کیا خود لذتی غیر اخلاقی عمل ہے؟


ہمارے سماج میں زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے چھپنا یا منہ موڑنا سکھایا جاتا ہے، خاص طور پر انسانی جسم سے جڑے ہوئے مسائل کو ڈسکس کرنے سے ہمارا برائے نام شرافت کا لبادہ کھسکنے لگتا ہے اور کانچ جیسا ایمان ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ وہ جینا بھی کیا جینا ہوا جس میں آپ حقائق سے نظریں ہی نہ ملا سکیں اور اپنا معاشرتی بھرم برقرار رکھنے کے لئے آپ کو ہر وقت پاک باز بنے رہنے کی اداکاری کرنا پڑے، معاشرے کے معیار پر پورا اترنے کے لیے اپنی حقیقی شخصیت کی قربانی دے کر درجنوں بناوٹی روپ اپنی ذات کے گرد قائم کرنے سے کیا آپ کی شخصیت میں خود اعتمادی برقرار رہ سکتی ہے؟

اپنی ذات کو مسخ کر کے وقتی درجنوں معاشرتی ماسک پہن لینے کے بعد کیا آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آپ خود سے نظریں ملا سکتے ہیں؟ جیسے اداکار اپنے مخصوص مناظر میں ایک فٹ کردار نبھانے کے لیے درجنوں بار پریکٹس کرتے ہیں اور عکس بندی کے دوران درجنوں بار اسے ”کٹ کٹ“ کا لفظ سننا پڑتا ہے اور کافی پریکٹس کے بعد وہ اپنا مخصوص کردار نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسے ایک مخصوص کردار کی ایکٹنگ کرنے کے لیے اتنی محنت کیوں کرنا پڑی وجہ بالکل صاف ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں بالکل مختلف ہوتا ہے اسی لیے اسے خود کو ایک مخصوص فریم میں ایڈجسٹ کرنے کی خاطر بار بار کھپنا پڑتا ہے۔

مجبور رول نبھانے کی وجہ سے ایک انسان کی حقیقی شخصیت کا ”قدرتی فلو“ ختم ہو جاتا ہے۔ ماسٹربیشن جسے سادہ لفظوں میں ”مشت زنی“ کہا جاتا ہے اور اسے معاشرتی سطح پر انتہائی قبیح، نجس اور مکروہ ترین عمل بظاہر سمجھا جاتا ہے مگر نجی لائف یا پرائیویسی میں تقریباً ہر بندہ اس لذت سے محظوظ ہوتا ہے اور جب کبھی نفسانی خواہش کا یہ منہ زور جذبہ انسانی ذہن پر سوار ہوتا ہے تو یہ خود کو رام کرنے اور نفسیاتی الجھنوں سے بچنے کا آسان ترین طریقہ ہوتا ہے۔

یہ عمل بالکل سگریٹ کی ڈبی پر درج شدہ وارننگ کے مانند انسان کی نجی ذات کا حصہ ہوتا ہے جس پر یہ لکھا ہوتا ہے ”خبردار سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے“ مگر اس وارننگ کو نظر انداز کر کے لاکھوں لوگ سموکنگ کرتے ہیں بلکہ یہ عمل ان کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے بالکل اسی طرح مشت زنی کے متعلق بھی یہی تصور ہے مگر ایک غالب اکثریت نوجوانی میں اس لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک وقت تک اس عمل کو سیلف ابیوز کہا جاتا تھا مگر جدید تحقیق، نفسیات دان اور ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق اب اس عمل کو ”سیلف پلئیر“ کہا جاتا ہے۔

اس کے متعلق ہمارے سماج میں مختلف آراء موجود ہیں جو سب برائے نام اخلاقی چونچلوں کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مثلاً روایتی فکر کے مطابق بچہ جیسے ہی بالغ ہو جائے یعنی سولہ یا سترہ سال کی عمر کو چھونے لگے تو اس کی شادی کر دو تاکہ اسے جنسی اطمینان حاصل ہو اور بے راہ روی سے بچ سکے۔ کتنے المیہ کی بات ہے کہ اس بات کا تعین کیے بغیر ہے کہ کیا واقعی بچہ اتنا میچور ہو چکا ہے کہ وہ اپنی شادی شدہ لائف کو سنبھال سکے؟

کیا اس کے پاس معقول سوشل اسٹینڈنگ ہے جس کے سہارے وہ اپنی زندگی میں آئندہ آنے والے چیلنجز کا سامنا کر سکے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان بنیادی باتوں کو نظر انداز کر کے بچے کو فقط جنسی برائیوں سے بچانے کے لئے اور فیملی کا نام بچانے کے لیے اس کی شادی کے نام پر بلی چڑھا دی جاتی ہے۔ بچے کو باکردار بنانے کے چکر میں جو خود اپنے پاؤں پر نہیں ہوتا مگر وہ بچوں کی ایک قطار لگا دیتا ہے اور فیملی کا پورا نظام غربت کی راہ پر چل پڑتا ہے، ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارے پاس بچوں کی درست جنسی رہنمائی کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور سیکس پر بات کرنا بے شرمی اور بے غیرتی کہلاتا ہے اور ماں باپ وقت سے پہلے بچے کی شادی کر کے اپنے فرائض سے فارغ ہو جاتے ہیں۔

ہمارا معاشرتی ڈھانچہ اتنا بند اور تنگ نظر ہے کہ جو بندہ اپنی اوریجنل اور چیلجنگ قسم کی رائے کا اظہار کرنے لگتا ہے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے اس کی شخصیت کے گرد تکفیری ٹیگ لگا کر اس کے گرد دیوار بنانے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے، عورت کی ذات سے یہ خوفزدہ معاشرہ کہ کہیں وہ پڑھ لکھ کر ہمیں ہی چیلنج کرنا شروع نہ کردے اس کی ذات کے گرد بھی آلہ شیطان کہہ کر برقع یا سکارف یا الگ تھلگ تعلیم کے نام پر مختلف روایتی دیواریں قائم کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔

بالکل اسی طرح بچوں کی جنسی لائف کو تحفظ دینے کے نام پر یہ جانے بغیر کہ کیا وہ اپنی شادی شدہ لائف کو سنبھالنے کا اہل بھی ہے یا نہیں ان کے گرد جبری شادی کی دیوار قائم کر دی جاتی ہے۔ ہم نے اپنی تنگ نظری اور اپنی جھوٹی آن بان کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے معاشرے کو نارمل بننے ہی نہیں دیا بلکہ جو باتیں یا چیزیں ہمیں تنگ یا چیلنج کرنے لگتی ہیں ہم ان کا سامنا کرنے کی بجائے ان کے گرد روایتی دیواریں کھڑی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو اپنی زندگی میں آزادانہ فیصلے لینے کی آزادی دینے کے بجائے ان کو اپنی خواہشات کا روبوٹ بنا لیتے ہیں جسے کبھی اپنے والدین، کبھی استاد، کبھی مولوی اور کبھی معاشرتی تقاضوں کو بوجہ مجبوری پورا کرنا پڑتا ہے اور اگر وہ اس روایتی سرکل کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے پاؤں میں وقت سے پہلے شادی کی زنجیریں پہنا دی جاتی ہے۔ ہمارے بچے زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ مجبوری میں گھسیٹتے رہتے ہیں۔ بطور استاد میرا ایسے بچوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے جو درجنوں نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

معاشرتی جبر، والدین کا جبر، مختلف اساتذہ کا جبر اور سب سے بڑھ کر احساس گناہ ان کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ ان کا پڑھائی میں دل بالکل نہیں لگتا، کلاس روم میں بیٹھے ضرور ہوتے ہیں مگر دھیان جنسی بکھیڑوں میں کھویا ہوا ہوتا ہے۔ بنیادی وجہ صحیح طور پر جنسی راہنمائی کا فقدان ہوتا ہے آخر وہ اپنی جنس کے متعلق بات کس سے کریں؟ والدین اپنے رعب و دبدبہ سے باہر نہیں نکلتے، اساتذہ ہر وقت اپنے چہرہ پر علمی رعونت سجائے رکھتے ہیں، پیچھے بچا معاشرہ پھر وہ اس بچے کی اس طرح سے رہنمائی کرتا ہے کہ بچہ مزید جنسی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے جو باتیں پیار سے اور بڑے نارمل انداز میں اس کے اپنے رشتے اسے سمجھا سکتے تھے پھر وہی باتیں معاشرتی شکاری اس کا جنسی استحصال کر کے سمجھاتے ہیں اور اس میں بھی اسی بچے کا قصور نکل آتا ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہمارے معاشرے میں ٹھرک پن کا رویہ اتنا زیادہ کیوں ہے؟ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ٹھرکی لوگ جانوروں تک کو نہیں چھوڑتے بس انہیں ایک لحمی سوراخ سے غرض ہوتی ہے۔ بنیادی وجہ انسانی جسم سے جڑی ہوئی حقیقتوں پر بات نہ کرنا، ہر بات کو محض گناہ یا ثواب کی نظر سے دیکھنا، اپنے بچوں کو شرم کی وجہ سے جنسی زندگی کے متعلق درست راہنمائی نہ کرنا اور اپنے برائے نام اخلاقی ضابطوں کا تحفظ جیسے عناصر شامل ہیں۔

ہم آج تک اس سطح پر نہیں پہنچ پائے کہ جہاں مرد اور عورت ایک فرد کی حیثیت سے ایک نارمل زندگی جی سکیں، ہمارے بچے کھل کر اپنے بڑوں سے اپنے جنسی مسائل ڈسکس کرسکیں تاکہ وہ نفسیاتی الجھنوں سے نکل کر معاشرے میں ایک نارمل فرد کی حیثیت سے جی سکیں۔ ماسٹربیشن پر بات کرنے کا بھی یہی مقصد ہے اس عمل کو صرف ایک ہی اخلاقی پیمانہ پر پرکھ کے اس کے متعلق خیالی باتوں کا مایا جال بننا کوئی اچھا رویہ نہیں ہے اور جنسی تقاضوں کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور جنسی دباؤ کا شکار بچے کچھ بھی نارمل طریقے سے پرفارم نہیں کر پاتے بجائے اس کے کہ وہ نفسیاتی مریض بن کر اوروں کا جنسی استحصال کرنے کی طرف راغب ہوں انہیں احساس جرم کی دلدل سے باہر نکال کر درست سمت میں گائیڈ کریں کہ ماسٹربیشن کوئی سیلف ایبیوز نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیلف پلئیر ہے جو آپ کے جنسی ابال کو کم کر کے آپ کے جنسی پروسیس کو اطمینان بخشتا ہے۔ اس کا اخلاقی ضابطہ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر جنسی بھیڑیے بن کر دوسروں کا جنسی استحصال کرتے ہو تو یہ بالکل غیر اخلاقی اور انسانی مرتبے سے گرا ہوا کام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments