مجوزہ بلدیاتی ایکٹ گلگت بلتستان کے لیے موزوں نہیں


گلگت بلتستان میں پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ نافذ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ ایکٹ گلگت بلتستان کے زمینی حقائق، سیاسی حرکیات، دیہی مسائل اور معاشرتی ہیئت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وزیر اعلی خالد خورشید کئی محفلوں، ملاقاتوں میں اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ یہاں نافذ کیا جائے گا۔ اور اس وقت محکمہ بلدیات وزارت قانون کے ساتھ مل کر پنجاب کے ڈرافٹ کو جی بی اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

خالد خورشید کو اس بات کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی کہ نظر بظاہر وہ مقامی حکومتوں کے الیکشن کرانے کے لیے پرعزم و مستعد دکھتے ہیں۔ اگر الیکٹیبلز پر مشتمل روایتی حلقہ جاتی سیاست دانوں کی حکومتی ٹیم رکاوٹ نہیں بنتی تو شاید جی بی میں بلدیاتی حکومت بحال ہو جائے۔ تاہم خالد خورشید صاحب کو یہ مشورہ ہے کہ پنجاب کے ایکٹ کو یہاں نافذ نہ کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے بلدیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ ایکٹ لایا جایا۔ مقامی طور پر بلدیاتی قانون بنایا جائے۔ پنجاب کا ایکٹ گلگت بلتستان کے مسائل و وسائل سے کس طرح لگا نہیں کھاتا؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

اختیارات کی تقسیم کی بجائے ارتکاز

ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے تینوں ڈویژن کے شہروں (گلگت، سکردو، چلاس) میں میٹرو پولیٹن کارپوریشنز بنیں گے۔ علاوہ ازیں تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ کونسل کی تشکیل کی تجویز ہے۔ مثلاً سکردو کا ایک سٹی میئر ہو گا۔ سکردو شہر کو چھوڑ کے پورے ضلع سکردو کی ڈسٹرکٹ کونسل ہو گی جس کا سربراہ ڈسٹرکٹ میئر ہو گا۔ یعنی طورمک روندو سے لے کر کھرمنگ کے بارڈر پر واقع سرمک گاؤں تک اور کواردو قمراہ سے لے کر گلتری تک ایک ڈسٹرکٹ میئر دیکھے گا۔ بالفاظ دیگر تین اسمبلی ممبران کے حلقوں کا بوجھ ایک ہی ڈسٹرکٹ میئر پر ڈالا جائے گا۔ یہ اختیارات کی تقسیم نہیں بلکہ اختیارات کا ارتکاز ہے۔ اور یہ مقامی حکومت کی اساس کے ہی خلاف ہے۔

گلگت بلتستان میں آخری بار لوکل باڈیز 2004 میں بنی تھیں۔ تب سے اب تک 18 برسوں میں دنیا نے گورننس کے باب میں کئی کروٹیں بدلی ہیں۔ مقامی حکومتوں کی ساخت اور اتھارٹی کی تجدید نو ہو چکی ہے۔ حکومتوں کے نئے ماڈل آ چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا نیا بلدیاتی نظام دیکھ لیجیے۔ کے پی میں ضلعی حکومت اصولی طور پر ختم کی جا چکی ہے۔ اختیارات کو تحصیل لیول پہ منتقل کرنے کی سبیل پیدا کی جا چکی ہے۔ 19 دسمبر کو صوبے کی 62 تحصیلوں میں عوام نے براہ راست تحصیل میئرز کا انتخاب کیا۔

خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام پنجاب کی نسبت گلگت بلتستان کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا تحصیل میئر زیادہ اثر دار اور با اختیار ہو گا۔ مثلاً تحصیل روندو اپنے تئیں ایک معاشرہ ہے اور سیاسی و انتظامی یونٹ بھی۔ یہاں کے مسائل کم و بیش یکساں ہیں، سیاسی مزاج اور سماجی اسٹرکچر میں بھی فرق نہیں۔ اب روندو کے عوام اپنی مقامی حکومت یعنی تحصیل میئر ڈائریکٹ اپنے ووٹوں سے چنیں گے تو یہ زیادہ بہتر رہے گا یا سکردو، گلتری وغیرہ سے ایک سرمایہ کار ڈسٹرکٹ میئر کے نام پہ مسلط ہو گا تو یہ ٹھیک رہے گا؟ یقیناً مقامی حکومت کا فلسفہ یہ ہے کہ لوکل مسائل سے آشنا کوئی لوکل آدمی ہی منتخب ہو۔

لہذا گلگت بلتستان کی ضرورت ایک پائیدار اور دیرپا بلدیاتی نظام ہے۔ ایسا نظام جو پنجاب کے ایکٹ کے بطن سے جنا ہوا نہ ہو۔ ایسا لوکل گورنمنٹ سسٹم جو گلگت بلتستان کی سماجیات، سیاسی ضروریات، عوامی مسائل اور دیہی و شہری ترقیات کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے۔ ایسی مقامی حکومت جس میں صرف امیروں، ٹھیکیداروں، ملاؤں، راجاؤں، آغاؤں کے لیے جگہ نہ ہو بلکہ معاشرتی شعور اور مسائل کا ادراک رکھنے والے عام آدمی کو بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے استعمال کا موقع ملے۔ مقامی حکومت میں مقامیت نظر آنی چاہیے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments