پنجاب حکومت یوم حیا منائے


\"\"

ہر طرف برائیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ عام افراد پریشان ہیں۔ روزگار اور صحت کے ہزار مسائل سے سب شہری تنگ ہیں۔ اور اب بے حیائی نے حکومت تک کو اس حد تک گرفت میں لے لیا ہے کہ یوم حیا منانے کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔

ہوا یوں کہ بے حیا پنجاب حکومت نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادویات بنانے اور بیچنے والوں پر نہایت ناروا پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ حکم دیا ہے کہ جعلی ادویات بنانا اور بیچنا ایسا سنگین جرم ہے کہ اس پر عمر قید تک کی سزا اور پانچ کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہوا کرے گا۔ جس عمارت میں ایسا ہو گا، اسے بحق سرکار ضبط کیا جا سکتا ہے، غیر معیاری ادویات بنانے پر بھی پکڑ ہونے لگی ہے، کوئی غیر کوالیفائیڈ شخص اگر ادویات بیچے گا تو اس پر بھی پکڑ ہو گی۔

اس قانون کی بدنیتی کا اندازہ اسی بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ رانا ثنا اللہ نامی ایک وکیل نے پیش کیا ہے۔ رانا صاحب ہٹے کٹے ہیں اور شکل سے مریض نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر بھی نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ ادویات بناتے اور بیچتے ہیں کہ انہیں اصلی یا جعلی ادویات کے کاروبار سے کوئی شغف ہو۔ وہ محض ایک وزیر ہیں۔ اسی لئے اتنے ظالمانہ طریقے سے انہوں نے لوگوں کے روزگار پر خنجر چلایا ہے۔

\"\"

اس پر پنجاب کے علاوہ سندھ اور کے پی کے ادویات سازوں اور میڈیکل سٹور والوں نے بجا طور پر غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال کر دی ہے۔ ہمیں تو ان کا موقف درست دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے ملک میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ اصلی اور خالص ادویات لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ایسے میں مریضوں کو جعلی ادویات بنا کر دینے والوں کو تو قوم کا محسن سمجھا جانا چاہیے۔ ویسے بھی اگر آپ ادویات کی جانچ پھٹک کا طریقہ دیکھیں تو امریکہ تک میں مریضوں کو جعلی اور اصلی دوا دے کر دیکھی جاتی ہے اور بہت سے مریض ان تجربات میں جعلی ادویات سے بھی اسی طرح تندرست ہوتے دیکھے گئے ہیں جیسے اصلی سے۔ تو پھر پاکستان میں جعلی ادویات پر پابندی لگانے کی وجہ یہود و نصاری کا دباؤ ہی ہو سکتا ہے۔ لالچی یہودی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی ایجاد کردہ اصلی ادویات خریدتے رہیں اور ان کی تجوریاں بھرتے رہیں جبکہ جعلی ادویات تو ہم یہاں مقامی طور پر خانہ ساز نسخوں سے ہی تیار کرتے ہیں اور ان کے بنانے، بیچنے اور ان کو کھا کر مرنے سے سب مقامی پاکستانی افراد ہی مستفید ہوتے ہیں اور قیمتی زر مبادلہ بچاتے ہیں۔

کوالیفائیڈ شخص کے دوا دینے اور بنانے کی پابندی بھی عقل و فہم سے ماورا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بیشتر ڈاکٹر جو نسخہ لکھتے ہیں، اسے انگریزی یا فارمیسی کا پی ایچ ڈی بھی نہیں پڑھ سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں متعدد ریسرچوں میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ اسی نوے فیصد نسخے ان کوالیفائیڈ دیسی ڈاکٹروں نے غلط یا ناقابل فہم لکھے ہوتے ہیں۔ تو پھر ان پر غلط دوائی خواہ کوالیفائیڈ شخص دے یا غیر کوالیفائیڈ، اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ معاشرے میں پہلے ہی تعلیم کی اتنی کمی ہے اور اب حکومت ایسی ناروا پابندیاں لگا کر ان پڑھ افراد اور نیم خواندہ شہریوں کے روزگار کا ایک اور دروازہ بند کر رہی ہے۔

ویسے بھی ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ شفا دوا میں نہیں ہوتی بلکہ دوا دینے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر ایک نیک دل طبیب کے نسخے پر کسی نیک دل میڈیکل سٹور والے سے دوا لے کر کھائی جائے تو شفا کیسے نہیں ہو گی؟ دوا خواہ جعلی ہو یا اصلی، اس کا شفایابی کے عمل میں کردار نہیں ہے۔ جس کی جتنی زندگی ہے، اتنی ہی ہو گی۔ دوا خواہ اصلی ہو یا جعلی، موت کی گھڑی کو کون ٹال سکتا ہے؟

\"\"

پنجاب حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کے نتائج مریضوں کی صحت سے کھیلنے کے معاملے سے کہیں زیادہ گمبھیر ہیں اور اس کے ملکی وحدت پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین دفاع طب پاکستان پروفیسر طبیب زادہ طبیب جمیل اصغر خضری نے کہا کہ اس بات سے صوبائیت کو فروغ ملے گا۔ یہی بات پاکستان فارما سوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چئیرمین طاہر اعظم نے بھی فرمائی۔ ہم ان دونوں صاحب نظر افراد سے متفق ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پنجاب کے عوام تو اصلی دوا کھائیں اور چھوٹے صوبوں کے عوام کو جعلی ادویات کھانے کی سہولت دی جائے؟ چھوٹے صوبوں کی حکومتیں اگر اپنے عوام کو جعلی ادویات کھلا رہی ہیں تو پنجاب حکومت کو کیا پریشانی ہے کہ وہ اصلی ادویات پر اصرار کر رہی ہے؟

ہم ادویات سازوں، فروخت کنندہ، ہومیوپیتھی والوں اور نیم حکیموں کے اس مطالبے سے بھرپور اتفاق کرتے ہیں کہ پنجاب حکومت حیا کرے اور جعلی ادویات کے کاروبار سے منسلک افراد کو بے روزگار مت کرے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عوام کی زندگی بچانے کے نام پر جعلی ادویات کے پھلتے پھولتے کاروبار پر ہی پابندی لگا دی جائے؟

ہڑتالی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ عوام پر اپنی نیک نیتی واضح کرنے کی خاطر اپنے اراکین کو حکومت سے رجسٹر کرائیں اور تمام امراض میں ان اراکین کو صرف جعلی یا غیر معیاری ادویات کھانے کا پابند بنائیں تاکہ حکومت اور عوام پر واضح ہو جائے کہ جعلی ادویات بھی اتنی ہی مفید ہوتی ہیں جتنی اصلی۔

چودہ فروری کو یوم حیا منایا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت بھی یوم حیا منائے اور ایسے اقدامات سے باز رہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments