یوم یکجہتی کشمیر


یوم یکجہتی کشمیر ہر سال 5 فروری کو کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور یہ واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“

1988 میں پاکستان میں سارک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ہندوستان کے اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے بھی شرکت کی جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد دوسرے وزیر اعظم ہندوستان تھے جو پاکستان آئے تھے۔ اسی دورہ کے دوران کئی اہم واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک پارلیمان کی عمارت کے ساتھ ہی واقع پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ملکیتی آزاد جموں وکشمیر ہاؤس کا سائن بورڈ بھی اتار لیا گیا۔ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا اصرار تھا کہ بورڈ صفائی کے لیے اتارے گئے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن اسے راجیو گاندھی کی آمد کا شاخسانہ قرار دے رہی تھی۔

اسی دورے کے دوران دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جہاں راجیو گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’کشمیر پر رائے شماری کا اب کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمیری الیکشن میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس بیان پر بے نظیر کی خاموشی نے اپوزیشن کے نعروں کو مزید تقویت دی اور ملک میں ایک عجیب سے فضا پھیل گئی۔ اس وقت کی اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کے راہنماؤں قاضی حسین احمد اور میاں نواز شریف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ قاضی حسین احمد کے اتحادی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر، وزیراعلیٰ پنجاب محمد نواز شریف نے بھی ہڑتال کی حمایت اور پنجاب میں چھٹی کا اعلان کر دیا۔

1990 میں جب میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے تو قاضی حسین احمد کی بھرپور حمایت پر انھوں نے پانچ فروری کو ملک سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منانے اور سرکاری چھٹی کا اعلان کر دیا۔

1990 سے لے کر آج تک ہم ہر سال پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔ ریلیاں نکالتے ہیں۔ مظفر آباد پل پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بناتے ہیں۔ ہر علاقے میں اس مناسبت سے تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 2019 میں تو بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کا بھی خاتمہ کر دیا۔ جس کے باعث کشمیر کو دو حصوں لداخ اور جموں کشمیر میں بانٹ دیا ہے۔ اور اس کو ڈائریکٹ دہلی کے انڈر کر دیا ہے جبکہ مقامی حکومت اور اسمبلی کو ختم کر دیا گیا ہے۔

وہاں اب نہ کوئی مقامی حکومت ہے اور نہ جمہوریت۔ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے۔ صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو نامساعد حالات کا سامنا ہے کئی صحافی جیل کاٹ رہے ہیں۔ شرح اموات دن بدن بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال 2021 میں 350 سے زائد کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1600 سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ 467 سرچ آپریشنز کیے گئے جن میں گھر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ کشمیر کی جد و جہد آزادی میں ایک لاکھ سے زائد معصوم کشمیری بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ صرف بیتے ایک سال میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں سے پیلٹ گنوں کے ذریعے سفاک بھارتی فوجیوں نے بینائی چھین لی

کشمیریوں کے لیے 1947 کے بعد کی بھارت کی دہائیاں مسلسل دھوکے بازی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے عبارت ہے۔ بھارت ہر عالمی فورم پر جمہوریت، ’خودمختاری‘ اور ’خصوصی حیثیت‘ کا نعرہ لگاتا رہا ہے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے بھارت کے اپنے دعوے کی نفی ہو چکی ہے۔ کشمیریوں کو محکوم بنانے کے مکروہ عزائم سامنے آچکے ہیں۔ عالمی طاقتیں امریکہ، روس، چائنہ، فرانس اور اقوام متحدہ کو اب کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرتے ہوئے اس جنت نظیر وادی میں ہونے والے مظالم کو روکنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments