کرپشن: دل چھوٹا نہ کر وے ڈھولڑاں


بین الاقوامی کرپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کا تاثر بڑھا ہے کرپشن تو نہیں بڑھی نا، میں خوامخواہ ہی ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز سے پریشان ہو گیا تھا۔ سچ کہتے ہیں وزیراعظم عمران خان، کہ چند معصوموں کے علاوہ زیادہ تر صحافی نئے پاکستان میں عوام کے اندر مایوسی پھیلانے کے کام پہ مامور ہیں، ذرا سوچیں! ٹی وی چینلوں نے یہ تو بتایا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن رپورٹ 2021 کے مطابق دنیا کے 180 ملکوں میں پاکستان 124 ویں نمبر سے ’ترقی‘ کر کے 140 ویں نمبر پر چلا گیا ہے مگر یہ بتانے میں ان کو موت پڑتی ہے کہ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ 2021 میں کرپشن صرف پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی بڑھی ہے۔

کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے امریکہ کا سکور 2020 میں بھی 67 تھا اور اب بھی 67 ہی ہے مگر 180 ملکوں کی فہرست میں 25 نمبر سے نیچے چلا گیا ہے، اسی طرح 2021 میں کینیڈا کا سکور 77 سے گر کر 74 جبکہ آسٹریلیا کا سکور 77 سے کم ہو کر 73 پہ آ گیا ہے۔ اگر پاکستان کا 3 سکور کم ہو کر 31 سے 28 پر آ گیا تو ایسی کون سی قیامت آ گئی، یہ الگ بات کہ کرپٹ ملکوں کی فہرست میں 16 ملک پاکستان سے اوپر چلے گئے ہیں، دوسرا یہ کہ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو کرپشن پرسیپشن کا اردو ترجمہ بھی عوام کو بتانا چاہیے تاکہ رائی کا پہاڑ بنانے والے بے نقاب ہو سکیں، حالانکہ کرپشن پرسیپشن کا مطلب بنتا ہے ’کرپشن کا تاثر‘ ، جبکہ تاثر غلط بھی ہو سکتا ہے۔

بلاشبہ وزیراعظم عمران خان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کرپشن جیسی بلا کا مقابلہ جب امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک نہیں کرپا رہے تو بھلا پاکستان کیونکر اس کا مقابلہ کر سکتا ہے، چلو ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کو چھوڑیں، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی تو پوری دنیا تعریفیں کرتے نہیں تھکتی، ذرا بتائیں، وہ کیوں اپنے ملک میں کرپشن پر قابو پانے میں بے بس ہے، حالانکہ جسٹن ٹروڈو کی کابینہ میں خسروبختیار، رزاق داؤد، علیم خان اور حماد اظہر بھی نہیں۔ پھر بھی کینیڈا میں کرپشن بڑھ رہی ہے۔ چلو یہ بتائیں آسٹریلیا میں کرپشن کیوں بڑھی، حالانکہ وہاں پر نہ تو جہانگیر ترین ہے اور نہ ہی عامر کیانی جیسے لوگ حکومتی جماعت کو کنٹرول کرتے ہیں!

لہٰذا لالہ عطا اللہ عیسٰی خیلوی کا یہ گیت موجودہ صورتحال کے لئے سب سے بہتر رہے گا۔
اللہ کرسی چنگیاں، مک ویسن تنگیاں
دل چھوٹا نہ کر وے ڈھولڑاں۔

ہاں یاد آیا، ان گنہگار کانوں نے تو 90 دنوں میں کرپشن کے خاتمے کی بڑھک بھی سنی تھی، پھر سو دن، چھ مہینے۔ اور دو سال، پھر تین سال، مگر سب گزر گئے، پلوں کے نیچے سے پانی کے مانند۔ گھوڑا اور میدان تو اب بھی منہ چڑا رہا ہے، لیکن ہمارے نجات دہندہ وزیراعظم ہیں کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق ساڑھے تین سال بعد بھی یہ کہہ کر اپنے پیروکاروں کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ اگر نواز شریف 1996 میں کرپشن نہ کرتا اور لندن میں فلیٹ نہ خریدتا تو آج مہنگائی نہ ہوتی، اگر آصف زرداری 1994 میں ایس جی ایس کوٹیکنا ڈیل نہ کرتا تو آج ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔

ایس جی ایس کوٹیکنا ڈیل سے یاد آیا، بن قاسم اور کراچی پورٹ پر تعینات کسٹم انسپکٹر، اپریزرز تو آج بھی روزانہ لاکھوں کروڑوں کی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ آپ نے آصف علی زرداری کو تو مسٹر ٹین پرسنٹ بنا دیا اور ایس جی ایس کوٹیکنا کو بھی بھگا دیا، لیکن وہ کسٹم افسران جو بن قاسم اور کراچی پورٹ پر امپورٹ ہو کر آنے والی 100 ڈالر کی چیز کی قیمت کی انٹری 10 ڈالر میں کرتے ہیں بلکہ کرتے آرہے ہیں اور اسی حساب سے ڈیوٹی و ٹیکس وصول کرتے ہیں، ان کو کب کوئی پوچھے گا۔

ایس جی ایس کوٹیکنا ڈیل یہی تھی نا، کہ ایک نجی کمپنی کراچی پورٹ پر اپنے اپریزر بٹھائے گی اور درآمدات کی ویلیویشن کرے گی، ویلیویشن کے نتیجے (گزشتہ سال کے مقابلے میں ) کسٹم ڈیوٹی کی مد میں جو اضافی ریونیو وصول ہو گا اس کا 20 فیصد کمپنی کو ملے گا اور 80 فیصد قومی خزانے میں جمع ہوا کرے گا۔ مگر آپ نے کہا یہ دیکھو آصف زرداری اس ڈیل میں 10 فیصد کا حصہ دار ہے اور وہ (معاہدے کی پانچ سالہ مدت کا ) اپنا حصہ کمپنی سے 11 کروڑ ڈالر ایڈوانس وصول کرچکا ہے جو کہ سوئس بینکوں میں جمع ہے۔

لیکن آپ نے تو وہ دس فیصد پکڑتے پکڑتے 80 فیصد بھی گنوا دیا۔ چند روز قبل کی بات ہے کسٹم ڈیپارٹمنٹ کا ایک دوست بتا رہا تھا کہ حب کے قریب وندر ڈیم کے علاقے میں کسٹم والوں نے چھاپہ مارکر ساڑھے آٹھ ہزار ولائتی شراب کی بوتلیں پکڑیں اور انٹری کی گئی 4600 بوتلوں کی، نجانے بقیہ کس کس کے پاس بطور تحفہ پہنچی ہوں گی۔

یاد تو یہ بھی ہو گا آپ کو ، کہ 1999 میں ایک کمانڈو نے ملک فتح کیا تھا اور اس نے بھی پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کا 27 نکاتی ایجنڈا دیا مگر بعد میں وہ ایجنڈا سکڑ کر 7 نکات پر آ گیا تھا۔ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2001 میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 127 واں تھا، مگر جب کمانڈو پرویزمشرف نے ملک کی جان چھوڑی تو کرپشن پرسیپشن میں پاکستان 134 ویں نمبر پر پہنچ چکا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی بھی بڑی پھوں پھاں ہوتی رہی، ایسے ایسے لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر ملکی سیاسی قیادت کو کرپٹ، بدعنوان اور نجانے کیا کیا کہتے رہے جن کو دیکھ کے ہنسی آ جائے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اصل حکمرانوں نے کس طرح بڑی امیدوں اور بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ نیب کا ادارہ تشکیل دیا تھا، مگر نتیجہ نکلا مسلم لیگ (ق) کا قیام اور پانچ سال تک اس کے اقتدار کو سہارا دیے رکھنا۔

اب بھی اس دور کے کچھ بڑبولے اس حکومت کا بھی حصہ ہیں اور اس مفروضے کے ساتھ وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں، کہ لوگ تو پچھلی سردیاں بھول جاتے ہیں اور پچھلی گرمیاں بھی!

یہی وجہ ہے کہ 2017 میں اصل حکمرانوں کی طرف سے کپتان کو ایک نیا بیانیہ پکڑایا گیا جو یہ تھا کہ دراصل دو جماعتوں (پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) کا گٹھ جوڑ ہی ہے جس نے پاکستان کو معاشی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ورنہ ایوب خان کے دور میں تو پاکستان ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا (نہیں معلوم کہ وہ کیسا ایشین ٹائیگر تھا جو 16 دن کی جنگ برداشت نہیں کر سکا اور چیخیں نکل گئی تھیں ) ۔ بیانیے کہ مطابق ان دونوں جماعتوں کا چالیس سالہ اقتدار ہی مسائل کی اصل جڑ ہے کیونکہ دونوں نے باریاں لگا رکھی تھیں اور چارٹر آف ڈیموکریسی دراصل چارٹر آف کرپشن تھا، لہٰذا برائی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے!

حالانکہ بیانیے کے اندر الفاظ اور اعداد و شمار کا کچھ تو تنوع ہونا چاہیے، کل کی بات ہے کہ 2008 میں سیاسی قوتیں بیانیہ دے رہی تھیں کہ فوج کے چالیس سالہ اقتدار نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا، بلکہ اسی بیانیے کی بدولت 2008 میں کنگز پارٹی (ق لیگ) کا دھڑن تختہ ہوا۔ یہ امر بھی کافی دلچسپ ہے کہ پی پی پی اور نون لیگ کا چالیس سالہ گٹھ جوڑی اقتدار، یعنی اگر ضیا الحق کے دور آمریت میں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کا عرصہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے تو پھر موجودہ دور میں صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساڑھے تین سال کو بھی شامل کرنا ہو گا اور ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو جو مختلف وزارتوں پر رہے اس کو بھی اسی گٹھ جوڑی دور میں شامل کرنا ہو گا۔ لہٰذا اگر 1985 سے 1988 کا دور نواز شریف کا تھا اور ضیا الحق کا دور نہیں تھا تو اسی فارمولے کے مطابق 1962 تا 1966 کا دور حکومت بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کا نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو قرار پائے گا، پھر تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا سہرا بھی بھٹو صاحب کے سر پر دینا ہو گا۔

الیکٹرانک میڈیا یہ تو بتا رہا ہے کہ 2018 میں جب نئے پاکستان کا ظہور ہوا تو کرپشن کے حوالے سے پاکستان، دنیا کے 180 ممالک میں 117 ویں نمبر پر تھا جو کہ ساڑھے تین سالہ تبدیلی کے نتیجے میں نکتہ عروج یعنی 140 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، لیکن میڈیا یہ بتانے میں نجانے کیوں بخل سے کام لیتا ہے کہ 2008 میں جب وطن عزیز میں جمہوریت بحال ہوئی تو کرپشن میں پاکستان کا نمبر دنیا بھر میں 134 واں تھا (بلکہ 2012 تک کرپشن کنٹرول نہیں ہو سکی اور پاکستان کا نمبر 139 پر جا پہنچا) ، تاہم 2013 میں بالآخر جمہوری اصلاحات کے نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے اور دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان 127 ویں نمبر پر آ گیا اور انہی جمہوری اصلاحات کی بدولت اگلے پانچ سال کے دوران کرپشن پرسیپشن میں پاکستان کی رینکنگ مزید دس درجے بہتر ہوئی اور پاکستان 117 ویں نمبر پہ آ گیا تھا۔

لہٰذا یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ، اگر 2018 میں تبدیلی معکوس کا عمل شروع نہ ہوتا تو ان ساڑھے تین سالوں میں یقیناً کرپشن پرسیپشن میں پاکستان کی عالمی رینکنگ مزید 5 سے 7 تک درجے بہتر ہو چکی ہوتی!

(برسبیل تذکرہ میں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کر رکھی ہے کہ بتایا جائے کہ سال 2000 سے اب تک وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات اور آئی ایس پی آر کی جانب سے صحافیوں و لکھاریوں کو اپنی من پسند خبریں شائع و نشر کرنے اور اپنے بیانیے کے حق میں آرٹیکل، مضامین و کتابیں لکھوانے کے لئے کس کس کو کتنی رقم ظاہری و خفیہ فنڈ سے ادا کی جاتی رہی) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments