’جناح ٹاور سینٹر‘: انڈیا میں بانی پاکستان کے نام پر ایک یادگار، مگر اس کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

وادیشیٹی شنکر - بی بی سی تیلگو کے لیے


گنٹور جناح ٹاور سینٹر
گنٹور جناح ٹاور سینٹر
یہ بات بہت سے لوگوں کو حیرانی کا باعث ہو سکتی ہے کہ انڈیا کے معروف کاروباری شہر گنٹور کے مرکز میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام کی ایک یادگار موجود ہے۔ محمد علی جناح کے نام سے منسوب یہ ٹاور گنٹور شہر کے اہم مقامات میں سے ایک ہے۔

اپنی تعمیر کے سات دہائیوں بعد بھی گنٹور میں واقع ’جناح ٹاور سینٹر‘ مذہبی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ غیر مسلم ہیں۔

دوسری طرف گنٹور میں انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے نام سے منسوب ایک ‘مایا بازار’ بھی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بازار میں موجود زیادہ تر کاروباری ادارے مسلمانوں کے ہیں۔

آخر انڈیا کے کسی شہر میں جناح کے نام پر مینار یا یادگار بنائی کیوں گئی تھی اور اب اسے گرانے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ بی بی سی نے ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔

’یہ آزادی سے پہلے کی بات ہے‘

گنٹور میں محمد علی جناح کے لیے ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا تھا اور یہ ٹاور ان کی آمد کی نشان کے طور پر تعمیر کیا گیا

گنٹور میں محمد علی جناح کے لیے ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا تھا اور یہ ٹاور ان کی آمد کی نشان کے طور پر تعمیر کیا گیا مگر جناح مصروفیات کے باعث اس جلسے میں شرکت نہ کر سکے

ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں محمد علی جناح کے کردار کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔

جناح جو پیشہ ور وکیل تھے سب سے پہلے کانگریس کی قیادت میں اس تحریک میں شریک ہوئے مگر بعد میں اختلافات کے باعث کانگریس سے ناراض ہو کر انھوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔

ایس ایم لال جان باشا سنہ 1942 میں گنٹور کے ایم ایل اے تھے۔ وہ ’تیلگو دیشم پارٹی‘ کے لیڈر مسٹر باشا کے دادا تھے، جو چند سال قبل ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ انھوں نے متحدہ مدراس پریذیڈنسی میں دو بار گنٹور کی نمائندگی کی تھی۔

جدوجہد آزادی کے دور میں، یعنی تقسیم ہند سے قبل، لال جان باشا نے گنٹور میں محمد علی جناح کی ایک بڑی ریلی منعقد کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے خلاف ‘ہندوستان چھوڑ دو تحریک’ چلائی جا رہی تھی۔ جناح کو اس ریلی میں مرکزی مقرر کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

گنٹور کے بہت سے عوامی نمائندے اس ریلی میں شرکت کے لیے محمد علی جناح کو مدعو کرنے بمبئی گئے تھے اور جناح کی منظوری کے بعد گنٹور میں اُن کے شاندار استقبال کے انتظامات کیے گئے تھے۔

گنٹور ضلع کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کے لیے اس جگہ پر تیاریاں کی گئی تھیں جہاں آج ’جناح ٹاور‘ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اترپردیش: سب سے بڑی ریاست کی انتخابی ریلیوں میں پاکستان، جناح اور طالبان کا ذکر حاوی

’مسٹر جناح نے مجھے اغوا نہیں کیا، میں نے انھیں اغوا کیا ہے‘

جب بانیِ پاکستان کی تقریر سینسر کرنے کی کوشش ناکام ہوئی

تاہم تاریخی حوالوں کے مطابق آخری وقت پر جناح نے اس ریلی کا انعقاد کرنے والوں کو مطلع کیا کہ کہ بعض مصروفیات کے باعث وہ اس تقریب/ ریلی میں شرکت نہیں کر سکتے۔

جب جناح نہیں آئے تو جناح کے قریبی اور معتمد لیاقت علی خان نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق بہت سے آزادی پسند رہنما بشمول کونڈا وینکٹاپایا پنٹولو، کاسینادھونی ناگیشورا راؤ، انناوا لکشمی نارائنا اور کلوری چندرمولی نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔

’جناح کی آمد کے اعزاز میں‘

ضیاء الدین گنٹور کے سابق ایم ایل اے اور اس ٹاور کے بانی ایس ایم لالجن باشا کے پوتے ہیں۔

ضیا الدین گنٹورسابق ایم ایل اے اور اس ٹاور کے خالق ایس ایم لال جان باشا کے پوتے ہیں

لال جان باشا کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جب جناح کے گنٹور آنے کا منصوبہ بن رہا تھا تو فیصلہ یہ ہوا کہ ان کے اعزاز میں ایک ٹاور تعمیر کیا جائے۔

ضیا الدین گنٹور کے سابق ایم ایل اے اور آنجہانی لیڈر لال جان باشا کے بھائی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جناح ٹاور اُن کے دادا لال جان باشا کے کہنے پر تعمیر کیا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمارے دادا کی محمد علی جناح سے دوستی تھی۔ سنہ 1941 میں ستنا پلی کے آس پاس کے کئی دیہاتوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ہمارے دادا، جو اس وقت ایم ایل اے، تھے نے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اور ان لوگوں کی قانونی معاونت کی جن کا نقصان ہوا تھا۔’

ضیا الدین کہتے ہیں کہ ’اس کیس میں محمد علی جناح کی مدد بطور وکیل لی گئی۔‘ ان کے مطابق مقامی عدالت سے ہونے والے فیصلے کے بعد جناح کی مدد لی گئی جنھوں نے بمبئی ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو پلٹوا دیا۔ اس لیے جب جناح کے گنٹور آنے کا پروگرام بنایا گیا تو اُن کے اعزاز میں ایک ٹاور بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

بقول اُن کے ’جناح اگرچہ تحریک کے کام اور مصروفیات کے باعث وہاں نہیں آ سکے لیکن پھر بھی اس ٹاور کا افتتاح کر دیا گیا۔ یہ ٹاور سنہ 1942 اور سنہ 1945 کے درمیان بنایا گیا تھا۔ سنہ 1945 میں جب اس ٹاور کی تعمیر مکمل ہوئی تو یہ جناح ٹاور سینٹر بن گیا۔‘

نام تبدیلی کا مطالبہ

اس وقت یہ سینٹر اس لیے زیر بحث ہے کیونکہ اس کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام پر رکھا گیا ہے۔

گنٹور کی اہم کاروباری جگہ جناح ٹاور سینٹر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ ماضی میں کئی بار اٹھایا جا چکا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس ٹاور کو ’اس شخص کے نام سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے جو تقسیم ہند کا ذمہ دار تھا۔‘

گنٹور میں شعبہ تعلیم سے منسلک ایم سریش بابو کہتے ہیں کہ ’گنٹور میونسپلٹی میں نام تبدیلی کا فیصلہ کئی سال پہلے لیا بھی گیا تھا، لیکن بہت سے لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا تھا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گنٹور میں مسلمانوں کی آبادی بھی ہے۔ تاہم، یہاں پر ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد کبھی متاثر نہیں ہوا۔ اس شہر میں کئی سڑکوں اور گلیوں کو مشہور مسلم شخصیات کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جن میں جناح ٹاور سینٹر بھی ہے۔ جناح ٹاور آج بھی مذہبی ہم آہنگی کی علامت بنا ہوا ہے، کارگل جنگ کے دوران بہت سے لوگوں نے اس کے نام پر اعتراضات اٹھائے تھے۔‘

’پاکستانی بھی حیران‘

مشرف

مسلم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندہ محمد کلیم نے کہا کہ پاکستانی بھی یہ خبر سن کر حیران ہوں گے کہ انڈیا کے شہر گنٹور میں ان کے ’قائد اعظم‘ کے اعزاز میں ایک ٹاور ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ ’جب مشرف ہندوستان آئے تو انھوں نے جناح ٹاور کے بارے میں دریافت کیا۔ اس وقت کے ایم پی نے اس ٹاور کی بہت سی تصاویر پاکستان ہائی کمیشن کو بھیجی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ جناح نے تقسیم سے قبل ملک کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اس لیے وہ اب بھی اہم ہیں۔‘

مزید پڑھیے

جب انڈیا نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کر دیا

کرنسی نوٹ پر بانی پاکستان کی تصویر پر علما معترض کیوں ہوئے؟

محمد علی جناح: معاملہ ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کا

’میونسپل کارپوریشن اس کی دیکھ بھال کرتی ہے‘

گنٹور میونسپل کارپوریشن نے حال ہی میں جناح ٹاور سینٹر میں کئی ترقیاتی کام مکمل کیے ہیں۔ یہاں پانی کا چشمہ، باغیچے اور روشنی کا انتظام کیا گیا ہے۔

سٹی کمشنر انورادھا نے بی بی سی کو بتایا کہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت جناح ٹاور سینٹر کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جناح ٹاور سینٹر 1945 سے میونسپلٹی کی نگرانی میں ہے۔ ہم اسے ایک تاریخی عمارت سمجھتے ہیں۔ ہم بہت سے چھوٹے مسائل کے بعد بھی اس ٹاور کے تحفظ پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ گنٹور میں ایک تاریخی مقام ہے۔‘

تقریباً سات لاکھ کی آبادی والے گنٹور میں تقریباً 20 فیصد مسلمان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments