سٹیٹ بینک ترمیمی بِل 2021 کی منظوری: سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کی غیر حاضری اور حکومت کی برتری زیر بحث

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


'یوسف رضا صاحب اپوزیشن لیڈر ہیں۔ میرے خیال میں ان کو سینیٹ میں ہونا چاہیے تھا۔’

پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر یہ تنقید کوئی اور نہیں بلکہ ان ہی کی جماعت کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکر نے کی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے صرف ایک ووٹ سے سینیٹ میں وہ بل منظور کروا لیا جس سے متعلق اپوزیشن سمیت پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا دعوی تھا کہ وہ اس بل کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین کی اکثریت تھی پھر بھی ایک ووٹ سے حکومت جیت گئی۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بعد میں طنزیہ طور پر کہا کہ ‘پاکستان پیپلز پارٹی اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے سینیٹ میں سٹیٹ بینک بِل منظور ہوچکا ہے۔۔۔’

فواد چوہدری لاہور میں صحافیوں سے سنیچر کے روز بات کر رہے تھے۔

سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود بل کیسے منظور ہوا

یہ موضوع اس لیے اہم ہے کیونکہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں متعدد بیانات میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی سفارشات کے تحت ٹیکسز میں اضافے، اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی اور سٹیٹ بینک ترمیمی بِل کے خلاف بولتی آئی ہیں۔

حکومتی کوششوں کو سینیٹ میں مسترد کرنے کے لیے اپوزیشن کے پاس یہ بہترین موقع تھا جہاں ان کے پاس 99 میں سے 57 سیٹیں ہیں۔ لیکن اس اہم اجلاس میں آٹھ سینیٹرز (پیپلز پارٹی کے دو اور ایم ڈی ایم کے چھ) غیر حاضر رہے اور حتمی کاؤنٹ میں حکومت نے محض ایک ووٹ سے برتری حاصل کرلی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ اپوزیشن کو اندازہ تو تھا کہ دو فروری کو آئی ایم ایف پاکستان کو فنڈ جاری کرنے کے معاملے پر بحث کرے گا۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے جن اصلاحات کی تکمیل کہی گئی تھی، ان میں سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بِل اور مِنی بجٹ شامل ہیں، وہ بھی جلد از جلد منظور کروائے جائیں گے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘ہمیں یہ بالکل اندازہ تھا کہ یہ بِل کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ دو ہفتے پہلے انھوں نے یہ بِل تمام سینیٹ کے ممبران کو بھجوا بھی دیا تھا۔ جب 25 جنوری کو سینیٹ کی کارروائی ملتوی ہوئی کہ جمعہ کو دوبارہ مل سکیں تو ہمیں (یعنی اپوزیشن ارکان کو) 90 فیصد یقین تھا کہ جمعے کو یہ بِل آجائے گا کیونکہ اس کے بعد کوئی تاریخ ہی نہیں بچتی۔’

اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن رہنماؤں کی اکثریت ہونے کے باوجود یہ بل کیسے منظور ہوا۔

مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن ارکان ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، ہم آہنگی نہیں ہے، اگر ہم ایک پیج پر ہوں تو پھر ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت اپوزیشن کو اپنی ساکھ بچانے کا سامنا ہے، حکومت کام نہیں کررہی، اسی طرح تاثر بن رہا ہے کہ اپوزیشن بھی کام نہیں کررہی۔’

سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن سینیٹرز کی غیر حاضری زیر بحث

اپوزیشن کے پاس سینیٹ کی کُل تعداد 100 میں سے 57 ارکان تھے جن کو استعمال کرکے وہ اس بِل کو منظور ہونے سے روک سکتے تھے، جیسا کہ اس سے پہلے وہ متعدد بار دعوی کرتے آئے ہیں۔

حکومت کی عجلت کی مثال یہ تھی کے تعداد مکمل نہ ہونے کے ڈر سے پاکستان تحریکِ انصاف کی ڈاکٹر زرقا سہروردی کو کووڈ ہونے کے باوجود آکسیجن ماسک لگا کر ویل چیئر پر سینیٹ بلایا گیا اور تعداد پوری کی گئی۔

حیران کن طور پر سینیٹ کی اس کارروائی میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی سمیت آٹھ ارکان غیر حاضر رہے۔ جبکہ اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے والے متحرک دلاور خان گروپ نے اپنے چار ووٹ حکومت کو دے دیے۔

اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے درمیان ووٹوں کی تعداد برابر یعنی 43 ہوگئی۔ ایسی صورتحال میں چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کو ووٹ دیا۔

جبکہ ووٹنگ کے اس اہم مرحلے کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر عمر فاروق کاسی اپنی نشست سے اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ جس کے بعد ووٹنگ مکمل ہوگئی اور اپوزیشن بھاری اکثریت ہونے کے باوجود سٹیٹ بینک ترمیمی بِل کو منظور ہونے سے نہ روک سکی۔

‘اپوزیشن کے بیانیے میں یہ قومی سلامتی کا مسئلہ تھا، نجی کاموں سے بہت اہم تھا’

یوسف رضا گیلانی کی غیر حاضری پر بات کرتے ہوئے مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ‘یوسف رضا صاحب اپوزیشن لیڈر ہیں۔ میرے خیال میں ان کو سینیٹ میں ہونا چاہیے تھا۔ نجی مصروفیات ان کی ضرور اہم ہوں گی، لیکن اپوزیشن کے بیانیے میں یہ قومی سلامتی کا ایشو تھا۔ اور اس کے سامنے نجی مصروفیات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔’

دیگر جماعتوں کے ارکان کی غیر حاضری پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کچھ ارکان کے اہم مسائل تھے۔

’جیسا کہ پی پی پی کے سکندر مھندرو امریکہ میں کینسر کا علاج کرانے گئے ہوئے ہیں۔ نزہت صادق صاحبہ کو کینیڈا میں کووڈ ہوچکا ہے، مشاہد حسین کو بھی کووڈ ہوچکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہمارے بندے پورے ہوتے تو ہمیں اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔‘

’عمران خان اور اپوزیشن میں کوئی فرق نہیں رہ گیا‘

صحافی حامد میر اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ سینیٹ میں جو کچھ ہوا وہ ’سب سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘اپوزیشن جماعتوں کو اب اس بات کی فکر نہیں رہی کہ وہ اپنا اعتماد کھوچکی ہیں یا نہیں۔ میری نظر میں عمران خان اور اپوزیشن میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی شہروں میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات افغانستان میں ٹی ٹی پی پر پُراسرار حملوں کا ردعمل ہیں؟

‘بجٹ پہلے سے پاس نہیں ہوچکا، تو پھر یہ مِنی بجٹ کیا ہے؟‘

’پیسے کے بل بوتے پر کامیابی کے خواہشمند‘ بلوچستان کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

انسانی حقوق کی کمیٹی حکومتی سرابراہی میں: ’اب متاثرین کی آہوں کے مجرم ہم بھی ہوں گے‘

28 جنوری کو سینیٹ میں بِل کی منظوری کے دوران حامد میر بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ شیری رحمان ارکان پورے کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں اور انھوں نے یوسف رضا گیلانی سے جب رابطہ کیا تو یوسف رضا گیلانی نے انھیں بتایا کہ وہ اس وقت ملتان میں موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کا پسِ منظر بھی کچھ یوں ہے کہ جہاں دیگر اپوزیشن جماعتیں اسمبلی سے مستعفی ہونا چاہتی تھیں، وہاں پیپلز پارٹی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اب دو مختلف دنوں پر لانگ مارچ ہو رہا ہے۔‘

ملانا فضل الرحمان 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کرچکے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ 27 مارچ کو لانگ مارچ کرے گی۔

حامد میر کا کہنا ہے کہ ’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بلاول کو یوسف رضا گیلانی کے خلاف لانگ مارچ کرنا چاہیے اور مولانا فضل الرحمان طلحہ محمود کے خلاف لانگ مارچ کریں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں ہیں جتنا اپوزیشن نے سمجھا ہوا ہے۔’

‘دلاور خان گروپ کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا ہے’

سینیٹ میں اپنے ارکان کی غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ مصطفی نواز نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دلاور خان گروپ کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلیا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کو اب باقاعدہ طور پر خیر باد کہنے کا وقت آگیا ہے۔‘

دلاور خان گروپ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی وابستگی کا پسِ منظر یہ ہے کہ مارچ 2021 میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سینیٹ انتخاب میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ نواز چنے گی اور چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑنے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو آگے کیا جائے گا۔

لیکن جب یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ انتخاب ہار گئے اور پیپلز پارٹی کے پاس اپوزیشن لیڈر کے تحت یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرنے کے لیے تعداد پوری نہیں تھی، تب پیپلز پارٹی نے دلاور خان گروپ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان سے ووٹ لیے تھے۔

واضح رہے کہ اُس وقت سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے یوسف رضا گیلانی کو بطور اپوزیشن لیڈر ووٹ نہیں دیا تھا۔ جس کے لیے پیپلز پارٹی نے دلاور خان گروپ سے تعداد پوری کرنے کے لیے مدد مانگی اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور یوسف رضا گیلانی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر منتخب ہوئے۔

لیکن دلاور خان گروپ نے سٹیٹ بینک بِل کی ووٹنگ کے دوران اپنے چار ووٹ حکومت کو دے دیے، جس کے نتیجے میں اب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی کھوکھر ان کو ‘خیر باد’ کہنے کا سوچ رہے ہیں۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ہے کہ اپوزیشن اپنی اکثریت کا بروقت استعمال نہ کرسکی ہو۔ اس سے پہلے جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کا معاملہ تھا تب بھی اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن ناکام ہوگئی۔

پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے دوران بھی اپوزیشن اپنی اکثریت کا فائدہ نہ اٹھا سکی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے بِل کی منظوری بھی اسی طرز کا ایک اور معاملہ ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان

سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کیا ہے؟

اس بِل کو منظور کرانے کا پسِ منظر یہ ہے کہ نومبر 2021 کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب ڈالرز دیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ اس فنڈ کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ان تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی تکمیل کرنا پڑے گی جو چھ ارب ڈالرز کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی یعنی ای ایف ایف کے لیے ضروری ہیں۔ اسی لیے حکومت کے لیے ٹیکس کی چھوُٹ ختم کرنا اور بجلی کی قیمتوں میں حکومتی ڈیوٹی کو زیادہ کرنا ضروری ہے۔

ان خصوصی عوامل کی تکمیل میں سٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 کا منظور ہونا بھی شامل ہے، جس کے ذریعے موجودہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں اسمبلی کے ذریعے تبدیلیاں لائی جائیں گی۔

ساتھ ہی پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کے اُس قرضے کا حساب بھی دینا ہوگا جو پاکستان کو اپریل 2020 میں کووڈ وبا سے بچاؤ کے لیے دیا گیا تھا۔

واضح رہے کے اس فنڈنگ پروگرام کی بنیاد جولائی 2019 میں رکھی گئی تھی، جو 2021 کے شروع میں قانون سازی کی اصلاحات مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر آگے نہ بڑھ سکی۔

سٹیٹ بینک آرڈیننس میں ترمیم کا پسِ منظر یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے کردار کو سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 کے تحت واضح کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس میں کئی بار تبدیلیاں اور ترامیم کی گئی ہیں۔

ان میں سے چند خاصی واضح تبدیلیاں 1994، 1997، 2012 اور 2015 میں کی گئی ہیں۔ حکومتی ارکان کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ سٹیٹ بینک کے طریقہ کار میں جدت لائی جائے اور عالمی بینکوں کے اصولوں کے مطابق کام کرسکے۔

اس کو مِنی بجٹ کا نام دراصل اپوزیشن جماعتوں نے ہی دیا ہے۔ وزیر برائے خزانہ شوکت ترین نے اسے حال ہی میں اسمبلی میں پیش کیا اور اس کا نام مالی ضمنی بِل یعنی فنانس سپلمنٹری بِل بتایا۔ لیکن اپوزیشن نے اس بِل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مِنی بجٹ کا نام دیا۔

اس بِل کے تحت پاکستان میں جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ تھی وہ ہٹا دی جائے گی۔ ایسا کرنے کے پیچھے حکومت یہ منطق بتارہی ہے کہ آئی ایم ایف کا فنڈ حاصل کرنے کے لیے چند اصلاحات کی تکمیل لازمی ہیں جن میں سے ایک ٹیکسوں میں چھوٹ کا خاتمہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments