پینڈو پروڈکشن آن یوٹیوب


بظاہر پینڈو پروڈکشن لفظ طنزیہ طور پر پسماندہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر میں نے یہ لفظ رشکیہ معنوں میں استعمال کیا ہے۔ شہری لوگ بے شک اپنے آپ کو جتنا مرضی تیس مار خان سمجھ لیں مگر ہم سادہ لوح دیہات کی ذہنی سوچ، دوستی، دشمنی اور جلیبی جیسی سادگی کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ بعض اوقات تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پینڈو کی بجائے لفظ ”شہری“ میں چغد، بے وقوفی، بزدلی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شہر کے لوگ تھانے کچہری کے اتنے عادی نہیں ہوتے جتنے دیہات کے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کو یہاں تک پتہ ہوتا ہے کہ مخالف فریق پر کون کون سی دفعہ لگوا کر پھنسوانا ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ رشتے دار اندر ہو سکیں۔

وہ دشمنی اور دوستی، دونوں کو نبھانا بھی خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح زمینوں پر قبضہ، حق شفع کا استعمال اتنا بروقت کیا جاتا ہے کہ دوسرا فریق منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ کیسے موقع سے فائدہ اٹھا کر دیہاڑی لگانی ہے یا اپنے لیے روزگار پیدا کرنا ہے یہ بھی کوئی ان سے پوچھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہی دیہات میں سے مختلف حیلوں بہانوں سے بھی لوٹنے والے بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جو کبھی پیسہ ڈبل کرنے کے چکر، کبھی انعام کے لالچ میں کبھی انکم اسپورٹ کارڈ کے لالچ میں ان کو لوٹتے ہیں۔

اور پھر جب الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا وجود میں آیا توان پلیٹ فارمز کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلا کہ چلا کہ پینڈو اس میدان میں بھی شہریوں سے بہت آگے ہیں۔ ٹی وی پر اپنی مظلومیت کی خبریں چلوا کر پیسے کمانے سے لے کر فیس بک اور یوٹیوب پر دیہاتی زندگی دکھا کر گھر بیٹھے لاکھوں کمانے والوں کی ایک نہ ختم ہونے والی تعداد بھی معرض وجود میں آ چکی ہے۔ بلکہ اگر میں غلط نہیں تو جس طرح ملک میکسیکو کے بارے مشہور ہے کہ جو میکسیکن شہری یا دیہاتی بھاگ سکتا ہے، چل سکتا ہے یا رینگ سکتا ہے وہ امریکہ چلا جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کے دیہات کے جس بچے جوان بوڑھے عورت مرد کے پاس اسمارٹ فون ہے اس نے یوٹیوب پر اپنا ولاگ یا یوٹیوب چینل کھول رکھا ہے۔ ان ویلاگز میں جہاں ایک طرف سادہ سی نظر آنے والی دیہاتی خاتون اپنی روزمرہ دیہاتی زندگی کو کیمرے کی آنکھ سے قید کرتی نظر آتی ہے تو کہیں کوئی خوبرو دیہاتی دو شیرہ زرق برق لباس پہن کر بظاہر کوئی کھانا بنانے کا طریقہ بتا اور دکھا رہی ہوتی ہے مگر دیکھنے والوں کو اس کے کھانے کی بجائے اس میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔

اسی طرح کہیں میاں بیوی ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں پورا خاندان یوٹیوب پر اپنی ذاتی مصروفیات کو کیمرے کے ذریعے دکھا کر یوٹیوب سے اپنی رقم کھری کر رہا ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی سبسکرپشن ہزاروں میں ہے اور بعض تو ملین کی سبسکرپشن کو چھو رہے ہیں۔ اور ان کا شمار پاکستان کے چند مقبول ترین یوٹیوبرز میں ہوتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کئی بڑے بڑے یوٹیوبر جو اپنی ویڈیوز میں بڑے میٹھے، حلیم الطبع اور منکسر المزاج نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں کتنے بدمزاج اور انسانیت بیزار ہوتے ہیں، اس کا پتہ، گاہے بگاہے اس وقت چلتا ہے جب ان کا کوئی پرستار بھول چوک کر ان کی میٹھی میٹھی باتیں اور ہر بات میں الحمدللہ، بسمہ اللہ سن سن کر ان یوٹیوبرز کی مذہب سے وارفتگی دیکھ کر دیوانہ وار ان کے امیر خانے میں جا دھمکتا ہے تو جو اباً سرد مہری، بے اعتنائی اور ذلالت کا طوق ڈلوا کر ذہنی کوفت اور لمبے سفر کی اذیت سے کراہتا ہوا واپس گھر آ جاتا ہے۔

اب جن کی ویوور شپ ہزاروں سے لے کر لاکھوں میں ہوتی ہے وہ اپنے مکان کی تعمیر بھی شروع کر دیتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ انکو ماہانہ اندازاً کتنی آمدن ہو رہی ہے (اصل رقم کبھی نہیں بتاتے)۔ اب جب عام لوگ صرف باتوں یا کھانوں سے اتنی کمائی دیکھتے ہیں تو ان کو بھی تحریک ملتی کہ وہ اپنا اپنا چینل کھولیں۔ اس مقصد کے لیے رنگروٹ یوٹیوبر اپنا ذاتی یوٹیوب کاروبار کرنے کے لیے، پہلے سے مقبول اور کامیاب یوٹیوبر سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے نئے یوٹیوب چینل شروع کرنے میں ان کی مدد کریں اور اس کے لیے شاؤٹ آؤٹ دیں یا آسان الفاظ میں اس نئے چینل کی سفارش کریں۔

مگر یاد رہے کہ کامیاب یوٹیوبر کسی نئے یوٹیوبر کی سفارش مفت میں نہیں کرتے بلکہ پیسے لے کر یہ کام کرتے ہیں اور یہ ریٹ دس ہزار سے لے کر لاکھوں تک ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک دیہی کھانوں کا بظاہر ماہر یوٹیوبر اپنے بھائی سمیت برطانیہ گیا تو اس نے کسی بھی دیسی دکان کی مشہوری کے لیے مبینہ طور پر دو سے چار ہزار پاؤنڈ (چار سے نو لاکھ پاکستانی روپیہ) چارج کیے ۔ مگر اس دوران کسی چھوٹے یا تھرڈ کلاس یوٹیوبیے کو منہ نہیں لگایا۔ اسے کہتے ہیں ”نالے دیوی دے درشن نالے ونجاں دا بیوپار“

اب تو یوٹیوب کا کام دیہات میں کرونا سے زیادہ پھیل چکا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف ایک دوسرے سے رشتے داریاں کر رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی بھی ہو رہی ہے۔ اور ایک دوسرے کو جھوٹا اور مکار تک کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کھانا پکا کر اپنے ابو سے اس کے ذائقے کی مہر ثبت کرواتا ہے تو کوئی دوسرا اس کے برعکس اپنی اماں جان سے اس کھانے کے ذائقہ دار ہونے کا سرٹیفیکیٹ لیتا ہے۔ اور تو اور کھانے بھی ایسے ایسے بناتے ہیں جو شاید دیہات میں کم از کم میں نے تو ماضی میں بنتے ہوئے نہیں دیکھے۔

کیونکہ یہ بات تو عام زبان زد عام ہے کہ دیہات میں یا تو ساگ پکتا ہے اور اس وقت تک پکتا رہتا ہے جب تک ناف تک کا حصہ سبز نہ ہو جائے یا پھر آلو گوبھی پکائی جاتی ہے اور ذائقہ بدلنا ہو تو گوبھی آلو پکا لیا جاتا ہے اور مرغے کی باری اسی وقت آتی ہے جب کوئی گھر والا بیمار ہو یا مرغا بیمار ہو جائے۔ مگر حیرت ہے اب یہی دیہاتی اپنے کھانوں کی تراکیب میں اپنے پرستاروں کو اٹالین پاستا، پیزا، نووڈل، ڈونٹ وغیرہ بنانا بھی سکھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیں یہ پاکستان کے کون سے دیہی علاقوں کی ڈش ہے؟

میں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے جیسے مبلغ پیدا کرنے کے لیے، کہ کیسے بولنا ہے کیا بولنا ہے اور کیا انداز اپنانا ہے کیمرے کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ یہ سب سکھانے کے لیے پوری اکیڈمی کھول رکھی ہے۔

اسکے مقابلے میں یہ دیہاتی یوٹیوبر جس طرح کیمرے کے سامنے بولتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے جیسے بڑے بڑے ہدایتکار کیمرہ مین یا مبلغ ان کے آگے پانی بھرتے ہوں گے؟ یہ دیہاتی مرد ہو یا عورت ولاگ کا آغاز مخصوص انداز میں کھڑے ہو کر ایک ہاتھ میں اسٹک سے کیمرہ یا پھر اگر کوئی بچہ یا بڑا ان کا کیمرہ اپریٹ کر رہا ہے تو مؤدب انداز سے کھڑے ہو کر ایسے آغاز کرتے ہیں :

” اسلام علیکم فینز، یا پھر۔ ناظرین! امید ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ خیریت سے ہوں گے اور میں بھی الحمد للہ ٹھیک ٹھیک ہوں اور میری دعا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص سے ہمیشہ خوش و خرم رہیں اور غم آپ کے قریب نہ آئے۔ اس دعا کے بعد ہم آج کا ولاگ شروع کرتے ہیں۔ اور یقین کریں ان کے پاس اپنے ولاگ کا سارا اسکرپٹ تیار ہوتا ہے مگر وہ اس طریقے سے اس میں اداکاری کرتے ہیں جس میں ان کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ قدرتی انداز میں فلمایا جا رہا ہے۔ کئی یوٹیوبر اپنے فینز کو تحریک دینے کے لیے مبینہ طور پر خود ہی کچھ چیزیں خرید کر اپنے ناظرین کو بڑے بڑے باکس دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ ہمیں کسی پرستار نے بیرون ملک سے بھیجا ہے۔ حالانکہ دیکھنے میں صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ مال سارا دیسی ہے۔

تو دوستو! میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ ٹیلنٹ کا استعمال اور بروقت استعمال جس طرح یہ دیہاتی یوٹیوبر کر رہے ہیں وہ کسی بھی طرح سے شہری یوٹیوبر سے کم نہیں ہیں۔ اور یقین کریں کہ بعض تو پیسے کمانے کی خاطر اپنی ذاتی زندگی کے وہ پہلو بھی سامنے لانے سے نہیں گھبراتے کہ جسے عموماً ہم کسی دوسرے سے بھی ڈسکس کرنے سے شرما جاتے ہیں۔ اپنے ناظرین کو متحرک رکھنے کے لیے کئی یوٹیوبر اپنا یوٹیوب چینل بند کرنے کا بھی اعلان کرتے ہیں مگر پھر پرستاروں کی بھرپور فرمائش پر دوبارہ کھول لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی اپنے سب سکرائبرز کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے ایک اسٹنٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔

اسی طرح اب یوٹیوبر بھی مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ جو نہ صرف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں بلکہ اپنے متقابل یوٹیوبرز کو نیچا دکھانے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب جبکہ اکثر مقبول یوٹیوبر بڑے بڑے بنگلہ نما گھر اور ایس یو وی گاڑیوں کے مالک بن چکے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا یا ایک وقت آئے گا کہ تمام لوگ یوٹیوبر ہوں گے اور دیکھنے والا کوئی نہ ہو گا؟ اس کے بارے حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہے مگر یہ بات تو طے ہے کہ اگر یوٹیوب زوال پذیر ہوتا ہے تو جو بھی نیا پروڈکٹ بازار میں آئے گا آپ دیہاتی احباب کو کسی بھی طرح شہریوں سے پیچھے نہیں پائیں گے۔

اور یہ بات واقعی قابل غور ہے کہ آپ شہروں میں پڑھ لکھ کر جو سیکھتے ہیں وہ دیہات میں، میٹرک میں بار بار فیل ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت سے آپ کے مقابل آ کھڑا ہوا ہے اور بہت سے پڑھے لکھوں سے زیادہ کمائی بھی کر رہا ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے اپنا فون بجائے فیس بک پر یا یوٹیوب دیکھنے کے اپنا چینل کھولنے کے بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ دیکھیے سوچ می مت پڑیں۔ کیونکہ ”سوچی پیا تے بندہ گیا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments