ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: سیاست یا منافقت؟


ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز صنعت کار اور سیاست دان ہیں۔ آپ کا گھرانا ملک میں چاکلیٹ، بسکٹ اور کنفکشنریز کی متعدد مصنوعات بنانے کے سب سے بڑے کارخانے اسمٰعیل انڈسٹریز لمیٹڈ کا مالک ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت ہے۔ آپ ملک کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے Wharton Business School USA سے پبلک فنانس میں Ph۔ D کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اپنے کیریئر کے آغاز میں آپ کچھ عرصہ آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک رہے لیکن بعد ازاں آپ کل وقتی طور پر اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک ہو گئے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی عملی سیاست کا آغاز مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے شروع کیا جو کہ ملک کے سیاسی اور کاروباری طبقے کے لئے ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا کیوں کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل نوجوان کاروباری میمن کی سیاست کے پر پیچ اور خاردار میدان میں آمد کسی اچنبھے سے کم نہ تھی۔ مسلم لیگ نواز کے تیسرے دور میں آپ نے پہلے فیڈرل بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سربراہ اور بعد ازاں شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمٰی میں مشیر خزانہ اور پھر وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس دوران اپنے پیشرو کے برعکس پاکستانی سکے کی قیمت میں قریباً 13 روپے کی کمی کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا عندیہ کھلے لفظوں میں متعدد بار کیا جسے ملک کے اقتصادی ماہرین نے ایک حقیقت پسندانہ سوچ قرار دیا۔

سال 2018 میں عوامی اور سیاسی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنا آخری بجٹ بذریعہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل پیش کیا ملک کو درپیش شدید اقتصادی بدحالی اور ریکارڈ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے باوجود ان کے پیش کردہ بجٹ میں اقتصادی بحالی کے لئے کسی ٹھوس اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ مرے کو مارے شاہ مدار کے عین مصداق ڈاکٹر صاحب نے انکم ٹیکس کی شرح میں بڑی چھوٹ کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں ملک میں ٹیکس دہندگان کے تعداد میں کم و بیش 50 % کی کمی وقوع پذیر ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے کیا گیا یہ اعلان اس بات کی کھلی غمازی تھا کہ مسلم لیگ نون ملکی سالمیت، خودمختاری اور اقتصادی بحالی کی بجائے آنے والے انتخابات میں صرف اپنے ووٹ بنک میں اضافے کی متمنی ہے۔

مسلم لیگ نون کا یہ اقدام کسی دو دھاری تلوار سے کم نہ تھا کیونکہ اس کی ممکنہ ہار کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے لئے مزید مشکلات اور ووٹرز کی ناراضگی کا عنصر صاف واضح تھا۔ ملک کا ذی شعور طبقہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل سے اس قدر نا حقیقت پسندانہ بجٹ کی امید نہیں کر رہا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے کسی بھی کاسہ لیس سیاستدان کی طرح ملکی معیشت اور سلامتی پر اپنے سیاسی آقاؤں کے مذموم سیاسی مقاصد پورا کرنے کو ترجیح دی جو کہ ایک انتہائی افسوسناک امر تھا۔

بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب آج تک نواز لیگ کی جانب سے دیے گئے وزیر خزانہ کے منصب کے بوجھ تلے دبے نظر آتے ہیں جس کا اظہار وہ بذریعہ تحریر اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں مسلم لیگ نون کی بدترین اور مفاد پرستانہ اقتصادی پالیسیوں، عدلیہ اور ملک کے مقتدر حلقوں سے مخالفت پر مبنی رویے کی پرزور حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن اس قدر خوشامدی رویے کے باوجود وہ مسلم لیگ سے سینٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے اپنی شخصیت کے برعکس کراچی کے حلقہ 249 کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا لیکن بھاری انتخابی اخراجات اور حلقے میں چاکلیٹس اور بسکٹوں کی برسات کے باوجود ہار ان کا مقدر ٹھہری۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی بھی روایتی اور چھوٹی سوچ کے مالک سیاستدان کی طرح اپنی ناکامی کو قبول نہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر ڈالا جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف ہارے بلکہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں میں قریباً 1000 ووٹوں کی کمی وقوع پذیر ہو گئی۔

ڈاکٹر صاحب آج کل مختلف ٹیلیویژن چینلز پر سرشام موجود ہوتے ہیں جہاں وہ نہایت شد و مد سے موجودہ حکومت کو بزعم خود ملک کی اقتصادی حالت کو تباہ کرنے کا ذمہ دار گرداننے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول موجودہ حکومت نے اپنی ناکام پالیسیوں کی بدولت ملک کے صنعتی، تجارتی اور زرعی شعبوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے جس کی بحالی صرف اس حکومت کی برطرفی سے ممکن ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی اعداد و شمار اور 5.37 % کی اقتصادی شرح نمو کے دعوؤں جنہیں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے معتبر اداروں کی تائید حاصل ہے کے عین برعکس ہے۔

زیر نظر مضمون میں ضرورت اس امر کی ہے کہ قارئین کرام کو آگاہ کیا جائے کہ ڈاکٹر مفتاح ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ اپنے بیانیے کے برعکس وزیر اعظم عمران خان کی کامیاب معاشی پالیسیوں سے بڑا فائدہ اٹھانے والی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ادارے اسمٰعیل انڈسٹریز نے مالی سال 2020۔ 2021 میں اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ سیلز حاصل کی جس کی مالیت 37.3 ارب روپے تھی جو کہ سال گزشتہ یعنی 2019۔ 2020 کے مقابلے میں 12.33 % زیادہ تھی۔

اس طرح کمپنی نے سال 2020۔ 2021 میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا بعد از ٹیکس منافع حاصل کیا جس کی مالیت 1.78 بلین روپے تھی۔ یہ منافع پچھلے سال کے حاصل کردہ منافع سے 90.76 % زیادہ تھا۔ اسمعٰیل انڈسٹریز کی اس شاندار کارکردگی کا تسلسل سال 2021۔ 2022 میں بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ جاری ہے جب کمپنی نے سال کی پہلی سہ ماہی میں مبلغ 12.6 بلین روپے کی سیلز کی جو کہ پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے 29.80 % زیادہ تھی۔

اس مدت میں کمپنی کا بعد از ٹیکس منافع 561 ملین روپے رہا جو کہ پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 87.62 % زیادہ ہے۔ اسمعٰیل انڈسٹریز نے گزشتہ دو سالوں سے حکومت کی جانب سے دیے گئے آسان صنعتی قرضوں کا زبردست فائدہ اٹھایا جب اس نے بنک دولت پاکستان کی طرف سے 5 فیصد پر دیے گئے وسیع المدت قرضوں کی مد میں 11 ارب روپے سے زائد قرض حاصل کیا اور اس رقم کو نئی مشینری اور صنعتی بلاک بنانے کی مد میں خرچ کیا۔

اقتصادیات اور صنعتی شعبوں سے وابستہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ اتنی بڑی سرمایہ کاری صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ مستقبل کے منظر نامے میں صنعتی ترقی اور معیشت کی بڑھتی ہوئی نمو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسمٰعیل انڈسٹریز کی حکومتی پالیسیوں سے مستفید ہونے کی کہانی یہاں پر اختتام پذیر نہیں ہوتی کیونکہ اس نے مندرجہ بالا قرضوں کے علاوہ مرکزی بنک سے زیرو مارک اپ پر 1.052 بلین روپے کا قرض اپنے صنعتی کارکنوں کی 6 ماہ کی تنخواہ کی مد میں حاصل کیا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت جس کو ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان کے ساتھی ملک میں اپنے تئیں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اس بات سے مکمل پہلو تہی کرتے ہیں کہ درحقیقت کووڈ کی پہلی لہر میں حکومت نے بنک دولت پاکستان کی جانب سے صنعت اور حرفت کے شعبے کو صفر مارک اپ پر 250 ارب روپے سے زائد کے قرضے محض اس لیے مہیا کیے کہ وہ 6 ماہ تک اپنے کسی بھی کارکن کو COVIDکے نام پر برخاست نہیں کریں گے۔ عمران خان حکومت کا یہ اقدام درحقیقت زبردست داد و تحسین کا مستحق تھا لیکن نہ تو یہ حکومت اس کو مناسب طور پر اجاگر کر پائی بلکہ ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حلقے نے بھی اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جو کہ کسی لحاظ سے ایک مناسب فعل نہیں تھا۔

اس مضمون کے گزشتہ پیروں میں ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان کا ادارہ درحقیقت حکومت وقت کی کامیاب معاشی پالیسیوں کا حقیقی معنوں میں بینیفشری ہے اور اس کی بدولت اس کی کارکردگی گزشتہ سال سے اب تک فقیہ المثال رہی ہے جس کا برملا اظہار انہوں نے مالی سال 2021۔ 2022 کی پہلی سہ ماہی کی شائع کردہ بیلنس شیٹ کے سرورق پر آسمان کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک راکٹ کی تصویر کے ذریعے کیا ہے جس کے نیچے انہوں نے جعلی حروف میں Growing into New Horizons بھی لکھ ڈالا ہے جو کہ اس بات کی پرزور غمازی کر رہا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں کمپنی کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا دیکھ رہے ہیں جو کہ درحقیقت حکومت وقت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی مرہون منت ہے۔

یہاں یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ اسمٰعیل انڈسٹریز کے حصص کی مالیت گزشتہ ایک سال کی مدت میں 390 روپے سے اٹھ کر 589 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جو کہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان کی فیملی کی دولت میں بے پناہ اضافہ کا موجب ہے۔ مالیاتی اعتبار سے یہ اضافہ 11.09 بلین روپے ہے۔

ڈاکٹر مفتاح کی درپردہ حکومتی مالیاتی پالیسیوں پر مکمل اعتماد اس بات سے مزید تقویت حاصل کرتا ہے جب ان کا ادارہ حکومت خیبرپختونخوا کے زیر انتظام چلنے والے بنک آف خیبر میں 24.43 % فیصد شیئرز کا مالک نظر آتا ہے۔ قارئین کرام کے لئے شاید یہ بات باعث حیرت ہو کہ اسمٰعیل انڈسٹریز کی جانب سے بنک آف خیبر میں مبلغ 3.180 بلین روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کی مجموعی مارکیٹ ویلیو اس وقت 4.156 بلین روپے ہو چکی ہے جو کہ گزشتہ 3 سالوں میں بنک کی طرف سے حاصل کردہ 25 % منافع کے علاوہ ہے۔

مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار اسمٰعیل انڈسٹریز اور بنک آف خیبر کی جانب سے جاری کردہ بیلنس شیٹ سے اٹھائے گئے ہیں چنانچہ ان کی صداقت پر کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان کا ادارہ یہ سرمایہ کاری بہ آسانی حکومت پنجاب کے زیرانتظام چلنے والے بنک آف پنجاب میں کر سکتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب جو کہ نون لیگ کے اقتصادی امور کے بڑے سرخیل ہیں اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ بنک آف پنجاب کی مالیاتی صحت انتہائی کمزور ہے چنانچہ ایک سمجھدار سرمایہ کار کے طور پر انہوں نے شہباز شریف کے آخری دور حکومت میں بھی عمران خان کی صوبائی حکومت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے بنک آف خیبر میں اپنی سرمایہ کاری کو بحال رکھا۔ لیکن دوسری جانب وہ حکومت کو نالائق، نا اہل اور بدعنوان گردانتے ہوئے عوام الناس کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونک رہے ہیں۔

اس مضمون کا مقصد عوام الناس کو حزب مخالف کے سیاسی رہنماؤں اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے حکومت وقت کے خلاف کیے جانے والے مضموم پروپیگنڈے کی تردید کرنا ہے۔ ملک اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری انتہائی کمزور مالیاتی نظم و ضبط اور بدعنوانی نے ملک کو اقتصادی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت جسے ورثے میں کوئی ایک مثبت اقتصادی اشاریہ نہیں ملا تھا ملک میں بہتری کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے۔

یہ بات انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ باوجود کووڈ کی عالمی وبا کے ملک میں صنعتی اور زرعی پیداوار مسلسل بڑھ رہی ہے ملکی برآمدات اور بیرون ملک ترسیلات زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جو موجودہ مالی سال کے اختتام پر بفضل خدا 30 ارب ڈالر اور 31 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ جائیں گی۔ درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ میں بڑھتا ہوا خسارہ آنے والے مہینوں میں یقیناً کم ہو گا جب زرعی اجناس اور Covid Vaccine کی مد میں کیے جانے والے اخراجات میں خاطرخواہ کمی واقع ہوگی۔ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں دنیا بھر میں تشویش کا باعث ہیں اور پاکستان اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ امید ہے کہ تیل کی قیمتیں آنے والے مہینوں میں اپنی حقیقی سطح پر آ جائیں گی جو کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کمی کا باعث بنے گی۔

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت وسیع کاروباری اور حکومتی تجربے کی بدولت اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کی اور ان کے سیاسی رفقائے کار کی جانب سے ملکی معیشت کی تباہی کا دعویٰ محض بغض عمران پر مبنی ہے۔ یہ تمام افراد حکومت کی جانب سے جاری اقتصادی اصلاحات اور اس کے تحت دی گئی مراعات سے بھر پور مستفید ہو رہے ہیں۔ جو کہ گزشتہ 2 سالوں میں ان کی دولت اور اثاثوں میں گراں قدر اضافے کا باعث بنی ہیں۔

وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک میں جاری اقتصادی بحالی کا یہ عمل اگر آئندہ انتخابات تک جاری رہا تو اس کے ثمرات عوام الناس تک مہنگائی کی شرح میں کمی اور روزگار میں اضافے کی صورت میں یقینی طور پر پہنچ جائیں گے چنانچہ یہ تمام عناصر حکومت وقت کو گرانے کی کوششوں میں ایک ہی صفحے پر نظر آرہے ہیں در حقیقت یہ تمام لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ دوبارہ اقتدار میں آ کر ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیں۔

تاریخ کے اس نازک موڑ پر ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان جیسے تمام سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور شخصی مفادات سے بالا تر ہو کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں حزب اختلاف کا کردار حکومتی کارکردگی پر کڑی نظر اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے بجائے رہنمائی کرنا ہوتا ہے جو کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تقریباً ناپید ہے۔ اس تمام صورتحال میں جب ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل جیسی شخصیات بھی اپنے مفادات کے تابع نظر آتی ہیں تو یہ بات کسی بھی طور ملکی مفادات کے لیے خوش آئند نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل اور ان کے ساتھیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود عوام الناس کو جھوٹے اور منافرت پر مبنی رویے سے مزید گمراہ نہ کریں وگرنہ آنے والے انتخابات ان کے لیے مزید سیاسی ہزیمت اور رسوائی کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم سے التماس ہے کہ وہ ملکی تاریخ کے اس نازک دور میں پر امید رہے اور کسی یک طرفہ پروپیگنڈے کا شکار نہ بنے کیوں کہ تنگ اور تاریک گلی کے اس پار بہت ساری روشنیاں جگمگا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments