ڈرامے میں عورت مظلوم بھی اور صنف آہن بھی


حال ہی میں عمیرہ احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ ”ہم کہاں کے سچے تھے“ ختم ہوا۔ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی تھی جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ظلم اور زہریلی ازدواجی زندگی کا شکار تھی۔ مظلوم لڑکی اور زہریلے مرد کی کہانی پر مبنی یہ ایک اور سٹیریو ٹائپ ڈرامہ تھا۔ اس وقت جیو ٹی وی پر ماہا ملک کا تحریر کردہ ”اے مشت خاک“ جاری ہے۔ اس میں بھی ہیرو ایک زہریلا، وحشی، اور آوارہ لڑکا ہے جو مذہبی رجحان رکھنے والی لڑکی سے شادی کا خواہش مند ہے۔

یہ لڑکا ایک منظر میں انتہائی وحشیانہ طریقے سے اپنی گرل فرینڈ کا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کرتے وقت اس انسان نما جانور کی آنکھیں حلقوں سے باہر ابلنے لگتی ہیں۔ یہ کردار فیروز خان نے ادا کیا ہے جو کچھ عرصہ قبل شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ مگر یہ معاملہ صرف اعلان تک ہی محدود رہا۔ موصوف نے اس دوران کافی شد و مد سے ”اسلامی“ ہو جانے کی تشہیر کی تھی۔ لیکن اب حیرت انگیز طور پر اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مذکورہ ڈرامے میں جناب ایک بالکل متضاد کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کہانی کو دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہبی رجحان کی حامل لڑکیوں نے وحشی اور زہریلے مردوں کی اصلاح کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ اس کا سادہ جواب ہے : نہیں۔

معمول کی ان کہانیوں کے ساتھ ساتھ اے آر وائی پر ”صنف آہن“ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس ڈرامے میں اسلام آباد، کراچی، اور لاہور کے علاوہ خیبر اور بلوچستان جیسے قدامت پرست صوبوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو پاکستانی فوج میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنے گھریلو حالات اور خاندانی و ثقافتی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پیشہ ورانہ کامیابیاں حاصل کرتی نظر آتی ہیں۔ اس میں جنرل نگار کا بھی ذکر ہے جو جنرل کے اعلیٰ عہدے پر پہنچنے والی اولین خاتون پاکستانی فوجی ہیں۔

”صنف آہن“ کو بھی عمیرہ احمد نے تحریر کیا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہماری خواتین ڈرامہ نگار مضبوط نسوانی کردار تخلیق کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمارے پروڈیوسرز اور ہدایت کار بھی منفرد اور مختلف کہانیوں کو سکرین پر خوبصورتی سے پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ”میرے پاس تم ہو“ کے ہدایت کار اور پروڈیوسر ندیم بیگ اور ہمایوں سعید تھے۔ ”صنف آہن“ بھی انہی دونوں کی کاوش ہے۔

ایسی مثبت اور مضبوط کہانیوں کو عوام میں بھی قبولیت اور پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی مثال ہم ٹی وی کے یہ چند ڈرامے ہیں : سنگ مرمر، نظر بد، خاص، عشق زہے نصیب، مشک، رقیب سے، رقص بسمل، پہلی سی محبت، پری زاد، دوبارہ، سنگ ماہ وغیرہ۔ اگرچہ ان ڈراموں میں بھی نسوانی، ازدواجی، اور معاشرتی مسائل دکھائے گئے لیکن عورت کا رونا پیٹنا اور کمزوری عام کہانیوں کی طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کی گئی، بلکہ نسوانی مسائل اور مشکلات کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا گیا۔ حتی ٰ کہ ان میں سے متعدد کہانیوں میں خواتین کی جد و جہد بھی شامل ہے جو وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے کرتی ہیں۔

بدقسمتی سے کامیابی اور پسندیدگی ملنے کے باوجود ایسی کہانیوں کی تعداد تقریباً تیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ بقایا ستر فیصد میں وہی ازدواجی مسائل؛ محبت کی مثلث؛ کمزور لڑکی یا عورت جو غلط فیصلے کرتی اور زہریلے مرد کو چھوڑنے کی جرات نہیں کر پاتی؛ لالچی، بے وفا، اور منفی جو آخر میں ذلیل و خوار ہوتی ہے مثلاً ”میرے پاس تم ہو“ کی مہوش وغیرہ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ناظرین مضبوط نسوانی کرداروں والی کہانیوں کو سراہتے ہیں تو پھر ڈرامہ نگاروں اور چینلز کے اس منجن، کہ لوگ بالخصوص خواتین، مظلوم عورت کو دیکھنا پسند کرتے ہیں، کی کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ مظلوم عورت کا کردار بالخصوص محبت کی مثلث لکھنے اور بنانے میں کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ پہلے سے آزمودہ فارمولے کے مطابق لکھنا آسان ہوتا ہے۔ دوچار کہانیوں کے کرداروں اور conflicts کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ لکھنا تو اور بھی سہل ہے۔ اسی لئے تو بھابی اور دیور یا جیٹھ، سالی اور بہنوئی، اور دو بہنوں کا کسی ایک ہی شخص کو پسند کرنا؛ مرد کا ضدی اور وحشی ہونا ہمیں کئی ڈراموں میں اور بار بار نظر آتا ہے۔ لیکن اب سوشل اور ویب میڈیا پر مظلوم نسوانی کرداروں پر تنقید جبکہ منفرد اور با اختیار نسوانی کرداروں کی تعریف کی جاتی ہے۔ ”اے مشت خاک“ کے مذکورہ بالا مناظر پر لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ تنقید ڈرامہ نگاروں اور پروڈیوسرز کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرتی ہے۔

عورت مظلوم ہو یا صنف آہن، دونوں ہمارے معاشرے کی حقیقت ہیں لیکن ٹی وی سکرین پر ایک کی عکاسی ستر فیصد ہے اور دوسری کی تیس فیصد۔ سکرین پر پیش کی جانے والی اس غیر منصفانہ اور کافی حد تک غیر حقیقی تصویر کشی کے ہمارے معاشرے اور رویوں پر کیا اثرات ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ البتہ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ”صنف آہن“ کی پشت پر آئی ایس پی آر جیسے بڑے حکومتی ادارے کا نام ہے۔ ہمارے ملک کے دیگر بڑے حکومتی اداروں کو بھی اسی طرز پر ایسی کہانیوں کو سپانسر کرنا چاہیے جو معاشرے کی مختلف، منفرد، اور مثبت تصویر پیش کرے۔ اس سلسلے میں کشف فاؤنڈیشن این جی او کی کاوشیں بھی قابل تعریف ہیں جس نے غیر سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیم ہونے کے باوجود معاشرتی مسائل پر مبنی ڈرامے پیش کیے۔ ان میں رہائی، اڈاری، اور دل نا امید تو نہیں شامل ہیں۔

جس طرح آئی ایس پی آر نے اپنی بہادر خواتین کی جد و جہد سکرین پر پیش کی ہے، اسی طرح دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کی زندگی کے مثبت پہلوؤں کو پیش کیا جانا چاہیے مثلاً ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اساتذہ، کھلاڑی، فنکار وغیرہ۔ کہانیاں صرف گھریلو یا محدود قسم کے معاملات پر ہی کیوں بنیں؟ سٹیریو ٹائپ معاملات سے بہت کھیل لیا، اب ہمارے ٹی وی چینلز کو اپنی روش بدلنی چاہیے۔ اور حکومتی اداروں کو بھی اس معاملے میں اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سکرین پر اپنے لوگوں کی کہانیاں دکھانی چاہئیں۔ جس طرح پاکستان ملٹری اکیڈمی کا ماحول اور کام کا طریقہ کار ”صنف آہن“ میں دیکھنے کو ملا ہے، اسی طرح دیگر اداروں کی کہانیاں بھی سکرین کی زینت بنیں تو یہ ایک بڑی اور مثبت تبدیلی ہو گی۔

ہماری عورت جس جس شعبے میں بھی خدمات انجام دے رہی ہے، وہاں متعلقہ حکومتی اداروں کو آگے بڑھ کر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ عورت زندگی کے تمام تر مسائل کے باوجود اپنی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ کردار جسے نمایاں کرنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments