لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد


حزب اختلاف کی سیاست کے تناظر میں تین بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں۔ اول کیا تقسیم شدہ حزب اختلاف یا یا داخلی محاذ پر عدم اعتماد کی بنیاد پر یہ جماعتیں حکومت کے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا کر سکتی ہیں۔ دوئم کیا واقعی حزب اختلاف میں موجود تمام جماعتوں کا سیاسی ٹارگٹ ایک ہے یا یہ واقعی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ سوئم کیا موجودہ صورتحال میں حزب اختلاف کے پاس کوئی مضبوط صلاحیت موجود ہے کہ وہ واقعی حکومت کو گھر بھیج سکتی ہے۔

کیونکہ 2018 کے بعد بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کو فوری طور پر گھر بھیجنا حزب اختلاف کی حکمت عملی کا بنیادی نقطہ تھا۔ لیکن حکومت بننے سے لے کر اب تک کی حزب اختلاف کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں تضادات، ٹکراؤ اور باہمی داخلی کشمکش کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ حکومت کو حزب اختلاف سے بڑا خطرہ نہیں اور جو خطرہ حکومت کو موجود ہے وہ اس کا اپنا داخلی حکمرانی کا بحران ہے۔

اگرچہ ایک موقع حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی صورت میں ایسا آیا تھا جو واقعی حکومت کے لیے کسی مشکل کا سبب بن سکتا تھا مگر اتحاد کی یہ شکل جلد ہی ہمیں ایک سیاسی تقسیم کی شکل میں دیکھنے کو ملی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پی ڈی ایم سے جبری یا سیاسی بنیاد پر علیحدگی نے حزب اختلاف کی سیاست کو کمزور کیا۔ حزب اختلاف کی قیادت جس میں نواز شریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، شہباز شریف سب نے اس اتحاد کو بھی اور اس اتحاد میں شامل چھوٹی یا علاقائی جماعتوں کو مجموعی اتحاد کے ایجنڈے کے مقابلے میں ذاتیات پر مبنی ایجنڈے کے طور پر استعمال کیا یا یہ سب ایک دوسرے کا کندھا استعمال کر کے خود کو طاقت ور طبقات میں متبادل قیادت کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اسی طرز عمل کی بنیاد پر چھوٹی جماعتوں جن میں اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیر پاؤ، عطا اللہ مینگل، انس نورانی کی جماعتوں کا کردار بھی محدود ہوا اور ان کی حالیہ دلچسپی اور گرم جوشی بھی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی جانب سے ساڑھے تین برسوں میں حکومت گراؤ مہم کو بہت ہی برے انداز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کا یہ دعوی بھی غلط ثابت ہوا کہ حکومتی جماعت تحریک انصاف میں داخلی تقسیم اور ان کی اتحادی جماعتوں کی ناراضگی یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ان کے خراب تعلقات کی بنیاد پر حکومتی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے۔ بلکہ دلچسپ پہلو یہ دیکھنے کو ملا کے پارلیمانی سیاسی جنگ کے مختلف مراحل میں حکومتی ارکان کے مقابلے میں حزب ارکان کی تعداد کم ہوئی اور ان کو مختلف محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک بڑی لڑائی ہمیں مجموعی طور پر حزب اختلاف میں بیانیہ کی لڑائی یا اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ یا محاذ آرائی یا مفاہمت کے ایجنڈے کی بنیاد پر دیکھنے کو ملی۔ مسلم لیگ نون کے اندر شہباز شریف فیکٹر اور بالخصوص مجموعی طور پر ان کے ارکان اسمبلی کی سطح پر ٹکراؤ کے ایجنڈے کی بنیاد پر مفاہمت کا ایجنڈا غالب ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی مجموعی سیاست اور بالخصوص آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی میں کسی بھی سطح پر اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ پیدا کرنا یا نواز شریف کو سیاسی سہارا فراہم کرنا یا اداروں سے ٹکراؤ کے ایجنڈے پر نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسلسل پیپلز پارٹی نے نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے ٹکراؤ کے ایجنڈے سے سیاسی فاصلہ رکھا اور طاقت ور حلقوں کو یہ ہی پیغام دیا کہ ہم نہ تو نواز شریف کے ساتھ ہیں اور نہ ہی ٹکراؤ کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

اب حزب اختلاف کی سیاست میں لانگ مارچ کی سیاست کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم 23 مارچ کو جبکہ پیپلز پارٹی نے 27 فروری کو لانگ مارچ کے اعلان کر کے خود ہی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ جو لانگ مارچ حکومت کے خلاف ہونا تھا وہ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون یا پی ڈی ایم ایک دوسرے کے خلاف کرنا چاہتے ہیں یا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اصل طاقت ہم ہی ہیں اور ہم کو ہی متبادل قیادت کے طور پر لیا جائے۔

جو کوشش مشترکہ لانگ مارچ کی تھی وہ عملی طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ دونوں جماعتوں کی سطح پر لانگ مارچ کے بارے میں وہ سیاسی گرم جوشی نہیں دیکھنے کو مل رہی جو نظر آنی چاہیے تھی۔ مولانا فضل الرحمن، نواز شریف اور مریم نواز کی حالیہ سیاست میں بھی ٹکراؤ کی سیاست کا عنصر کمزور نظر آ رہا ہے اور پارٹی کے سربراہ شہباز شریف پہلے ہی اس لانگ مارچ کے حامی نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ کا حربہ ان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

مولانا فضل الرحمن خیبر پختونخوا کے مقامی انتخابات کے بعد اقتدار کی سیاست کا حصہ بن کر طاقت کے مراکز پر دستک دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی حکومت گرانے سے زیادہ حکومت پر دباؤ ڈال کر طاقت ور حلقوں کی حمایت کا حصول ہے۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اگر وفاقی حکومت گرے گی تو اس کا عملی نتیجہ سندھ حکومت پر پڑے گا جو ان کو قبول نہیں۔

حزب اختلاف کی ایک حکمت عملی ہمیں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ابتدا میں اس کام میں پیپلز پارٹی کی گرم جوشی اور اب مسلم لیگ نون کی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی کنجی اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زیادہ دباؤ حکومت سے زیادہ اسٹیبلیشمنٹ پر ڈالا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کی حمایت سے دست بردار ہو اور اپنی حمایت یا شفقت کا ہاتھ ہم پر رکھے۔

ایک مسئلہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کون وزیر اعظم بنے گا اور کون اس بات کی ضمانت دے گا کہ وزیر اعظم کی تبدیلی کے بعد نیا وزیر اعظم فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کرے گا۔ یہ سوچ کے تبدیلی تحریک انصاف کے اندر سے آئے یعنی عمران خان کے مقابلے میں اسی جماعت کسی اور کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا جائے یہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ بہر حال عمران خان ہی سیاسی حقیقت ہیں اور کوئی ان کا فی الحال متبادل نہیں یا تو وہ ہی حکومت میں رہیں گے یا ان کی حکومت کو ہی بھیجنا پڑے گا۔

اصل میں لانگ مارچ کی سیاست ہو یا تحریک عدم اعتماد یا حکومت گراؤ ایجنڈا بنیادی مقصد حکومت کو دباؤ میں لانا اور ان کو سیاسی طور پر کھڑا نہ ہونے کی حکمت عملی ہے۔ کیونکہ حزب اختلاف کو اندازہ ہے کہ اس وقت جو سیاسی مہم جوئی ہے اس کے ایجنڈے میں حکومت گرانے سے زیادہ خود کو متبادل قوت کے طور پر 2023 کے انتخابات میں پیش کرنا ہے۔

اس وقت حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی مجموعی سیاست 2023 کے انتخابات اور اس کی حکمت عملی سے جڑی نظر آتی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر ہم نے عمران خان کی حکومت کے مقابلے میں خود کو متبادل قوت کے طور پر پیش کرنا ہے تو اس کا بڑا طریقہ کار طاقت کے مراکز کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو طے کرنا ہے۔ لانگ مارچ یا عدم اعتماد کی تحریک بنیادی طور پر حکومت کے خلاف مستقبل کی سیاسی حکمت عملی میں ایک ہتھیار کے طور پر ایجنڈا ہے۔

عوام کو باہر لانا اور ایک بڑی تحریک کا ماحول پیدا کرنا فی الحال حزب اختلاف کے لیے ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اس حوالے سے جو مہنگائی مارچ کیے گئے اس میں بھی حزب اختلاف کوئی بڑا پاور شو نہیں کرسکے۔ اگر لوگ حکومت سے نالاں ہیں تو ان کی امید حزب اختلاف بھی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف بھی سمجھتی ہے کہ لوگوں کو سڑکوں پر لانا ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا اور جو سیاست ہو رہی ہے اسے میڈیا کے محاذ پر گرم کر کے عمران خان کو بھی کمزور کیا جائے اور اسٹیبلیشمنٹ سے بھی کوئی مفاہمت کا راستہ نکالا جائے۔

اس لیے یہ جو بیانیہ کی جنگ تھی یا قانون و پارلیمان کی بالادستی یا ووٹ کو عزت دو سمیت جمہوریت کے جو نعرے ہمیں حزب اختلاف کی سیاست میں دیکھنے کو ملتے ہیں اس کے پیچھے محض سیاسی طاقت کا کھیل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی سیاست سے وہ لوگ جو کل تک نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو ایک بڑی سیاسی جمہوری جنگ کے طور پر پیش کر رہے تھے اب ان کا سیاسی بیانیہ بھی کمزور ہو گیا ہے اور وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ حزب اختلاف بھی جمہوریت کی جنگ میں سنجیدہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments