بھیگی ہوئی اکھیوں نے لاکھ بجھائی رینا


چار کھونٹ بکھری وحشت، بہیمیت اور جہالت سے رمیدگی جب بڑھ جاتی ہے تو دل عجیب عجیب پناہیں ڈھونڈتا ہے۔ دنیا ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے۔ جہاں سے نفرت کی بیل چڑھتی ہے وہیں سے محبت کا نیلا چشمہ بھی پھوٹتا ہے۔ موبائل کھولتا ہوں، یو ٹیوب لگاتا ہوں اور میر کی غزل مہدی حسن صاحب کی آواز میں ڈھل کر کانوں کے راستے دل میں اترتی ہے۔ عشق کے بھاری پتھر اٹھائے تعلیق کے ناتواں دفتر کھولتا ہوں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں ہندوستانی مہدی صاحب کے دیوانے ملتے ہیں۔ نصرت فتح علی خان کی قوالی کے نیچے انہیں دیوتا ماننے والے ہندو ملتے ہیں۔ ریشماں کی آواز میں ایک ہوک اٹھتی ہے تو سرحد کے پار آنسو لفظوں کی زبان ڈھل جاتے ہیں۔ ہندوستان سے پاکستان کی سمت پیار کی پروا چلتی ہے۔

پر ایسا نہیں ہے کہ باد صبا کا ایک ہی رخ ہے۔ لتا کا گیت سرحد کے اس پار روشن ہوتا ہے تو پروانے سرحد کے اس جانب نثار ہوتے ہیں۔ کشور کی آواز ممبئی کے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں ٹھہری نہیں رہتی، بادل کے ہاتھ تھامے، بر دوش ہوا کراچی سے خنجراب تک خوشبو لٹاتی چلی جاتی ہے۔ رفیع کا بھجن دل کو موم کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتا کہ دل مسلمان کا ہے، سکھ کا ہے یا ہندو کا ہے۔

دلی کا لال قلعہ ہو کہ لاہور کا جمخانہ، انہیں فتح کرنا بندوقوں، جہازوں اور میزائلوں سے کبھی ممکن نہ ہو سکا لیکن کچھ آوازیں ہیں جن کے سامنے دونوں ملکوں کا پرچم ہی نہیں، وحشت میں پالے گئے سارے سر بھی نگوں رہتے ہیں۔

لوگ چلے جاتے ہیں۔ نصرت صاحب گئے، مہدی صاحب روٹھ گئے، کشور کا وجود باقی نہیں رہا، لتا بھی چلی گئیں پر وجود اہم نہیں ہے۔ چہرہ بھی بے معنی ہے۔ آواز ہے جو تھی، آواز ہے جو رہے گی۔ یہی ہے جو اس دھرتی میں بوئی گئی محبت کی پہچان ہے۔ یہ محبت زمین کے اندر اتری ہوئی جڑوں کی طرح ہے۔ باہر لاکھ نفرت کے جھکڑ چلا لیجیے، جڑ وہیں قائم رہتی ہے۔ پھر جس دن مکیش کو یاد کر لیجیے، جس وقت امانت علی خان تان چھیڑ دیں، اسی جڑ سے ایک نئی سبز شاخ پھوٹتی ہے۔ غم کا دن ہو یا سرخوشی کی رات، ہم سب ایک ہی دھن پر سرکیڈین ردھم میں ایک ہی رخ کو پلٹتے ہیں۔ یہی اس دھرتی کا سچ ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔

میری زندگی کی دوسری دہائی ختم ہونے سے پہلے ایک قیامت سال میں وہ گود بھی نہیں رہی جس میں سر رکھ کر سو سکتا اور وہ درخت بھی نہیں رہا جس کے سائے میں دھوپ کبھی مجھ تک نہیں پہنچی۔ اب کتنے ہی بے رحم سال گزر گئے ہیں۔ مجھے کھل کر ہنسنا بھول گیا ہے لیکن کوئی رات ایسی نہیں گزری جب میں رویا نہیں ہوں۔ رونے کے بہانے بہت عجیب ہیں اور بہت سارے ہیں۔ میں گوگل کا وہ اشتہار دیکھتا ہوں جس میں 1947 کے بچھڑے دوست اپنے بچوں کی بدولت ستر سال بعد ملتے ہیں تو میں رو دیتا ہوں۔ مجھے ملی نغموں میں چھپی فسطائیت اچھی نہیں لگتی لیکن ”یہ وطن تمہارا ہے“ کی ری پروڈکشن میں جب ایک بچی وہیل چئیر پر نیم دراز بوڑھے مہدی حسن کی آنکھ سے ڈھلکتا آنسو اپنے ہاتھ سے پوچھتی ہے تو میری آنکھ سے بہت سارے آنسو راستہ بنا لیتے ہیں۔ بیتے نہ بتائے رینا میں گلزار جب لکھتا ہے کہ ”بھولے ہوئے ناموں سے کوئی تو بلائے“ تو میرے دل میں ماں کی یاد کی ایسی ہوک اٹھتی ہے کہ گھنٹوں مجھے چین نہیں آتا۔

میں نے عقلیت کی راہ میں ہر عقیدت، ہر تقدس، ہر ارادت تج دی ہے پر اب بھی ”بیکس پر کرم کیجیے، سرکار مدینہ“ سنوں تو گلے میں ایک گولہ سا پھنس جاتا ہے۔ ”من تڑپت ہری درشن کو آج“ کوئی لگا دے تو میری آواز اب بھی ٹھٹھر جاتی ہے۔ ہولی کے دن مسلمان بچے کو نماز کے لیے رنگ سے بچا کر پہنچانے والی ہندو بچی ہو، عید پر ہندو گھر میں بریانی کے ساتھ پہنچنے والا دوست ہو یا مندر کے لیے دیا گیا پرساد مولوی صاحب کو دینے والا بھولا لڑکا ہو، ہر اشتہاری کمپین کمبخت میرے لیے رونے کا سامان بن جاتی ہے۔ امریکا کے برکلی سکول آف میوزک میں درجنوں ہندو اور عیسائی اور یہودی گلوکار ایک آواز میں جب ہندوستان کے اے آر رحمن کے ”کن فیکون“ کا اختتام صدق اللہ العظیم پر کرتے ہیں، میں رو پڑتا ہوں اور موہے رنگ دے بسنتی سن کر جب مجھے کٹتے ہوئے پنجاب کا بین کرتی امرتا پریتم یاد آتی ہے تو میں تب بھی رو دیتا ہوں۔

مجھے لگتا ہے جو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو نہیں سکتا، اس کو سکھائی گئی نفرت، وحشت اور جنون بھی دھل نہیں پاتا۔ مجھے یہ رونا بڑی نعمت لگتا ہے اور میں کیا کہوں کہ میں ان پر بھی رو دیتا ہوں جو رو نہیں سکتے۔ ہم نے تین تہائی صدی رنگ، موسیقی، رقص اور لطافت سے گریز میں گزار دی ہے۔ کچھ دن ان سے محبت میں بھی گزار کر دیکھیے۔ مہدی حسن اور نصرت گئے تھے تو پورا بھارت سوگ میں تھا۔ لتا گئی ہیں تو پاکستان میں دکھ کے بادل گہرے ہیں۔ دکھ کا رشتہ خوشی کے رشتے سے عظیم تر ہے۔ اس کو بڑا سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لتا، کشور، نصرت اور مہدی حسن کا اس سے بڑا احسان کیا ہو گا کہ وہ ہمیں اس رشتے میں باندھنے والی گرہ ہیں۔
آج عابدہ پروین نے کہا کہ جب میں لتا دیدی سے پہلی دفعہ ملی تو ان کے پاؤں میں گر گئی اور جتنی دیر ان کے سامنے رہی، بس روتی رہی۔ میں یہ سن کر بھی رو دیا ہوں۔ اپنا بتائیے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad