ضلع مالاکنڈ کے اتمانخیل اور پیپلز پارٹی


پختونخوا میں دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جس کے تحت ضلع مالاکنڈ میں لوکل باڈیز کے انتخابات 27 مارچ کو ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے ضلع مالاکنڈ کا سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں پر جوش دکھائی دے رہی ہیں۔ اکثر نے اپنے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

ضلع مالاکنڈ کے تمام علاقے قابل احترام ہیں لیکن بعض علاقے اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحصیل بٹ خیلہ اپنے تاریخی سیاسی کردار کے حوالے سے مالاکنڈ کی سیاست میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی دفعہ ہونے والے انتخابات میں پی پی کے محمد حنیف خان مرحوم اس دیہاتی تحصیل سے اٹھ کر ملک کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ گئے تھے اور یہ تحصیل ان کی آبائی تحصیل ہے۔

دوم پی پی کے جناب ہمایوں خان اور پی ٹی آئی کے جناب شکیل احمد خان کا تعلق اسی تحصیل سے ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ موجودہ الیکشن ان دونوں رہنماؤں کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ سوم پی ٹی آئی سرکار اپنے کیے ہوئے وعدوں میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، اس لئے لوگ بے تابی سے پی پی پی کے ایک کرشماتی امیدوار کا انتظار کر رہے تھے تاکہ پی ٹی آئی کے امیدوار پر اپنی مایوسی کا نزلہ اتار سکیں۔ یہی وجہ ہے پی ٹی آئی نے ایک منظم ورکرز کنونشن منعقد کیا لیکن ابھی تک امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔

پی پی نے بٹ خیلہ تحصیل کے لئے امیدوار کی نامزدگی کے لئے ایک ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا جس میں تمام ورکرز اور متوقع امیدواروں نے شرکت کی۔ اس کنونشن میں اتمانخیل قبیلہ نے اپنے امیدوار کے لئے ٹکٹ کا پر زور مطالبہ کیا۔ زیادہ تر اتمانخیل تخصیل بٹ خیلہ کے نو ویلج کونسلوں میں آباد ہیں، باقی ویلج کونسلوں میں ان کی اتنی خاص تعداد نہیں ہے۔

اتمانخیل قبیلہ کے اس مطالبے اور سوچ کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ ویسے تو اتمانخیل قبیلہ کو شروع ہی سے یہ احساس ہو گیا ہے کہ ماضی میں یوسفزئیوں کے ساتھ بھر پور ساتھ دینے کے باوجود ان کو شیخ ملی کی تقسیم میں بنجر اور پہاڑی علاقے ملے ہیں۔ اس کے متعلق ایک کہاوت زبان زد خاص و عام ہو گئی۔ ”اٹے، گٹلی بہ بائلے“ ترجمہ: ”اٹے بابا نے جو جیتا اس کو ہار دیا۔“ شیخ عطاءاللہ عرف اٹے بابا اتمانخیل قبیلہ کے سربراہ تھے جن کا مزار الہ ڈھنڈ ڈھیرئی میں واقع ہے۔ ضلع مالاکنڈ میں بعض واقعات نے بھی اتمانخیل قبیلہ کی اس سوچ میں شدت پیدا کی اور اب یہ سوچ اس قبیلہ کے رویوں اور کلچر کا حصہ بن گئی ہے اور وہ ہر سیاسی، انتظامی اور قانونی مسئلہ پر دوسرے قبائل کے ساتھ اس احساس کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔

اتمانخیل نے اس سوچ کا برملا اظہار 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حاجی محمد خان، جن کا تعلق اتمانخیل قبیلہ سے تھا، کو صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب کروانے کی صورت میں کیا۔ حاجی محمد خان بعد میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر اس علاقے سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ مالاکنڈ والوں نے محسوس کیا کہ اس قبیلہ نے متفقہ طور اپنے اتمانخیل کو ووٹ دے کر دانستہ طور پر اپنے احساس محرومی کا ازالہ کیا ہے اور ان کی اس سیاسی اٹھان اور بیداری نے مالاکنڈ میں اقتدار پر قابض لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔

انھوں نے اتمانخیل قبیلہ کی اس سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے۔ اس سلسلے میں پہلا کام پیپلز پارٹی کے ایک اہم صوبائی رہنما کے والد محترم نے حاجی محمد خان صاحب کی جیت کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی شکل میں کیا جو الیکشن میں حاجی صاحب کے مد مقابل امیدوار تھے۔ اس رٹ کی بنیاد یہ تھی کہ حاجی محمد صاحب گورنمنٹ کنٹریکٹر ہیں۔ ہائی کورٹ نے حاجی صاحب کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا۔ چونکہ مقدمے کی بنیاد کمزور تھی تو سپریم کورٹ نے فیصلہ پر حکم امتناعی جاری کیا اور پٹیشنر نے پھر اپنے کیس کی پیروی نہیں کی۔ اس نے اتمانخیل میں نا انصافی کے احساس کو اور بھی مضبوط کیا۔

جس طرح انگریز نے پختون قوم کی قوت کو ختم کرنے کے لئے ڈیورنڈ لائن بنایا تھا، بالکل اسی طرح کمشنر مالاکنڈ شمشیر علی خان مرحوم نے حاجی محمد خان ایم پی اے کے ساتھ علاقہ قلنگی میں زبانی کلامی جھگڑے کی پاداش میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 79 (موجودہ پی کے 18 ) میں غیر ضروری رد و بدل کیا اور ان حلقے سے علاقہ کوٹ اور سیلئی پٹی کو علیحدہ کر کے پی کے 80 میں شامل کیا تاکہ اتمانخیل قبیلہ 1985 ء کی طرح اپنا نمائندہ منتخب نہ کرسکے۔

اس نا انصافی کے جواب میں 1988 ء کے انتخابات میں پی کے 80 کے اتمانخیل نے اپنا امیدوار محمد اکبر آف کوٹ کھڑا کیا جس نے پی پی پی کے لعل خان کو کافی ٹف ٹائم دیا۔ پھر انھوں نے اپنے لئے ایک علیٰحدہ تحصیل کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے یہ مطالبہ جزوی طور پر منظور کر کے ایک تحصیل دار اس کے لئے مقرر کیا۔ اخلاقاً پی ٹی آئی کی حکومت کو اتمانخیل تحصیل کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے تپہ بائزی کو تحصیل کا درجہ دے دیا اتمانخیل کو اور ناراض کیا۔ اس کے علاوہ ضلع مالاکنڈ میں اتمانخیل قومی موومنٹ کا قیام اس احساس کی ایک کڑی ہے۔

2001 ء میں اتمانخیل کے تینوں یونین کونسلز کے 60 کو نسلرز نے پی پی کے ناظم اعلیٰ کے نامزد امیدوار کو ووٹ دے کر بٹ خیلہ تحصیل کے نائب ناظم کا عہدہ حاصل کیا اور پی پی کے نامزد امیدوار فیاض گل کا بھائی غریب گل تحصیل کا نائب ناظم بن گیا۔ اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اتمانخیل قبیلہ کے لوگوں کا ایک خاص مائنڈ سیٹ بن چکا ہے جو لاشعوری طور پر ہر سیاسی اور انتظامی سیٹ اپ میں حصہ مانگتے ہیں، اس لئے انہوں نے پی پی سے تحصیل چیئرمین شپ کے ٹکٹ کا مطالبہ کیا اور پی پی کی لیڈرشپ نے اس کے مطالبے کو مانتے ہوئے فیاض گل آف کوٹ کو ٹکٹ دے دیا۔

فیاض گل کے علاوہ چار دوسرے جیالوں محمد اقبال خان، انجنئیر باسط خان، گل پور اور محبوب الرحمٰن نے ٹکٹ کے لئے درخواستیں دی تھیں۔ ان چار امیدواروں کے علاوہ پی پی کے عام کارکنان نے بھی اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ الیکشن کمیشن اور مردم شماری کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر واضح کرتے ہیں کہ آگرہ، سیلئی پٹے اور کوٹ کے 9 ویلج کونسلز کی کل آبادی 64949 اور اس میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 40024 ہے جبکہ باقی 24 ویلج کونسلز میں کل آبادی 182885 اور اس میں رجسٹرڈ ووٹ 112758 ہیں۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ ٹکٹ کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے بڑی آبادی کو نظر انداز کر کے کم آبادی کو ترجیح دی ہے جو مروجہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔

ایک امیدوار نے انٹرویو دیتے ہوئے اس فیصلہ کو پارٹی کے مینی فیسٹیو کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیاض گل نے 2018 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور اس طرح وہ بھٹو ازم سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہے اور وہ کسی صورت میں بھی پارٹی کی طرف سے اس بڑے انعام کے حقدار نہیں ہیں۔

182885 افراد کی آبادی پر مشتمل 24 ویلج کونسلوں کے جیالوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ چونکہ فیاض گل کا گاؤں کوٹ پی کے 19 کا حصہ ہے اور درگئی تحصیل کے لئے محمد علی شاہ باچا کا بھائی احمد علی شاہ باچا کو درگئی تحصیل کے لئے چیئرمین نامزد کیا گیا ہے، اور اس کا تعلق بھی اس حلقے سے ہے گویا ایک صوبائی اسمبلی کے حلقہ میں دو چیئرمین ہوں گے، اس لئے اس طرح تمام سیاسی پاور کو ایک حلقے میں منتقل کرنا نا انصافی ہے۔ محمد اقبال منیجر صاحب نے اپنے سیاسی بصیرت اور طویل انتظامی تجربے کے بنیاد پر انتہائی معقول اور تکنیکی اعتراض اٹھایا ہے کہ قبیلہ کی بنیاد پر کسی عہدے کا مطالبہ کرنا سیاست کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے معیاری لیڈرشپ نہیں ابھر سکتی جو ہر پارٹی کی ضرورت اور عوام کے مفاد میں ہے۔

ہر شخص اپنے آپ کو ٹکٹ کا حقدار سمجھتا ہے لیکن لیڈرشپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پارٹی اور عوام کے مفاد میں فیصلہ کریں اور ٹکٹ دیتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں۔ اس فیصلہ کے خلاف جیالوں میں جو غصہ نظر آ رہا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ لیڈرشپ نے اپنا فرض احسن طریقے سے نہیں نبھایا ہے اور اگر جیالوں کے زخموں کی مرہم پٹی نہیں کی گئی تو سیاسی پاور کے حصول کے لئے پی پی کے اندر مختلف قبائل کے درمیان یہ سینہ زوری مستقل طور پر موجود رہے گی اور پارٹی کو کمزور کرے گی۔ ویسے تو پی پی مالاکنڈ کو پہلے ہی سے لیڈرشپ کے درمیان رسہ کشی نے مفلوج کر رکھا ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ مالاکنڈ پی پی کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
(منیر نیازی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments