brain washing: مجبوریاں اور مرضی


کل عامر لیاقت صاحب کی شادی کی خبر پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان آ گیا۔ کچھ مرد حضرات تو شاید ان کی تین شادیاں کر لینے پر دل برداشتہ تھے مگر اکثر لوگوں کو ان کے اور ان کی زوجہ کے عمروں کے تفاوت پر اعتراض تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جب وہ بچی اٹھارہ سال کی ہے تو وہ ایک عاقل اور باشعور فرد شمار ہوتی ہے سو وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔

ان مباحثوں سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ایک ہی معاشی اور معاشرتی سطح پر رہنے والے دو لوگ اگر شادی کریں تو شاید مرضی کا پہلو سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے مگر جہاں معاشی تفاوت ہو وہاں ’مرضی‘ بہت سے اور نادیدہ عناصر کے تابع بھی ہو سکتی ہے۔ مگر شکر کا مقام یہ ہے کہ قانون نے مرضی تسلیم کرنے کے لئے کم از کم 18 سال کی حد تو مقرر کی ہوئی ہے مگر کیا اس حد پر ہمارے ہاں شعور، ذہنی بالیدگی اور آزادی کا بھی وہی لیول ہوتا ہے جو کہ کسی باشعور ترقی یافتہ معاشرے میں ہے؟

میں اکثر اس لفظ ’مرضی‘ اور ہمارے معاشرے میں اس کے استعمال کے بارے میں سوچتی ہوں۔

ایسی مرضی کی ایک حالیہ مثال یہ بھی ہے عثمان مرزا کے ظلم پر اپنا بیان بدل لینے والے جوڑے کے بارے میں بھی یہی سنا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے بیان بدلا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے پیسے لے کر مرضی بدلی ہے تو کچھ نے کہا کہ مسلسل ہراسانی کے نتیجے میں انہیں بیان بدلنا پڑا۔

آج کل ہم ٹی وی پر ایک ڈرامہ چل رہا ہے ’عشق لا‘ ۔ اس میں دکھایا گیا کہ ایک طاقتور خاندان کا کم عمر لڑکا ایک گھریلو ملازم کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتا ہے اور پھر جب اس ملازم کا خاندان مقدمہ کرتا ہے تو ان کی بیٹی کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور اس وقت رہا کیا جاتا ہے جب وہ اپنی ’مرضی‘ سے قتل کا مقدمہ واپس لے لیتے ہیں۔

شاہزیب قتل کیس ہو یا ایک سیاسی شخصیت کے بیٹے کے ہاتھوں ہونے والا قتل۔ کمزور فرد اپنی مرضی سے مقدمہ واپس لے لیتا ہے اور اس مرضی کو سب تسلیم کرتے ہیں بغیر تحقیق کئیے کہ اس مرضی میں مجبوری کتنی تھی، ہراسانی اور استحصال کتنا تھا۔

میں برقعہ نہیں پہنتی اور میں ذاتی طور پر برقعہ پہننے کو اور اس کالے invisible لباس میں چھپ جانے کو استحصال سمجھتی ہوں۔ اس پر بہت مرتبہ میری دوستوں سے بحث ہوئی۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں کوئی بھی خاتون نیکر یا شارٹ سکرٹ اور برقعہ یکساں آزادی سے پہن سکے، سکرٹ پہننے والی خاتون کو کسی طرح سے نہ کمتر سمجھا جائے ٓ نہ ہی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے اور لباس کا انتخاب کرنے والی خاتون کی کسی طرح سے کنڈیشننگ نہ ہوئی ہو اور وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اپنی مرضی اور آزادی سے کسی بھی لباس کا انتخاب کرسکے اور پھر وہ برقعہ کا انتخاب کرے تو وہ استحصال نہیں ہے، باقی ہر طرح سے اسے مجبور کرنا جبر ہے۔

بالکل ایسے ہی جیسے مار کھانے والی خواتین ہمارے معاشرے میں اپنی مرضی سے مارنے والے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں مگر اس مرضی کے پیچھے معاشی کمزوریاں اور مجبوریاں اور یہ کنڈیشننگ اور دباؤ شامل ہیں کہ ایک اچھی عورت سب جبر برداشت کرتی ہے اور طلاق شدہ عورت کی اکثر دوبارہ شادی نہیں ہوتی۔ کچھ رشتوں میں معاشی طور پر خوشحال خواتین کی بھی gaslighting اور emotional abuse کر کے انہیں ذہنی طور پر ایک صحتمند فیصلہ کرنے سے لاچار کر دیا جاتا ہے اور یہ نادیدہ چیزیں کسی کو نظر نہیں آتیں، صرف نام نہاد ’مرضی‘ دکھائی دیتی ہے۔ جیسے خود کش حملہ آور اپنی ’مرضی‘ سے خود کش حملہ کا انتخاب کرتا ہے مگر وہ conditioning اور brain washing جو اس کی کی جاتی ہے درپردہ رہتی ہے۔

میرے نزدیک مرضی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کسی بھی طرح سے مجبور نہیں ہیں۔ آپ پر کوئی pressure نہیں کہ آپ کے فیصلے کے نتیجے میں آپ پر کوئی معاشرتی دباؤ ہو گا اور آپ کے پاس ایک صحتمندانہ فیصلہ کرنے کی عمر، حالات اور شعور ہیں۔ اس کے علاوہ قانون آپ کو آپ کی کسی بھی طرح کی مرضی پر ڈٹ جانے کی صورت میں تحفظ فراہم کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ اگر آپ اپنی مرضی سے کچھ کر رہے ہیں تو سوچیئے کیا آپ کا وہ انتخاب واقعی ’مرضی‘ ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments