اپنوں نے ہی چھینا تھا برقع میرا


یہ کرناٹک ہندوستان کے کسی کالج کا نہیں بلکہ وطن عزیز ہی کے ایک میڈیکل کالج کا قصہ ہے۔ اور کوئی سنی سنائی نہیں بلکہ راقمہ پر بیتی ہے۔

میرے دادا کبیر خان ایک مطلق العنان حکمران کی مانند تھے ان کے آگے کسی کی دم مارنے کی ہمت نہ تھی ایک بس میں تھی جو ان کی خاص محبت کا فائدہ اٹھا کر اپنی منوا لیتی تھی۔ میڈیکل کالج میں داخلے کا وقت آیا تو دادی کا اعتراض تھا لڑکیوں کو اتنا پڑھا کر کیا کرنا اور چچا کو مخلوط تعلیم سے چشمک تھی رہے پاپا تو بیچارے اللہ میاں کی گائے، ۔ فیصلے کے سارے اختیار ابا یعنی دادا اور چچا کے ہاتھ میں تھے۔ مختار اعلی کو اپنے حق میں رضامند کر لیا تو پھر کسی کی دال کیا گلتی تاہم سرکاری اہلکاروں کی مانند بہت سی تکنیکی پیچیدگیاں پیدا کر کے اڑچن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مثلاً تم اٹھارہ سال کی نہیں ہوئیں اور شناختی کارڈ کے بغیر داخلہ نہیں ملتا۔

اور پاپا کے شناختی کارڈ میں ان کا نام غلط درج ہے۔ لیکن اللہ کو منظور تھا اس لئے میری سہیلی نے اپنے بھائی کے ذریعے یہ سقم دور کروائے اور فارم ب پر داخلہ ہو گیا۔ اگلی ہدایت یہ تھی کہ مخلوط تعلیم والے کالج میں برقع پہن کر جانا ہو گا۔ حکم حاکم مرگ مفاجات پہلے روز سیاہ برقع لپیٹے کالج پہنچی تو زور دار نعروں سے استقبال کیا گیا ”میڈیکل کالج میں برقع نہیں چلے گا“ حالانکہ کراچی کے میڈیکل کالجوں میں جمیعت کی لڑکیاں سفید برقع پہنتی تھیں۔

ایک غول تو جیسے پیچھے ہی لگ گیا اور پھبتیاں کس کس کر روہانسا کر دیا۔ اور جب من من بھر کاجل بہہ کر سانولے رنگ کو کالا کرنے پر تل گیا تو کسی نے آوازہ کسا ”ہائے ہائے، کجرارے دیدے بھر آئے، تو کسی نے کہا اب جانے بھی دو بیچاری پر رقت طاری ہو گئی۔“ اور اس معرکتہ الآرا کارکردگی کے پیچھے شریر لڑکوں کا گروہ نہیں تھا بلکہ فائنل ائر کی لڑکیاں تھیں اور ان کی سربراہی گل رعنا کر رہی تھیں۔ ابتدائی مراحل کے بعد میں گرلز کامن روم پہنچی تو یاجوج ماجوج کا جتھہ وہاں پہلے سے موجود تھا۔

میں نے دم لینے کو برقع اتار کر نشست پر رکھا اور ایک کتاب کے مطالعے میں مشغول ہو گئی۔ جب میں نے جانے کے لئے برقع پہننا چاہا تو وہ ندارد۔ ادھر ادھر، اوپر نیچے، بیگ میں، نشست کے نیچے حتی کہ باتھ روم، سب جگہ چھان مارا مگر مفقود گویا کہ گدھے کے سر سے سینگ۔ اب میں ہراساں، بغیر برقعے کے گھر گئی تو سمجھو کالج کا اگلا دن نصیب نہ ہو گا۔ برابر میں سر پیرزادہ کا کمرہ تھا ان سے جاکر دکھڑا رویا۔ (آنسووں کے ساتھ) انہوں نے اکر فتنہ پروازوں کو خوب سنائیں اور غیرت دلائی کہ لڑکیاں ہی لڑکیوں کو تنگ کر رہی ہیں۔

ان کی سرزنش پر ایک لڑکی نے بتایا کہ برقع گرلز ہاسٹل کی پہلی منزل کے کوریڈور کے آخر میں کسی باتھ روم کی چوکھٹ کے اوپر لٹکا ہوا ہے۔ پوچھتے پاچھتے بتائے گئے مقام تک پہنچے گرد سے آلودہ برقعے کو اشکوں سے دھو کر پہنا اور گھر جاکر دادا کو ساری روداد سنا کر اپنا فیصلہ بھی سنا دیا کل سے ہرگز برقع نہیں پہن کر جاوں گی۔ دادی نے دانتوں تلے انگلی دبا لی اور امی کو مستقبل تاریک نظر آنے لگا مگر محبت اندھی ہوتی ہے چاہے دادا اور پوتی کی ہی کیوں نہ ہو۔

لہذا کالج میں وائٹ کوٹ پہننے کی اجازت دے دی گئی۔ چچا نے کہا دوست اور محلے دار کیا کہیں گے۔ لہذا آرڈیننس پاس کیا گیا کہ گھر سے کالج کے بس اسٹاپ تک کافی گلیاں اور موڑ آتے ہیں اس لئے گھر سے اسٹاپ تک برقع پہنا جائے اسٹاپ پر ہماری اسی سہیلی کا گھر تھا جس نے داخلے میں مدد کی تھی سو اس کے گھر برقع اتار کر رکھتے اور واپسی پر پھر اوڑھ لیتے۔ پر دنیا کب چپ رہتی ہے اب یہ آوازیں سننے کو ملتیں ”گھر والوں کو دھوکہ دیتی ہے آدھے راستے میں برقع گول“ ایک بار پھر ابا کے ساتھ مناظرہ کیا گیا اور برقعے سے آزادی چاہی۔ کہا وائٹ کوٹ اور ڈھائی گز کا دوپٹہ پردے کے احکام پورے کرنے کو کافی ہے۔ ابا قائل ہو گئے حزب مخالف نے اعتراض کرتے ہوئے کہا اتنی آزادی اچھی نہیں۔ ابا نے کہا

”باہر جانے والی لڑکی پر آپ پہرے نہیں بٹھا سکتے۔ جسے غلط راہ پر جانا ہو گا وہ لاکھ پہروں کے باوجود کوئی بھی چلتر کر کے چلی جائے گی۔ صرف اچھی تربیت ہی راہ راست پر قائم رکھ سکتی ہے اور مجھے اپنی تربیت پر اعتبار ہے“

پھر وہ میری جانب مڑے اور کہا ”مجھے امید ہے تم میرا مان رکھو گی مجھے شرمسار نہیں کرو گی“

”جی ابا انشاءاللہ“ یہ عہد نہیں تھا ایک بھاری بوجھ تھا جو میں نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا اور مجھے ہر حال می اس کا مان رکھنا تھا۔ بین السطور اس فرمان میں عشق کے مشک سے پرہیز اور صنف مخالف کی ریشہ دوانیوں سے خود کو بچانا شامل تھا پر کیا کریں آگ اور پات کا ساتھ ہو تو سلگنے سے کون روک سکتا ہے۔ پر ایک صاحب تو جان کو آ گئے اور سہیلی کے ذریعے شادی کا پیام بھی بھجوا دیا میں نے سہیلی سے کہا ایسی بھنک بھی گھر پہنچی تو سمجھو قصہ ختم۔ ان صاحب کو بلا بھیجا۔ اپنے ندیم کے ساتھ شاداں و فرحاں تشریف لائے۔ ہم نے انتہائی سنجیدگی سے کہا

”آپ نے ہمارے مستقبل کی تعمیر و ترقی کے لئے جو ٹینڈر بھرا تھا بصد معذرت اسے نامنظور کیا جاتا ہے“
خوش فہم صاحب تو پکا بکا دیکھتے رہے البتہ ان کے ندیم نے کہا
”وجہ“
”کمپنی ہذا کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وجہ بتائے بغیر کسی بھی ٹینڈر کو منظور یا مسترد کرے“
ہم نے کہا اور محل ملاقات یعنی چوکیدار کی کوٹھری سے باہر نکل آئے۔
کچھ سال کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کے کیفے ٹیریا میں ان کے ندیم ہم سے ملے اور فرمایا

”کیونکہ اب تک تعمیر و ترقی پر دھیلے کا کام نہیں ہوا اس لئے ہمارے دوست ایک بار پھر ٹینڈر داخل کرنے کی اجازت چاہتے ہیں“

”ہم نے کہا نقشے پر تو بہت کچھ ہو چکا ہے گوادر کی طرح کبھی نہ کبھی نظر بھی آ جائے گا۔
ہم چائے کی پیشگی ادائیگی کر چکے ہیں، اپنا بل دے دیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments