید میڈیکل سہولتوں کی موجودگی میں عطیہ کردہ انسانی اعضاء کی کمی ہے اور سائنسدان بڑے عرصے سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح جانوروں کے اعضاء کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اگر ایسا ممکن ہو جائے تو انسانی ضرورت کے لیے اعضاء کی سپلائی کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے اور سات جنوری کو ہونے والا آپریشن ایک انتہائی لمبی جدوجہد میں ایک اہم قدم تو شمار ہو سکتا ہے لیکن ابھی بہت سے اخلاقی اور ٹیکنیکل مشکلات و سوالات کا ایک سلسلہ باقی ہے جو ابھی طے کرنا باقی ہے۔ آج کی اس نشست میں بالخصوص ٹیکنیکل ایشوز پر بات ہو گی تاکہ اخلاقی سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے ایک باخبر رائے قائم کی جا سکے۔

انسانوں میں حیوانی اعضاء کی پیوند کاری (xenotransplantation ) کی کوششیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ 1984 میں پیدا ہونے والی بے بی سٹیفنی (Stephanie Fae Beauclaire) جو دل کی ایک ایسی بیماری کے ساتھ پیدا ہوئی جس میں عموماً زندگی دو سے تین ہفتے تک ہوتی ہے اور اس وقت تو ڈاکٹروں کے پاس نوزائیدہ بچوں میں دل کی پیوند کاری کا اتنا تجربہ بھی نہیں تھا اگرچہ بالغ مریض میں عطیہ کردہ انسانی دل کی پیوند کاری کا کامیاب تجربہ 1967 میں ہو چکا تھا۔

ان حالات میں اس بچی میں ببون بندر (baboon) کے دل کی پیوند کاری کی گئی لیکن آپریشن کے چودہ دن کے بعد اس کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اکیس دن بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ انسانی جدوجہد جاری رہی اور اس سلسلے میں نگرانی کا عمل بھی انتہائی سخت رہا۔ ابھی 2021 میں نیویارک میں دو ایسے دماغی طور پر مرے ہوئے مریضوں میں جنیاتی طور پر نظر ثانی شدہ سور ( genetically modified pigs) کے گردے لگا دیے گئے اور انسانی جسم نے ( جو کہ وینٹیلیٹر ventilator کے ذریعے چل رہا تھا) ان گردوں کو رد نہیں کیا اور نارمل کام کرنا شروع کر دیا۔ ان چند مثالوں کے علاوہ باقی تمام تحقیق صرف غیر انسانی پرائیمیٹ جانوروں (primate animals) میں ہی ہوئی ہے۔ اور سات جنوری کے آپریشن سے پیدا ہونے والی ابھی تک کی حوصلہ افزاء صورت احوال اس ضمن میں پیشرفت کے لیے مہمیز کا کام دے سکتی ہے۔

انسانی جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام جسم میں داخل شدہ کسی بھی عضو یا مواد کو رد کر دیتا ہے اور انسانی اعضاء کی پیوند کاری میں یہ ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ پیوند کو رد کرنے کے اس عمل (transplant rejection) میں عضو یا ٹشو وصول کرنے والے (organ/tissue recipient) کا مدافعاتی نظام لگائے جانے والے عضو پر حملہ کر دیتا ہے اور اس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام حالات میں ہمارا یہ مدافعاتی نظام انسانی جسم کو کسی بھی نقصان دہ چیز جو کہ جراثیم، زہر یا بعض اوقات کینسر کے خلیات سے حفاظت کرتا ہے۔

ان تمام اشیاء کی سطح پر پروٹین کے مالیکویولز molecules) ) ہوتے ہیں، جن کو اینٹی جن (antigen) کہا جاتا ہے۔ جب کوئی ایسی چیز جسم میں داخل ہوتی ہے تو مدافعاتی نظام (immune system) ان اینٹی جنز کی شناخت کر کے ان پر حملہ کر دیتا ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اگر کسی مریض کے عضو مثلاً گردے یا جگر کام کرنا چھوڑ دیں تو پیوند کاری کے لیے ڈاکٹرز سب سے پہلے خونی رشتہ داروں سے اپیل کرتے ہیں کیونکہ پیوند کاری کی کامیابی کے لیے جنیاتی مادہ کا ایک جیسا یا تقریباً ایک جیسا ہونا ضروری ہے۔

کیونکہ جتنا زیادہ یہ اینٹی جنز (antigens) ایک جیسے ہوں گے، اتنا ہی وصول کنندہ مریض کا مدافعاتی نظام اس کو قبول کرنے کے قابل ہو گا۔ اسی لیے پیوند کاری کے امیدوار اور عطیہ کرنے والے کے ٹیسٹ کے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ سوائے جڑواں لوگوں کے کوئی دو افراد اس لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے پیوند کردہ عضو ہمیشہ وصول کنندہ کے مدافعاتی نظام کی زد پر رہئے گا۔ اس ضمن میں چند استثناء ہیں جن میں سے ایک آنکھ میں قرنیہ (cornea) کی پیوند کاری ہے کیونکہ اس میں خون کی سپلائی نہیں ہے اور دوسرا ایک جیسے جڑواں افراد میں باہمی پیوندکاری۔ پیوند کاری کو رد کرنے کا عمل عموماً تین طرح سے ہوتا ہے۔

1) فوری رد کرنے کا عمل جس میں ضروری ہے کہ وصول کنندہ کی جان بچانے کے لیے وہ عضو فوراً نکال دیا جائے، ایسا اس صورت میں ہوتا ہے اگر باہمی میچنگ نہ کی گئی ہو۔ اس کی ایک مثال بلڈ گروپ اے (blood group A) کے مریض کو بلڈ گروپ بی کا خون دے دیا جائے۔

2) دوسری قسم میں پہلے ہفتے اور تین ماہ کی مدت کے دوران رد کیے جانے کا عمل۔ پیوند کاری کا تقریباً ہر مریض کسی حد تک اس آزمائش میں سے گزرتا ہے۔

3) طویل مدتی رد کرنے کا عمل جس میں مدافعاتی نظام، پیوند کردہ عضو کے خلاف اپنی مسلسل جدوجہد جاری رکھتا ہے اور اس کو نقصان پہنچا کر ہی رہتا ہے۔

پہلی قسم کے علاوہ دونوں اقسام کے رد کرنے کے عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈاکٹر مریض کو ایسی ادویات (immunosuppressant ) تجویز کرتے ہیں جو اس کے مدافعاتی نظام کو دبا کے رکھتی ہیں۔

اس مختصر تجزیے سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ سات جنوری کا ہونے والا آپریشن میڈیکل کی دنیا میں کیا حیثیت رکھتا ہے لیکن ذرا ٹھہریے ابھی اس کہانی کا ایک اہم حصہ ابھی باقی ہے۔ اوپر بیان کردہ پیوند کاری کے مسائل تو اس وقت کے ہیں اگر وصول کنندہ اور عطیہ کر نے والے دونوں انسان ہوں۔ لیکن اگر عطیہ جانور سے حاصل کیا گیا ہے تو جنیاتی سطح (genetic level) پر عضو کے مخصوص مسائل ہیں۔

اب آتے ہیں بنیادی مسئلے یعنی خلیات کی سطح پر پائے جانے والے اینٹی جنز پروٹین جو کہ اس پیوند کاری کو رد کرنے کی بنیادی وجہ بنتی ہیں۔ اگر ان کو تبدیل کر دیا جائے تو وصول کنندہ کا مدافعاتی نظام ان کی شناخت نہ کر سکے گا اور پیوند شدہ عضو کو رد کے جانے کا خطرہ کافی حد تک اٹل جائے گا۔ ذرا سوچئے، اگر آپ خدانخواستہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جہاں سوائے پیوند کاری کے کوئی اور علاج نہ ہو اور آپ کا کوئی عزیز بھی اس قابل نہ ہو کہ اپنا عضو عطیہ کرسکے، لیکن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا عضو آپ کو لگایا جا سکتا ہے جس کو آپ کا جسم بھی قبول کر لے، تو کیسا رہے۔

اب آئیے اس ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں۔

اس مضمون کے شروع میں جس جانور کا نام لیا گیا، مسلمان اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے، اگرچہ گالیوں میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ لیکن میں یہاں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹروں نے کسی عام ریوڑ میں سے اس سور کو علیحدہ کر کے اس کا دل نہیں نکالا تھا بلکہ یہ جانور تو پہلے ہی ایک خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے پرورش کیے گئے تھے جس میں اس کے مختلف اعضاء کے خلیات کی سطح پر پائے جانے والے اینٹی جنز کو تبدیل کر دیا گیا تھا تاکہ انسانی مدافعاتی نظام ان کو رد نہ کر سکے۔

اور سات جنوری 2022 کو میری لینڈ ہسپتال میں پیوند کاری کے لیے استعمال ہونے والے میں اس دل میں لائی جانے والی جنیاتی تبدیلیاں (genetic modifications) کی تعداد دس تھی۔ ان میں سے تین ایسی جینز (genes) تو نکال ہی لی گئی تھیں جو کہ ان اینٹی جنز کی ذمہ دار ہیں جو انسانی مدافعاتی نظام کے حملے کی زد پر ہونا تھیں، چھ ایسی انسانی جینز کو اس جانور میں شامل کیا گیا تھا جس کی موجودگی سے انسانی جسم کے لیے اس حیوانی دل کو قبول کرنا آسان ہو جائے۔

یہاں تک تو بات آسان تھی اور سمجھ بھی آتی ہے لیکن انسانی جسم اور اس حیوان میں ایک اور بنیادی فرق اس کے وزن اور سائز کا بھی ہے۔ شائع شدہ ریسرچ کے مطابق دنیا میں ایک بالغ انسان کا وزن اوسط تقریباً 62 کلوگرام یا 136 پاؤنڈ ہے۔ یہ وزن مختلف اقوام میں کم یا زیادہ ہو سکتا ہے مثلاً شمال امریکہ یعنی یونائٹیڈ سٹیٹ آف امریکہ اور کینیڈا میں اوسط وزن 80.7 کلو گرام ہے جبکہ جنوبی امریکہ کے ممالک میں یہی وزن 67.9 کلوگرام ہے۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ وزن اس دلچسپ سائنسی بات چیت میں کہاں سے ٹپک پڑا، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ انسانوں سمیت تمام قسم کے جانداروں میں جسم کے مختلف اعضاء ایک خاص تناسب سے ہیں جو کہ اس مخصوص جاندار کی جسمانی ضروریات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ 67 کلوگرام سے لے کر 80 کلوگرام کے انسانی جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانی دل کا سائز بھی اس کی مطابق ہے اور اس کا اوسط وزن تقریباً 300 گرام ہے اور اس کا سائز ایک بند مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔

مردوں میں دل کا سائز تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ انسانی اعضاء بچپن سے جوانی تک (growth hormone) کے تحت بڑے ہوتے رہتے ہیں، اس کے بعد بھی اس ہارمون کا انسانی صحت میں کردار باقی رہتا ہے لیکن کسی اور انداز میں۔ یہ تفصیل اس لیے ضروری ہے کہ اس حیوان کے بارے ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا، جس کے عضو کی پیوندکاری انسانی جسم میں کی جاری ہے۔ اب واپس آتے ہیں ان دس جنیاتی تبدیلیوں (genetic modification) کی طرف جو اس مخصوص جانور میں کی گئیں۔

نو کے بارے میں تو بتا چکے اب دسویں تبدیلی، یہ ایسی تھی جس کے ذریعے اس حیوانی دل کے سائز اور اس پر growth hormone کے اثرات کو کنٹرول کرنا تھا تاکہ اس کو انسانی جسم کی ضروریات کے مطابق رکھا جا سکے، کیونکہ سور کا اوسط وزن انسانی سے تقریباً دگنا ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ جنیاتی تبدیلیوں (genetic modifications) کا یہ عمل جدید ترین ایجاد کے بعد ہی ممکن ہو سکا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کہ CR آئی ایس پی آر۔ Cas 9 genome editing کا نام دیا گیا ہے۔

اب اردو میں اس کا ترجمہ اس وقت میرے بس میں نہیں لیکن یہ وضاحت کرتا چلوں کہ اس کے ذریعے سائنسدان اس قابل ہو چکے ہیں کہ انسانی خلیے میں جنیاتی مادہ ( ڈی این اے ) کی ساخت کے مختلف حصوں کی شناخت، پھر مطلوبہ حصہ کی کاٹ کر علیحدگی اور نئے حصے کو اس جگہ فٹ کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت سی ایسی بیماریوں کے علاج بارے تحقیق شروع ہو چکی ہے جو کہ انسانی جان کا روگ بن جاتی تھیں اور قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔

اب دوبارہ آتے ہیں اس آپریشن کے پس منظر کی طرف، یاد رہے کہ تحقیق کار کافی عرصے سے نگرانی کے ادارے ایف ڈی اے (FDA) سے ایسے آپریشن ( سور کے دل کی انسانی جسم میں پیوندکاری ( کی اجازت مانگ رہے تھے لیکن ادارہ کو اس بارے میں تحفظات تھے اور وہ چاہتا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مذکورہ جانور ایک تصدیق شدہ لیبارٹری میں پرورش کیا گیا اور یہ کہ پہلے مرحلے پر سور کے دل کی پیوند کاری کم از کم دس ببون بندر (baboon monkeys ) کے اجسام میں کی جائے تاکہ ممکنہ اثرات کا مکمل جائزہ لیا جا سکے اور پھر ان مشاہدات کی روشنی میں انسانی جسم میں ایسے اعضاء کی پیوند کاری کا عمل شروع ہو۔

لیکن ایک جانور سے دوسرے جانور میں پیوند کاری کے ایک آپریشن کی لاگت کم از کم پانچ لاکھ ڈالر آتی ہے جس کا انتظام کو اتنا آسان نہیں۔ موجودہ آپریشن میں استعمال ہونے والا دل جس جانور سے نکالا گیا اس کی تیاری ایک ایسے ادارے میں ہوئی جو امریکہ میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو گزشتہ 20 سال سے زاہد عرصے سے ایسے جانور اور ان کو انسانی جانوں کے قابل بنانے کی ریسرچ کر رہا ہے۔ ابھی کام کو کامیاب بنانے کے لیے بہت سی تحقیق ہونا باقی ہے، ہر ایک قدم جو کامیاب نظر آتا ہے اور دنیا کی توجہ حاصل کرتا ہے اس کے پیچھے خاموشی سے لیبارٹریوں میں کام کرتے بیسیوں نہیں سینکڑوں سائنسدانوں کی مہینوں اور سالوں اور کبھی تو دہائیوں کی محنت ہوتی ہے جو با ظاہر کسی کھاتے میں نہیں جاتی لیکن انسان اپنی لگن میں نئے افق اور نئے ساحلوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔

اب اگر یہ آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے اور ایسے ہی دوسرے آپریشنز کی اجازت طلب کی جاتی ہے تو پھر اخلاقیات کے ماہرین اور نگرانی کے اداروں کو گائیڈ لائنز پر کام کرنا ہو گا۔ ان گائیڈ لائنز کی تیاری میں ماہرین، عوام اور عوامی نمائندگان میں زبردست مباحثہ ہو گا لیکن یہ سب مباحث ترقی یافتہ اقوام میں ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ریسرچ اور نئی ٹیکنالوجیز کا تعارف زندگی کا معمول بن چکے ہیں، وہاں تعلیمی اداروں مثلاً یونیورسٹیز میں اخلاقیات کے ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں اور سائنسی تجربات کی نگرانی کے نظام بظاہر سوسائٹی کی سوچ کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ریسرچ اور نئی ٹیکنالوجی کی تیاری ابھی سوسائٹی کی سوچ کا حصہ نہیں بنی، ہم تو اس کے وصول کنندہ ہیں۔

ذرا اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ گزشتہ 40 سے پچاس سال کے عرصے میں نئی ٹیکنالوجیز نے سوسائٹی کی شکل تو بظاہر بدل دی ہے لیکن ہمارے اجتماعی رویے ابھی جذباتی سطح سے اوپر نہیں اٹھے کیونکہ ان کی تیاری میں ہمارا حصہ صفر ہے اور وہ بے چین روحیں، جن کو یہاں ترقی میں حصے لینے کے مواقع نہیں ملتے وہ ڈاکٹر منصور محی الدین بن کر انسانی خدمت میں ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔

انسانی جسم میں حیوانی اعضاء کی پیوندکاری میں ہونے والی یہ تحقیق اب یہاں رکنے والی نہیں ہے۔ مختلف مذاہب اور قوموں کو اپنے مروجہ عقائد اور روایات کی روشنی میں اس تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا اور اس کے پیدا کردہ نئے نئے سوالات کے جوابات کے لیے تیار رہنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments