باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ


ذات پات کا نظام ہندوستان اور پاکستان میں صدیوں سے قائم ہے۔ ہندوؤں میں تو یہ اپنی بہت ہی گہری اور مضبوط جڑیں رکھتا ہے۔ اور ان کے مذہب کا حصہ ہے اور آج بھی پوری سختی اور مضبوطی سے قائم ہے۔ اسلام ذات پات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ سختی سے ذات پات، رنگ و نسل پر کسی بھی رتبے اور فضیلت کی قرآن و حدیث میں ممانعت کی گئی ہے۔

اس خطے کے لوگ اگرچہ مذہب بدل کر مسلمان تو ہو گئے لیکن جو ذات پات کا نظام صدیوں سے رائج تھا اور ان کی سوچ اور نظریے کا اٹوٹ انگ بن چکا تھا وہ ان کے اندر سے نہ نکل سکا۔ سو انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد اس نظام کو بھی مسلمان کر لیا۔ وہاں برہمن مذہبا اونچی ذات تھی، مسلمان ہونے کے بعد سید سب سے اونچی ذات ٹھہری۔ اسی نفسیاتی کجی کے زیر اثر مسلمانوں نے اسلام کی جو مقدس اور متبرک شخصیات تھیں ان سے اپنے حسب نسب کو ملانا شروع کر دیا۔ کوئی فاروقی ٹھہرا، کوئی صدیقی بنا، کوئی اعوان کہلایا۔ کسی نے بنو ہاشم سے اپنا رشتہ جوڑا۔ کسی نے انصار سے اپنی رشتہ داری نکالی۔ اور کسی نے بنو عباس سے قربت کا دعوٰی کیا۔ کچھ کو حملہ آور زیادہ عزت دار لگے تو کوئی مغل بنا، کوئی ابدالی کہلایا اور کوئی غزنوی ٹھہرا۔

یہ ہی ذات پات کا نظام صدیوں کی پریکٹس کے بعد ان کے ڈی این اے کا حصہ بن چکا تھا اور اسلام چونکہ عرب سے آیا تھا اس لیے ساری مقدس اور اعلی شخصیات بھی وہاں سے ہی تعلق رکھتی تھیں سو یہاں کے مسلمان سب عرب کے باشندے ٹھہرے۔ جو کہ اپنے دعوے کے مطابق ہجرت کر کے اس خطے میں آباد ہو گئے تھے۔ اسی نظام کی وجہ سے بہت کم مسلمان اپنے آپ کو اس دھرتی کے سپوت کہہ پاتے ہیں۔ اکثریت بزعم خود مہاجر ہے اور سب کے آبا و اجداد کا شجرہ کسی نہ کسی متبرک اور مقدس ذات یا شخصیت سے ملتا ہے۔

زرعی دور تھا تو یہ ذات پات کا نظام بہت ہی مضبوط تھا۔ (اگر چہ ابھی بھی پاکستان میں بہت سی جگہوں پر مضبوط ہے۔ خصوصاً دیہاتوں میں ابھی بھی انتہائی مضبوطی سے قائم ہے ) ۔ دور بدلا، زرعی سے صنعتی دور آیا۔ لوگوں نے دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کی۔ خاندان جو زرعی دور میں بڑے بڑے تھے وہ محدود ہوئے اور محدود ہوتے ہوتے میاں بیوی اور بچوں تک سمٹ گئے۔ شہروں کی آبادی بڑھی۔ شہروں میں براہ راست ذات پات کے نظام پر زد پڑی۔ لوگوں نے دوسری ذات کے لوگوں سے شادیاں کرنی شروع کیں۔ اور شہروں میں اس نظام نے کمزور ہونا شروع کیا۔

صنعتی دور اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ لوگ آسائشات کے عادی ہوئے۔ بنیادی ضروریات زندگی تبدیل ہوئیں۔ روٹی، کپڑے اور مکان کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی بنیادی ضروریات بن گئیں۔ جن کو حاصل کرنے کے لئے دونوں میاں بیوی کو میدان میں اترنا پڑا۔

ان آسائشوں یا بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے پیسے کی ضرورت تھی۔ اس لیے پیسہ شہروں میں سب سے بڑی ذات ٹھہرا۔ لوگوں نے ذات پات کو چھوڑ، پیسہ اور اسٹیٹس دیکھ کر آپس میں رشتہ داریاں کرنا شروع کیں نیز شہروں میں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے بھی جوں جوں شعور بڑھا تو لوگوں نے ذات پات کے نظام کو رد کرنا اور اس پر سوال اٹھانا شروع کیے۔

دیہاتوں میں بھی مشرق وسطی، یورپ اور امریکہ وغیرہ جانے سے پیسے کی ریل پیل ہوئی تو لوگوں نے زمینیں جائیداد بیچ کر اپنے سپوتوں کو باہر بھیجا۔ اور پھر یہ ہی پیسہ اس ذات پات کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ٹھہرا۔ لوگوں نے اس بنیاد پر شادیاں کیں کہ لڑکی کے پاس فلاں ملک کی شہریت ہے۔ یا لڑکے کے پاس برطانیہ کا پاسپورٹ ہے۔ یعنی پیسہ سب سے بڑی ذات ٹھہرا۔ کچھ نے پاسپورٹ کے حصول کے لئے وہاں کی سفید یا سیاہ فام خواتین سے بھی شادیاں کیں۔ کچھ نجیب الطرفین سید زادوں کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے پاسپورٹ کی خاطر گوریوں سے بچے بھی پیدا کیے اور پھر بچوں اور بیوی دونوں کو لات مار کر پاکستان میں شادی رچا لی۔

وہ سید جو غیر سید سے شادی کرنے میں کبھی عار محسوس کرتے تھے۔ اور اپنے آپ کو فخریہ ”نجیب الطرفین“ کہلواتے تھے۔ انہوں نے بھی دھیرے دھیرے غیر سیدوں میں شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ مرد تو پہلے بھی کبھی کبھی غیر سید لڑکی سے محبت کی شادی کر لیتے تھے۔ لیکن سید لڑکی کا غیر سید لڑکے سے شادی کرنا تقریباً ممنوع ہی تھا اور گناہ خیال کیا جاتا تھا۔ کچھ نے تو اسے حرام تک قرار دے رکھا تھا لیکن جونہی پیسہ سب سے اونچی ذات ٹھہرا سیدوں نے اس ذات سے رشتہ جوڑنے کے لئے اپنی نجیب الطرفینی کو ہولے ہولے خیر آباد کہنا شروع کر دیا۔

اسی طرح دوسری ذاتوں کے لوگوں نے بھی اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی رشتہ داریاں بنائیں۔

زمانے کی کروٹ کے بعد آج کی سب سے بڑی ذات پیسہ ہے۔ اب لوگ ذات پات کو دیکھ کر نہیں پیسے یا سٹیٹس کو دیکھ کر شادی کرتے ہیں۔

اس لیے بندہ بے شک پچاس کا بھی ہو۔ دو بچوں کا باپ بھی ہو۔ اگر جیب میں پیسہ ہو، شہرت اور اقتدار بھی ہو تو اٹھارہ سال کی ایک چھوڑ تین تین بیک وقت مل جاتی ہیں۔ اس لیے جلنے کڑھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ آپ بھی پیسہ کمائیے اور اونچی ذات میں شامل ہو جائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments