بسنت کا قتل اور خود راستی کا جن


جنوری اور فروری کی صبحوں اور شاموں میں لاہور کا افق کسی ماہر کشیدہ کار کے لاجواب فن کا منظر پیش کرتا تھا جب تا حد نظر آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سجا ہوتا۔ ہمارے لئے اپنے بچپن کے لاہور کا تصور بسنت کے خیال کے بغیر لانا ناممکن ہے۔۔۔ یہ کیسے ہو کہ جنوری کے بعد فروری بھی گزر جائے اور ہاتھوں پر ڈوروں کے کٹ کے نشان نہ ہوں اور گلا بو کاٹا کے فلک شگاف نعروں کی تکرار کی بدولت خراش زدہ نہ ہو؟ بسنت محض تہوار نہیں ہے، یہ ہماری طرز زندگی کا اظہار ہے، تہوار یوں ہی محض کسی مذہب سے جنم نہیں لے لیتے، ورنہ بسنت صرف لاہور ہی کی کیوں مشہور ہو؟ گڈیوں کے پیچ، مخالف کو نیچا دکھانا، ڈھول ڈھمکا، تیاریاں، لاہوری زندہ دل ہیں تو تہوار بھی تو زندہ دلی کا نمونہ ہوگا۔۔۔ لاہوریوں کے لئے اصل عید کا دن تو یہ ہوتا تھا، لوگوں سے ملنا، دور دور سے لوگوں کا سیاحت کی غرض سے آنا، یہ عید خالص ثقافتی عید تھی، اس میں کوئی تصنع نہیں تھا، کوئی حکم نہیں تھا خوش ہونے کا، یہ خوشی خود بہ خود یوں پھوٹتی تھی جیسے آتش دان کے گرد مکئی کے بھٹے پھوٹتے ہوئے سرشاری سے ایک موسیقی ترتیب دیتے جاتے ہیں اور چہار سو خوشبو پھیل جاتی ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ہم پر خود راستی کے جن نے قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ بڑے بڑے مناروں پر لگے لاوڈ سپیکروں کے پرنالوں سے ڈھیروں کے حساب سے وعظ گرنے شروع ہوگئے۔ یوں لگا کہ پاکستان کے شاندار مستقبل میں بڑی رکاوٹ بسنت کا کافرانہ تہوار ہے۔ کوئی کافرانہ ثابت نہ کر پاتا تو بتایا جاتا کہ اس کھیل کا شمار لغویات میں شمار ہوتا ہے۔ کرکٹ ابھی تک مفید شغل شمار ہوتا ہے۔ پھر اس پر بھی بس نہ چلا تو ہر بسنت کے اگلے دن اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں لگنے لگیں کہ لاہوریوں نے اتنے ارب ہوا میں ‘اڑا’ دیے۔۔ بسنت پر ہونے والے ‘ہوشربا’ خرچے کو جغادری ‘معیشت دانوں’ نے ‘معیشت’ کا نقصان قرار دینا شروع کر دیا۔ ہمیں یہ وعظ سننے کو ملنا شروع ہوگئے کہ یہی پیسہ اگر کسی غریب کو دے دیا جاتا تو کتنا فائدہ ہوتا۔ یہ جانے بغیر کہ معیشت کی حرکیات کیا ہوتی ہیں، سرمایہ ایسی سرگرمی سے کیسے حرکت میں آتا ہے، سیاحت کو کیسے فروغ ملتا ہے اور ایسی مثبت سرگرمیاں کیسے ملک میں سرمایہ کاری کی آمد میں ممد ثابت ہوتی ہیں، ہمیں فضول خرچی کے خلاف نصائح سنائے جاتے۔ پھر ہمیں بتایا جاتا کہ بار بار بجلی جانے سے لوگ کتنی تکلیف میں مبتلا ہیں، کتنے لوگوں کو اس سے نقصان ہوگیا، کہاں کہاں بچے چھتوں سے گرنے لگے اور اس سب کا نمبر شمار کر کے یہ لوگ بسنت کے کھاتے میں ڈالنا شروع ہوگئے۔۔۔ مگر اس سب کی تان یہاں آکر ٹوٹی جب موٹر سائکلوں کی بہتات کے بعد دھاتی ڈوروں کی وجہ سے لوگوں کے گلے کٹنے شروع ہوئے۔۔ اس سب کی وجوہات جانے بغیر اور ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر تمام آبادی کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اور نااہل انتظامیہ کی کوتاہیوں کو بھی بسنت کے کھاتے ڈال کر اب کہا جانے لگا کہ اس خونی تہوار سے لوگوں کے گلے کٹ رہے ہیں۔۔۔ یہ سب ان اخباروں میں چھپتا جن میں خود کش حملوں کے جواز کے فتوے موجود ہوتے، جہادی بھائیوں کی نئی نئی یلغار سے جب لوگوں کی جانیں جاتیں تو جہادی بھائیوں کے غصہ کی وجوہات بھی بیان کی جاتیں۔۔۔ یہی لوگ ایک آواز سے قتال کے جواز اور دوسری آواز میں بسنت کو قاتل کہہ رہے ہوتے۔۔ درحقیقت ایک باقاعدہ مہم کے تحت بسنت کے تہوار کا قتل کیا گیا۔۔۔

اس پر بعد میں گفتگو کرتے ہیں کہ بسنت پر ہونے والے جانی نقصان کی وجوہات کیا ہیں، پہلے آپ ایک تجربہ کیجئے، کسی بھی بسنت کے پر جوش مخالف سے پوچھئے کہ کیا وجہ ہے کہ بسنت کا تہوار دوبارہ بحال نہ ہو؟ آپ کو اس تہوار کے خلاف گھسا پٹا جواب ملے گا کہ یہ خونی تہوار ہے اور لوگوں کے گلے اس کی وجہ سے کٹتے ہیں۔ آپ اس پر جب حل تجویز کریں گے تو دوسرا رد عمل ہوگا کہ حکومت اس قابل نہیں کہ ایسے کسی حل پر عمل در آمد کر پائے، آپ بتائیں گے کہ فلاں فلاں آسان اقدامات سے اموات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے جن پر نااہل حکومتی مشینری بھی آسانی سے عمل درآمد کروا سکتی ہے نیز زیادہ تو ایسے ہیں جن میں عوام کو حفاظتی اقدامات کا شعور دے کر اموات کو ٹالا جاسکتا ہے۔ آپ اس پر بس گفتگو کو تھوڑا سا طول دیجئے، بلی آپ ہی تھیلے سے باہر آجائے گی۔ ’مگر کیا ضرورت ہے اس کافرانہ تہوار کو بحال کرنے کی، اسلامیان ہند نے قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان اس لئے تو نہیں بنایا تھا کہ یہاں ہندوؤانہ تہوار منائے جائیں۔۔۔‘ لو جی کر لو گل۔۔۔ پھر اتنا تردد کیوں۔۔۔ سیدھا سیدھا بولیں نا کہ آپ کو تہوار پر ہی اعتراض ہے، اس کے نتائج سے نہیں، آپ کو خوشی سے نفرت ہے، آپ کو پھول ہی پسند نہیں، آپ اتنا گھما پھرا کر کیوں بولتے ہیں۔۔۔

پنجاب پر جس خاندان کی حکومت ہے اس نے اس صوبے کو جدہ بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ کوئی سڑک نہیں بنتی اور یہ وہاں مقامی درخت اکھاڑ کر کھجور گاڑ دیتے ہیں یہ جانے بغیر کہ اس سے مقامی ماحولیات کو کتنا نقصان ہوگا۔ امیر المومنین تو بن نہیں سکے، حالات کے ہاتھوں اب متوازی قوتوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے اور بظاہر تو کہتے ہیں کہ متوازن اور ترقی پسند بیانیہ کو فروغ دیں گے، لبرل جمہوریت کو ملک کا مستقبل قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ شدت پسند بیانیے کی وجہ سے ہمیں شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بیانیہ کے پرچارکوں نے ابھی محض مجبوراً پسپائی اختیار کی ہے، یہ ختم نہیں ہوا، اس بیانیہ کو فروغ دینے والی قوتیں ابھی ہنوز اقتدار میں ہیں، اور ریاستی اداروں میں سے جن قوتوں نے اس سب دیوانہ پن کی پرورش کی ہے وہ بھی صحیح سے سبق سیکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ بسنت پر پابندی کا برقرار رہنا تو محض ایک نشانی ہے اس بات کی کہ ابھی ہم نے ہر شے کو خود ساختہ مذہبی شناخت کی عینک سے دیکھنا بند نہیں کیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments