فیشنوں میں سب سے مہنگا سادگی کا فیشن


اہم شخصیات جب سادگی اختیار کرتی ہیں تو اسے برقرار رکھنا، عیاشی سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہو جاتا ہے۔ سکیورٹی کا معاملہ ہو یا ان کے طرز زندگی کا، یہ مسئلہ کچھ پیچیدہ ہی ہو جاتا ہے۔

برصغیر میں مہنگی سادگی کی ایک مثال موہن داس کرم چند گاندھی کی بھی دی جاتی ہے، جن کا طرز زندگی انتہائی سادہ تھا تاہم کچھ حلقوں کے مطابق اسے برقرار رکھنے پر کافی خرچہ آتا تھا۔ اس بارے میں حقیقت کیا ہے واللہ اعلم لیکن مہنگی سادگی والا مفروضہ ہے قابل غور۔

اس کی کچھ مثالیں آج کے پاکستان میں بھی ملتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہمارے ہاں ایک سیاست دان کی سادگیوں کے ڈنکے چاروں اور پِیٹے گئے۔ زندگی میں پہلی اور آخری بار وزارت کا قلم دان ملا تو ان کی سادگی سِوا ہو گئی۔ فیصلہ کیا کہ میں سرکاری گاڑی پر دوسرے شہر کا سفر نہیں کروں گا۔

وزارت کے آخری دن تک ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر وہ مسافر بسوں میں کرتے رہے۔ بس میں سوار ہونے سے پہلے ہی ان کی سرکاری گاڑی اگلے شہر کے لیے خالی ہی روانہ ہو جاتی تھی۔ وزیر صاحب سٹیشن پر پہنچتے تو سرکاری گاڑی انہیں ریسیو کرنے پہلے ہی پہنچی ہوتی تھی۔ اسی ترتیب کے ساتھ پیا جی کی سواری واپس آیا کرتی تھی۔

ہمارے ایک اور سیاست دان جب دوسری بار وزیر اعلی بنے تو انہیں سادگی والا غرور اپنانے کا شوق چڑھ آیا۔ کچھ تو یہ ان کا اپنا شوق تھا کچھ یہ ہماری سیاست میں در آنے والے کچھ نئے نعروں کا دباؤ بھی۔

اکثر شہر میں کہیں مہنگائی کا جائزہ لینا ہوتا تو وہ کسی “انجانے” موٹر سائیکل سوار کے ساتھ بیٹھ کر نکل جایا کرتے۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ منہ پھاڑ سر جھاڑ گھر سے باہر نکلے ہیں اور موٹر سائیکل والے سے لفٹ مانگ کر چل پڑے ہیں۔

ہوتا مگر یہ تھا کہ نکلنے سے پہلے تین اطراف سے آنی والی ٹریفک روکی جا چکی ہوتی تھی۔ کیمرے والے دستے سڑک پر جابجا تعینات کر دیے جاتے تھے جبکہ پولیس کا آدھا دستہ وزیر اعلی صاحب کی موٹر سائیکل سے آدھا کلو میٹر پیچھے ہوتا تھا اور آدھا دستہ ہیلی کاپٹر سمیت متعین بازار پہنچ چکا ہوتا تھا۔

بازار میں مہنگی اشیاء فروخت کرنے پر ریڑھی بانوں کو جھاڑ پلا کر وہ واپس ہیلی کاپٹر کی طرف لوٹتے تو واپسی پر نہ ٹریفک رکتا، نہ پولیس کا لشکر جمع ہوتا، نہ بھگدڑ مچتی، نہ خلقِ خدا کو تکلیف ہوتی اور نہ اضافی اخراجات صرف ہوتے۔

خیبر پختونخوا میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو وزیر اعلی صاحب نے وزیر اعلی ہاوس میں بیٹھ کر کام کرنے سے انکار کردیا۔ اسے وہ اپنی پارٹی کے سیاسی نعروں اور دعوؤں کے خلاف سمجھتے تھے۔

انہوں نے بوریا بستر اٹھایا اور حیات آباد منتقل ہوگئے۔ اب جب معاملات چلے تو ایک ماہ میں اندازہ ہوگیا کہ جس کام پر عیاشی والے دنوں میں دس روپے لاگت آتی تھی سادگی والے دنوں میں اس پر پچاس روپے کی لاگت آرہی ہے۔

لوگوں کی تکلیف میں جو اضافہ ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ یہ صورتِ حال گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گئی کہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔ وزیر اعلی صاحب نے عافیت اسی میں جانی کہ رات کے اندھیرے میں قلمدان اٹھاؤ اور چپ چاپ واپس وزیر اعلی ہاوس پہنچ جاؤ۔

یہی معاملہ تب پیش آیا جب موجودہ حکومت نے کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لیے نمائشی فیصلہ کیا کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے کام کرنے کی بجائے ہم منسٹر کالونی میں قلم دان لگائیں گے۔

بڑی لے دے کے بعد بتایا گیا کہ شہنشاہ! منسٹر کالونی کوئی عرب کا صحرا تو نہیں ہے کہ ہم منہ اٹھا کر جائیں گے اور خیمہ بستی بسالیں گے۔ وہاں بھی اس طرح ہی جایا جا سکتا ہے کہ تمام وزراء کے گھر گرا دیے جائیں اور ایک نیا وزیر اعظم سیکرٹریٹ اُگا لیا جائے۔

مگر ذہن میں رہے کہ نئے سیکرٹریٹ کا رقبہ پرانے والے سے زیادہ نہ بھی ہوا تو کم ہر گز نہ ہو گا۔ یہاں بھی وہی نگلی جائے نہ اگلی جائے والی صورت حال ہوگئی۔ چنانچہ شہنشاہوں نے ہونٹوں پر زِپ چڑھائی اور چپ چاپ وہیں بیٹھ گئے۔

بات چل نکلی ہے تو سنتے جائیں کہ وزیر اعظم صاحب کو اپنے دیے ہوئے نعروں کے حساب سے سائیکل پہ دفتر آنا جانا تھا، مگر حقیقتِ حال کا سامنا ہوا تو اندازہ ہوا کہ سائیکل چھوڑ یہاں تو رکشے ٹیکسی یا کریم و اوبر پر بھی آنا جانا کیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ چنانچہ طے ہوا کہ پچھلوں کی طرح یہ والے وزیر اعظم بھی ہیلی کاپٹر میں آمد جامد کیا کریں گے۔

جن سادگیوں کی لاگت وزرا کی سوچ سے بھی زیادہ نکلی ہے وہ والی سادگیوں سے تو وہ کسی حد تک دستبردار ہو گئے ہیں۔ مگر جو سادگیاں عیاشیوں کے مقابلے میں دس بیس فیصد مہنگی ہیں وہ برابر جاری ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ اسلام آباد میں ہمارے علاقے کے آجو باجو اچانک پروٹوکول کی ایک آندھی آ گئی، کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا۔ ہم نے وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف کو بیسیوں بار یہاں سے گزرتے دیکھا ہے مگر ایسی دھول اڑتے ہوئے تو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

عمارتوں پر مسلح دستے، چوک چوراہوں پر ناکے، سڑکوں پر تاؤ کھائے ہوئے چاق و چوبند ہرکارے۔ جس راستے پہ موڑ کاٹو وہ آگے سے بند۔ بھئی یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ جس سے پوچھو وہ ایک ہی جواب دے، کچھ نہیں پتہ اوپر سے حکم آیا ہے۔

دو گھنٹوں کی مسلسل اذیت کے بعد ناکے اٹھ گئے اور مسلح دستے گھِچ پِچ ٹریفک کو خدا کے حوالے کرکے نکل گئے۔ اس ٹریفک کو سدھرتے سدھرتے ایک گھنٹہ مزید لگ گیا۔

ابھی ہم سڑک پر ہی رسوائی کاٹ رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو گئی۔ ویڈیو دیکھی تو رسوائی کا سبب بھی معلوم ہو گیا۔ ویڈیو کا کیپشن تھا، وزیر اعظم گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے بغیر پروٹوکول کے عوام کے بیچ پہنچ گئے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments