آخر بدکردار کون


یہی گرمیوں کا موسم تھا، جب فرقان اور شائستہ کا نکاح ہوا۔ فرقان اور شائستہ دونوں اس دن بڑے خوش تھے کیوں کی دونوں ایک دوسرے کو بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن رخصتی کو فل وقت تاخیر کی نظر ہونا پڑا، کیوں کہ فرقان چاہتا تھا کہ کم ازکم وہ اس قابل ہو جائے کہ شائستہ کو ایک اچھی اور خوب صورت زندگی دے سکے۔ اس سلسلے میں فرقان کو ایک اچھی نوکری کے لیے کافی شہروں کی خاک چھاننی پڑی۔ مگر بمشکل اسے ایک پرائیویٹ کمپنی میں ایک کلرک کی نوکری میسر ہو سکی۔

مگر یہ نوکری فرقان کی خواہش کے مطابق نہ تھی اور دوسرا یہ کہ اس بارہ تیرہ ہزار کی تنخواہ سے اسے کوئی امید نہیں تھی کہ اس سے اس کی زندگی کہیں بہتر ہو پائے گی۔ ادھر شائستہ بھی اس بات کو لے کر کافی پریشان ہو جاتی کہ فرقان کو اب زندگی کس موڑ پر لا کھڑا کرے گی۔ فرقان اور شائستہ کی فون پر تقریباً ہر روز گھنٹہ آدھ گھنٹہ آنے والی زندگی کو لے کر گفتگو ہوتی مگر حسب معمول کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتے۔

نکاح کے بعد فرقان کا اپنے گاؤں کا پانچواں چکر تھا۔ آتے ساتھ ہی فرقان نے اپنا بیگ کندھے سے اتار کر صحن میں بنی پھولوں کی کیاری کے پاس پٹکا اور بلبلا اٹھا کہ حالات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس سال کوئی ایسا ٹیسٹ بھی پاس نہ ہوسکا کہ اچھی نوکری ملے۔ اور اب اگلی نوکری کے ٹیسٹ بھی دو سال بعد آئیں گے۔ اس لئے اسے اگلے دو سال تک کوئی صورت نظر نہیں آ رہی کہ اپنے حالات کو بہتر کر سکے۔ اگلے روز اس نے شائستہ کو اس کے گھر کے ساتھ لگی بوہڑ کے نیچے ملنے کو کہا۔

شائستہ وقت پر پہنچی ہوئی تھی۔ مگر فرقان پانچ دس منٹ دیر سے پہنچا اور اس کے چہرے پر بے چینی کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے تو شائستہ بھی گھبرا سی گئی۔ فرقان نے سارے حالات کی ایک بار پھر روداد پیش کی، مگر اس پر شائستہ پہلے تو خود گھبرا گئی مگر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے فرقان کو حوصلہ دیا کہ تم فکر مت کرو، کوئی نہ کوئی اچھی صورت ضرور نکلے گی۔ شائستہ نے اسے مزید حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ”فرقان تم فکر کیوں کرتے ہو، ہم دونوں مل بانٹ کر گزار کر لیں گے۔ تم میرے پاس ہوں گے تو مجھے کسی اور چیز کی ضرورت کیونکر ہوں گی“

لیکن اس پر فرقان نے کہا ”تمہیں یہ باتیں کبھی نہیں سمجھ آئیں گی، تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں کن حالات سے گزر رہا ہوں۔“

” اب چھوڑو بھی ان باتوں کو، یہ بتاؤ میں آج کیسی لگ رہی ہوں“
” ٹھیک ہی لگ رہی ہوں“

” زبردستی تعریف کرنے کو نہیں کہا اور یہ اتنا تکلف والا لہجہ، اور یہ تمہاری نظر آج کہیں ٹھہر کیوں نہیں رہی۔ جب سے آئے ہو، دائیں بائیں دیکھے جا رہے ہو۔ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو۔“

” نہیں نہیں ایسی بات نہیں“

”اچھا ٹھیک ہے اب میں چلتی ہوں، مجھے دیری ہو رہی ہے۔“ شائستہ کے جانے کے بعد کچھ لمحے کے لئے فرقان وہی کھڑا کچھ سوچتا رہا۔ پھر اپنے گھر کی طرف کچھ سوچتے ہوئے روانہ ہوا مگر گھر واپسی پر بھی فرقان کی وہ بے چینی کم نہ ہو سکی جو اسے جاتے وقت تھی۔

رات تقریباً گیارہ بجے تک فرقان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا رہا مگر ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے یہ کہہ کر اٹھ آیا کہ اسے دن بھر تھکاوٹ کی وجہ سے سخت نیند نے گھیر لیا ہے۔ مگر اس نے وہاں سے سیدھا شائستہ کے محلے کا رخ کیا اور اسی بوہڑ کے نیچے کھڑے ہو کر جہاں وہ دن کو شائستہ سے ملا تھا، کافی دیر کھڑا کچھ سوچتا رہا۔ پھر شائستہ کو میسج کیا کہ میں بوہڑ کے پاس کھڑا ہو۔ جلدی آؤ تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ کچھ دیری کے بعد گھبرائی ہوئی شائستہ نمودار ہوئی۔ شائستہ کے ساتھ مختصر بات ہوئی اور پھر کچھ دیر کے بعد شائستہ اپنی قمیص کو ٹھیک کرتے ہوئے ایک بے چینی کی سی کیفیت کے ساتھ اپنے گھر طرف روانہ ہو گئی۔ جبکہ فرقان کی بے چینی دور ہو چکی تھی اور اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں۔

کچھ عرصے بعد شائستہ کو جب معلوم پڑا کہ وہ حاملہ ہو چکی ہے تو پہلے تو اسے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ پھر فوراً اس نے فرقان کو میسج کیا کہ شاید اس کے پاس اس مسئلے کا حل ہو، کیوں کہ اس مسئلے میں اس نے ہی نکاح کا جھانسا دے کر اسے اس میں دھکیلا تھا۔ مگر تین چار گھنٹوں تک اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اب کی باری شائستہ نے کال کرنا شروع کر دی۔ کال پر کال جا رہی تھی مگر مجال ہے فرقان نے کال کو موصول کیا ہو۔

تقریباً شام کے ساڑھے سات بجے فرقان نے شائستہ کو کال بیک کی۔ شائستہ کا میسج پہلے پہل تو اسے مذاق لگا مگر اتنی کالیں فرقان کے لئے پریشانی کا باعث تھیں۔ فرقان نے کال بیک کی تو معلوم پڑا کہ یہ اس نے اس دن کیا غلطی کر دی تھی اور اسے جب یہ بات پتا چلی کہ شائستہ نے مارے گھبراہٹ کے یہ بات اپنے گھر والوں کو بھی بتا دی ہے تو فرقان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔

” ارے پگلی! گھر بتانے کی کیا ضرورت تھی“
” اور کیا کرتی، تم بھی تو فون نہیں اٹھا رہے تھے“
”ہماری تو عزت دار فیملی ہے، ہماری کیا عزت رہے گی“
” میں لڑکی ہوں، میرا سوچو میری کیا رہے گی اور خاندان والے تو ساری عمر طعنے دے دے کر مار دیں گے“
تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی ایک دم خاموشی۔ پھر فرقان نے اس خاموشی کو تھوڑا۔
” یہ میرا بچہ ہے ہی نہیں“
” فرقان تم ہوش میں تو ہو، کیا کہہ رہے ہو۔ تم اپنی عزت بچانے کی خاطر سارا الزام مجھ پہ دھر رہے ہو۔“
” میں کہہ رہا ہوں کہ یہ میرا بچہ ہے ہی نہیں“
” فرقان، تم نے ہی کہا تھا کہ ہمارا نکاح ہو چکا ہے، خیر ہے“
” لیکن میرا یہ بچہ ہو ہی نہیں سکتا“
” کیسے نہیں ہو سکتا، دیکھو ایسے مت کرو، ہم گاؤں والوں کو کیا منہ دکھائیں گے“
” تم جیسی عورتوں کا کیا بھروسا“

” فرقان، تم سے غلیظ انسان میں نے آج تک زندگی میں نہیں دیکھا، مجھے ایسی حالت میں چھوڑ کر بھاگ رہے ہو، کسی۔“

ٹوں ٹوں ٹوں۔ اگر فرقان کال بند نہیں کرتا تو شائستہ کو کافی کچھ اور بھی کہنا تھا، جو اس نے منہ میں منمنا کر کہہ تو دیا مگر فرقان تک نہ پہنچا۔

تقریباً ایک ہفتے کے بعد فرقان گھر واپس لوٹا۔ لوٹتے ساتھ ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ طلاق کا پرچہ شائستہ کے گھر بجھوایا۔ طلاق نامہ دیکھ کر شائستہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی اور اس کے باپ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بد کرداری کے لفظ کو پڑھ کر اپنی آنکھوں سے ڈلتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments