نسلِ نو کو منشیات سے کیسے دور رکھیں؟


یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر دس سال کے قریب تھی۔ جولائی کا دہکتا مہینہ تھا۔ گاؤں میں گندم کی کٹائی کا سیزن تھا۔ میرے انکل نے مجھے نسوار لینے بازار بھیج دیا۔ چوں کہ بچپن میں مجھے نسوار کھانے والے بڑوں کو دیکھ کر حسرت ہوتی تھی۔ مجھے خیال تھا کہ یہ لوگ گلاب جامن یا کوئی میٹھی چیز کھا رہے ہیں۔ میرے دل میں بھی نسوار کا ذائقہ چکھنے کی خواہش انگڑائیاں لے رہی تھی۔ ہمارے بڑے خود تو نشہ کرتے تھے ’مگر ہمیں سختی سے منع کرتے تھے اور ایسی چیزوں سے دور رکھتے تھے۔ آج مجھے اس دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کا موقع ملا تھا اور میں اس موقعے کو کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا اور بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

بازار سے نسوار لے آیا اور راستے میں ہی چٹکی بھر نسوار چھپا کر ہونٹوں کے نیچے دبا دیا۔ گھر پہنچنے تک زمین گھومنا شروع ہو گئی۔ مشرق مغرب کی سمت اور مغرب مشرق کی سمت تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے مجھے زہر کا انجکشن لگا دیا ہو۔ گھر پہنچتے ہی ٹھنڈے پانی میں خود کو بھگو دیا۔ گیلی زمین پر خود کو لٹا دیا مگر طبیعت مسلسل بگڑتی گئی۔ قے کر رہا تھا گویا نسوار اپنا پورا اثر دکھا رہا تھا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ مجھ پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی اور میں بے ہوش ہو گیا۔ نہیں معلوم کتنے گھنٹے گزر گئے جب ہوش آیا تو خود کو مقامی کلینک کے بیڈ پر لیٹا پایا۔ کلینک میں قریبی رشتہ داروں کا جم غفیر تھا۔ وہ کام چھوڑ کر مجھے کلینک لے آئے تھے۔ تھوڑی دیر میں مجھے ٹھنڈا جوس پلایا گیا اور ہم لوگ گھر آ گئے۔

ایسا اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آیا ہو گا مگر زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے بڑے واقعات انسان کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہوتی ہیں جنھیں ہم بے وقعت سمجھ کر ٹال دیتے ہیں۔ یقین مانے اس دن کے بعد مجھے نسوار کے نام سے ہی دلی چڑ ہونے لگی۔ بلکہ نسوار کھانے والوں پر حیرت ہوتی ہے۔ ایک ایسی چیز جس کے ہزار نقصانات ہیں مگر فائدہ کوئی نہیں باوجود لوگ اس لت میں پڑے ہوئے ہیں۔ خود میرے والد صاحب نسوار کے عادی ہیں۔ نسوار کے متعلق ان کا عالی شان فرمان ہے کہ ”جو نسوار نہیں کھاتا وہ مردوں میں شمار نہیں ہوتا۔“ وہ ایک مخصوص گلاس میں پانی پیتے ہیں۔ اگر میں کبھی اس میں غلطی سے پانی پیوں تو دماغ چکرانے لگتا ہے۔ جسم تھرتھرانے لگتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد جب نسوار کھاتے ہیں تو والدہ فرماتی ہیں کہ اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت (روزی) کھانے کے بعد غلاظت منھ میں ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ گھر میں میرے بھانجے آتے ہیں تو والد صاحب انھیں نسوار سنگھاتے ہیں۔ جلتی سگریٹ پکڑاتے ہیں اور تو اور کٙش بھی لگواتے ہیں۔

دنیا کا کوئی باپ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی اولاد نشئی بنے۔ مگر بد قسمتی سے یہ والدین اور قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ’جو غیر شعوری طور پر بچوں کو نشئی بناتے ہیں۔ جب ایک باپ اپنے بچے کو گود میں بٹھا کر منشیات استعمال کرتا ہے تو بچہ دیکھتا ہے اور براہ راست اس کے اثرات قبول کرتا ہے۔ جب یہی بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو باپ خود بچے کو منشیات لینے بازار بھیجتا ہے تو وہ (میری طرح) راستے میں استعمال کرتا ہے۔ پھر محلے میں نشہ کرنے والے بچوں کی پوری گینگ اکٹھی ہوتی ہے اور وہ ابتدا میں سگریٹ کے ٹکڑوں کو کچرا کنڈیوں سے اٹھا کر پیتے ہیں۔ جب نشہ زور پکڑتا ہے تو چوریوں پر اتر آتے ہیں۔ بچے کے نشے کے متعلق جب والدین کو معلوم ہوتا ہے تو انہیں مار پیٹ کرتے ہیں جو کہ میرے خیال میں ایک احمقانہ فعل ہے۔

ہمارے ایک استاد عرض کرتے تھے کہ جب میں چھوٹا تھا میں تو چھپ کر سگریٹ پیتا تھا۔ ایک دن میری والدہ کپڑے دھوتی تھیں۔ انھیں میرے جیب سے سگریٹ کے ٹکڑے ملے تو انھوں نے والد صاحب سے شکایت کی۔ چونکہ میرے والد ایک زیرک انسان تھے۔ انھوں نے مجھے ڈانٹنے کے بجائے کہنے لگا کہ مجھے میرے بیٹے پر کامل یقین ہے۔ وہ سگریٹ نہیں پیتا ہے۔ والد کی باتوں کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں نے سگریٹ کو چھوا بھی نہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کسی بھی قسم کے نشے سے پاک رہے تو اس کے لیے آپ کو خود نشے سے پاک رہنا ہو گا۔ اگر آپ کے لیے نشہ ترک کرنا ممکن نہیں تو کم از کم بچوں کے سامنے نشہ مت کریں۔ جو کام آپ کے لیے برا ہے وہی آپ کے بچے کے لیے بھی برا ہے۔ برے فعل خود تو کریں مگر بچے کو اس سے روکنا کوئی دانش مندی نہیں۔ آپ عمل سے بچوں کی اصلاح کریں۔ اپنے بچوں کے اسکول بیگز چیک کریں۔ اگر ایسی کوئی چیز برآمد ہو تو پوچھ گچھ کریں اور انہیں ہمیشہ اپنی نگرانی میں رکھیں۔ تاکہ نشے سے پاک ایک نسل کو پروان چڑھا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments